روحوں کا ملن مکمل ناول

از قلم ساحر سمیع

Rohon Ka Milan By Sahir Sami

روحوں کا ملن
از قلم ساحر سمیع
مکمل ناول

شاہ میر کے ساتھ شروع سے ہی ایک مسئلہ تھا۔ اسے ایسا لگتا تھا اسکا وجود دو مختلف حصوں میں تقسیم ہے۔ جیسے وہ ایک نہیں دو دو زندگیاں جی رہا ہو
اسکے احساسات بہت عجیب قسم کے تھے
اسے ایسے عجیب سے خواب نظر آتے تھے جن پر یقین کرنا مشکل تھا
بچپن میں اسے یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنے گھر سے اپنے شہر سے کوسوں دور کسی اور جگہ پر ایک دوسرے روپ میں ایک دوسری زندگی جی رہا ہے
ایک ادھورے پن سی خلش ہمیشہ بے چین رکھتی تھی۔
اپنے وجود کی کھوج میں جانے کا دل کرتا تھا
بہت بار ایسا ہوا وہ گھر چھوڑ کے بھاگا اور والد صاحب مشکل سے ڈھونڈ کے واپس لے آتے
سب کو اسکا رویہ سمجھ نہیں آ رہا تھا اور اسے خود اپنا آپ کسی خواب کی مانند محسوس ہوتا تھا
جوں جوں بڑا ہوتا گیا ان احساسات میں شدت آتی گئ
پھر خواب نظر آنے لگے۔۔ دھندلے دھندلےعکس دکھائ دینے لگے
ہاں وہ اسکا وجود ہی تھا جو کہیں گم ہو چکا تھا
جس کی چاہ اسے ہمیشہ بےچین رکھتی تھی
ان احساسات سے نبرد آزما ہوتے ہوتے بچپن گزر گیا
جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے وہ دھندلا عکس نمایاں ہونے لگا
ہیولے ایک روپ دھارنے لگے
کھوج کا دوسرا سرا ہاتھ آنے لگا
اور تقریباً 13 سال کا تھا جب وہ شبیہہ مکمل طرح سے نظر آئ
وہ تو کوئ نسوانی وجود تھا
حسن کا شاہکار۔۔

ایک جیتی جاگتی من موہنی صورت والی دیوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں ملگجی روشنی پھیلی ہوئ تھی۔ چاروں طرف انسانی کھوپڑیاں بکھری پڑی تھیں اور کمرے کے عین وسط میں ایک بہت بڑی مورتی نصب تھی۔ اس کی آنکھیں انتہائی سرخ تھیں۔ نوکیلے لمبے دانت باہر کو نکلے ہوئے تھے اور ان سے لال لال گاڑھا خون ٹپک رہا تھا۔ مورتی کے عین سامنے ایک بوڑھا جادوگر آلتی پالتی مار کے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی سیاہ صورت سے نحوست برس رہی تھی۔ ماتھے پر لال رنگ کا لمبا سا تلک لگا ہوا تھا جو اس کے آدھے گنجے سر تک چلا گیا تھا۔وہ مسلسل کسی منتر کا جاپ کر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور ہونٹ مسلسل ہل رہے تھے۔ قریب کوئ آدھا گھنٹہ گزرا ہوگا جب مورتی کی سرخ قہر برساتی آنکھوں میں آگ کی سی چمک پیدا ہونے لگی
اور پھر ایک بجلی کے کڑاکے جیسی آواز ابھری۔ بازنتوش کیا چاہتے ہو۔ کس لئیے جگایا مجھے۔
بوڑھے نے آنکھیں کھولیں اور مورتی کی سمت دیکھتے ہوئے سجدے میں گر گیا
جے ہو آقا۔ آپکی جے ہو
ہاں ہاں بولو بازنتوش
کیا چاہیئے تمہیں
ہم تیری تپسیہ سے پرسن ہوئے ہیں
بول کیا مانگتا ہے
بازنتوش دراصل بوڑھا جادوگر تھا جو ہر اماوس کی رات ایک کنواری لڑکی کی بلی(قربانی) دیتا تھا تاکہ شیطان اس سے خوش ہو اور اسے اتنی شیطانی طاقت دے کہ وہ اپنی من چاہی خواہشیں پوری کر سکے
جو دل چاہے کر سکے جو پسند ہو وہ حاصل کر سکے
پچھلے کئ مہینوں سے وہ بار بار کنواری نوجوان لڑکیاں ورغلا کر یہاں لے آتا اور شیطان کی اس مورتی کے آگے بھینٹ چڑھا دیتا
اور آج اس کا مقصد پورا ہونے کا وقت آ چکا تھا
اور وہ دل کھول کر شیطان کی مورتی کے آگے اپنا مدعا مقصد بیان کرنے لگا
کچھ دیر تک وہ بولتا رہا اور جیسے ہی وہ خاموش ہوا مورتی سے پھر وہ بجلی کی کڑک سے مشابہہ آواز نکلی
بازنتوش جو تو چاہتا ہے اس کیلیے تمہیں ایک آخری امتحان میں سے گزرنا پڑے گا
ایک خاص جوڑے کو یہاں لا کر بھینٹ دینا ہوگی اور اس جوڑے میں خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنے اندر بہت گہری مقناطیسی طاقتیں رکھتے ہیں
ہزاروں میل دور سے ایک دوسرے کے بارے میں علم ہو جائے گا
ایک دوسرے پر آنے والی مصیبتوں کا ادراک ہو جائے گا
ان طاقتوں کا انہیں علم ہونے سے پہلے پہلے انہیں یہاں پر لے آؤ اور بھینٹ دے دو
تمہاری طاقت ہزار گنا بڑھ جائے گی
جو تم چاہو گے حاصل کر سکو گے
اس کے ساتھ ہی مورتی کی شعلہ بار آنکھیں ویران ہوتی گئیں اور مکمل سپاٹ پتھر سی ہوگئیں
بازنتوش کو جو نشانیاں ملی تھیں ان کے سہارے اسے اپنا ٹارگٹ ڈھونڈ کر شیطان پر قربان کرنا تھا
اور اپنے مقصد کے حصول کیلیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونیورسٹی میں نئے آنے والے طلباء کا لیکچرز لینے کا یہ پہلا دن تھا۔
نئے نئے طلباء آنکھوں میں امیدوں کے چراغ جلائے یونیورسٹی پہنچ رہے تھے
سائیکولوجی کے فرسٹ سمیسٹر کے طلباء اپنے کلاس روم میں پہنچ چکے تھے اور اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے
کچھ سٹوڈنٹ ایک دوسرے سے جان پہچان بنانے کی کوشش میں تھے
کچھ گہری سوچوں میں گم تھے
دائیں طرف کی لائن میں ہیر سر جھکائے اپنے رجسٹر پر کچھ لکھنے میں مصروف تھی
اس کے لئے سب چہرے انجان تھے
اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی اس سے مخاطب ہوئ
ہائے۔۔ میرا نام صدف ہے۔ تمہارا نام کیا ہے
ہیر اپنے خیالوں سے چونکی۔ رجسٹر سے نظر اٹھا کر خالی خالی نگاہوں سے صدف کی طرف دیکھا
چند ثانیے ایسے ہی اسے دیکھتی رہی
ہائے۔۔ ہیلو کہاں کھوئ ہو
صدف نے اسے بازو سے پکڑا اور آنکھیں سکیڑ کر اسکی آنکھوں میں جھانکا۔
آنکھوں میں شوخی۔ لہجہ شرارت سے بھر پور۔ ہیر مسکرا پڑی
ہاں ہاں کہیں نہیں کھوئ۔ بائ دا وے میرا نام ہیر ہے
ہائے۔ کسی رانجھا کی ہیر
صدف چہکنے لگی
ہیر کو اس کے انداز پر ہنسی آئ
کچھ ہی دیر میں وہ دو انجان ہستیاں ایک دوسرے کی سہیلیاں بن چکی تھیں
سائیکولوجی کے پانچویں سمیسٹر میں موجود شاہ میر اپنے فیلوز کے ساتھ مستی کر رہا تھا
ایسے میں صدام نے مشورہ دیا
کیوں نہ یار جا کر نیو کمرز کی کلاس لی جائے
سنا ہے فرسٹ سمیسٹر میں کمال کی لڑکیاں آئ ہوئ ہیں
حوریں ہیں حوریں
شاہ میر نے اسے کہنی ماری
تم باز نہ آنا اپنی چھچھوری حرکتوں سے
لڑکیوں کا سنتے ہیں تمہاری رال ٹپکنے لگتی ہے
پچھلی سیٹ پر بیٹھا قمر جو انکی باتیں سن رہا تھا
فوراً اپنی رائے پیش کرنے لگا
ہاں یار چل کر دیکھیں تو سہی
آج ذرا اچھے سے کلاس لیتے ہیں جونئیرز کی۔
اور کچھ ہی دیر بعد 10 بندوں پر مشتمل ٹیم تیار ہو چکی تھی
6 لڑکے اور 4 لڑکیاں اپنی کلاس سے نکلے اور فرسٹ سمیسٹر والوں کے روم کی طرف بڑھنے لگے
انداز ایسے تھا جیسے کہیں جنگ لڑنے جا رہے ہوں
آگے آگے قمر ، شاہ میر اور صدام چل رہے تھے
انکے پیچھے عظمیٰ اور رفیعہ
پیچھے پیچھے پھر زاہرا، عالیہ، راشد، اعظم اور ندیم۔
اور لمحوں میں ہی وہ فرسٹ سمیسٹر کے روم تک پہنچ گئے
قمر ، شاہ میر اور صدام تو سیدھے چلتے ہوئے کلاس کے فرنٹ پر کھڑے ہو گئے
عظمی اور رفیعہ تھوڑی سائیڈ پر رک گئیں
اور باقی کے سینئیرز ادھر ادھر پھیل گئے
ایسے جیسے اپنے شکار کو گھیرے میں لیا جا رہا ہو
نئے طلباء گھبراہٹ کا شکار تھے۔
وہ سمجھ چکے تھے ان کے ساتھ ریگنگ ہونے والی ہے
سینئرز کا انداز جارحانہ سا لگ رہا تھا
اور پھر باری باری ایک ایک کر کے جونئیرز کو اشارے سے اٹھ کر تعارف کرانے کا کہا گیا
اور پھر شاہ میر کی نگاہ ہیر سے ٹکرائ
آنکھوں سے آنکھیں ملیں
ہیر نے نگاہیں نیچے کر لیں اور شاہ میر کے دل میں ان نگاہوں کی تپش اپنا اثر ڈال چکی تھی
حجاب میں اس کا چہرہ بہت پیارا لگ رہا تھا
بالکل حور کی طرح
شاہ میر کو ہیر کا چہرہ کچھ شناسا محسوس ہوا تھا
ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اک مدت سے ہیر سے واقف ہو
کہیں دیکھا ہوا ہو۔
قمر کی نظر صدف پر تھی۔ وہ بار بار صدف کو دیکھ رہا تھا
آنکھیں مل رہی تھیں
دل مچل رہے تھے
ایسے میں سر رضوان کلاس روم میں داخل ہوئے
سینیرز کو دیکھا اور مسکرانے لگے
کیا بات ہے بھئ سب ادھر ہی ہو جاؤ اپنی کلاس میں
میں نے لیکچر لینا ہے
اور سب سینیرز ہنستے مسکراتے کلاس سے باہر نکلنے لگے
ان میں بس ایک سٹوڈنٹ گہری چپ میں تھا
اور وہ تھا شاہ میر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن گزرتے رہے
سب کچھ معمول پر جاری رہا
سائیکولوجی ڈیپارٹمنٹ میں آتے جاتے اکثر شاہ میر کی نگاہیں ہیر سے ٹکراتی رہتی تھیں اور وہ دل میں اک حسرت سی لئیے اپنی کلاس کی طرف بڑھ جاتا تھا۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ کھنچاؤ کیوں ہے
ہیر کی ذات میں اس کیلیے اتنی کشش اسکی سمجھ سے بالاتر تھی
کبھی ان کا آپس میں تبادلہء خیال نہیں ہوا تھا۔
وہ جس کیفیت سے گزر رہا تھا شاید ہیر بھی اسی کیفیت کا شکار تھی
وہ کہیں تو ملے تھے
ان میں کوئ رشتہ ضرور تھا
لیکن کیا۔۔؟ کوئ نہیں جانتا تھا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی اچھی بھلی گزر رہی تھی۔
دنیا کی الجھنوں سے وہ لا ابالی سی لڑکی محبت کے جذبات سے نا آشنا تھی۔
اس نے ابھی ابھی ہی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھے تھے
اسے دل میں اتھل پتھل ہوتے جذبات کی ابھی کوئ خبر نہیں تھی
اپنے لازوال حسن سے بے خبر اپنی نادانگی میں اس نے ہزاروں دلوں کی دھڑکنیں بے ترتیب کی تھیں
ہزاروں نگاہیں اسے دیکھتے ہی جھپکنا بھول جاتی تھیں
اسکی شوخ رنگ اداؤں سے قوس قزح سی زمین پر اتر آتی تھی
انٹرمیڈیٹ کے بعد اس نے شہر کی ایک مشہور یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا
پہلی بار وہ کو ایجوکیشن کا تجربہ کر رہی تھی
اپنی ذات میں سمٹی ہیر کو اب دنیا کو جاننے کا موقع ملا تھا
اسے پتہ نہیں تھا دنیا کیسی ہے لوگ کیسے ہیں
اس کا اب تک کا سارا وقت بس گھر اور گرلز کالج تک محدود رہا تھا
اپنی فیلوز سے وہ عشق محبت کی کہانیاں ضرور سنتی آئ تھی مگر اسے ان باتوں میں کبھی دلچسپی محسوس ہی نہیں ہوئ تھی
اب جب کہ ماحول بدل گیا تھا
یونیورسٹی کی رنگین دنیا میں اس نے قدم جما لئیے تھے مگر وہ ابھی تک محبت کی چاشنی سے انجان تھی
لیکن اس دن جب اس نے   شاہ میر (مومن) کو دیکھا تھا وہ شاید اپنے احساسات میں تبدیلی کو سمجھ نہیں پائ تھی
کچھ تھا جو اس کے دل میں مچل رہا تھا
اس کی پر سکون زندگی میں طوفان اٹھنے لگا تھا
وہ بچپن سے کسی انوکھے احساس کا شکار رہی تھی
اسے لگتا تھا اس سے کچھ کھو گیا ہو
شاید اس کا وجود
جو کبھی مکمل نہیں تھا
ایک ادھورا پن سا تھا
اور شاہ میر کو دیکھنے کے بعد اسے کچھ اور طرح کے احساسات سے دوچار ہونا پڑا تھا
وہ ان احساسات کو کوئ نام دینے سے قاصر تھی
اسے شاہ میر کی ذات پراسرار سی لگتی تھی
ایک سحر سا تھا۔ ایک کشش تھی
جو صرف ہیر محسوس کر سکتی تھی
ساری دنیا کیلیے وہ صرف عام سا لڑکا۔۔ ہیر کی ذات کا محور بننے لگا تھا
قسمت کے ستارے اپنی جگہ بدلنے لگے تھے
کائنات کی ساری طاقتیں ان کو ملانے کے درپے ہو رہی تھیں
اور ایسے میں ایک شیطانی چکر ان کو اپنے جال میں پھانسنے کیلیے تیار ہو چکا تھا
انکی زندگی بھانک تجربات کی نذر ہونے والی تھی
شیطان کا پجاری بازنتوش جادوگر اپنی مہم پر نکل چکا تھا
اسے ان دو چہروں کی تلاش تھی جنہیں وہ جانتا نہیں تھا
اسے ہر حال میں ان تک پہنچنا تھا
اس کیلئے وہ اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کو تیار تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگل بہت ہی گھنا تھا۔
اتنا گھنا کہ سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچ سکتی تھی
درختوں کی شاخیں آپس میں اس طرح الجھی ہوئی تھیں کے برستی بارش کا پانی بھی ان سے گزر کر زمین تک پہنچنے میں وقت لگ جاتا تھا
جس جنگل میں دن کے وقت بھی کوئ آنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا وہاں رات کے اس وقت وہ بوڑھا ہاتھ میں لاٹھی لیئے آہستہ آہستہ آگے جا رہا تھا
اس وقت جنگل میں مہیب سناٹا چھایا ہوا تھا
کسی کسی وقت دور سے کسی جنگلی جانور کے غرانے کی آواز آتی تھی
یہ بوڑھا بازنتوش جادوگر تھا
ارد گرد سے بےنیاز وہ بس اپنی منزل کی طرف گامزن تھا
اس گھپ اندھیرے میں وہ دن کے اجالے کی طرح دیکھ سکتا تھا اور اسے اپنی راہ پر چلنے میں کوئ دقت نہیں ہو رہی تھی
اس کی جادوئ طاقتوں نے موذی جانوروں کو اس سے دور رکھا ہوا تھا
کافی دور تک پیدل چلتے رہنے کے بعد وہ ایک درخت کے پاس رکا
چند لمحے ادھر ادھر دیکھتا رہا اور پھر بائیں طرف مڑ کر چند قدم آگے گیا
یہاں پر جنگل کا اختتام ہو رہا تھا اور آگے میدانی علاقہ تھا
میدانی علاقے سے کچھ فاصلے پر پہاڑی سلسلہ شروع ہو رہا تھا
بازنتوش چلتا ہوا پہاڑی علاقے میں پہنچ گیا
وہاں وہ چند لمحے رک کر ادھر ادھر دیکھنے لگا
پھر ایک طرف ابھری ہوئ ایک چھوٹی سی چٹان کی طرف بڑھا
چٹان کے قریب پہنچنے پر ایک شگاف سا نظر آنے لگا  جس سے نیچے سیڑھیاں جاتی نظر آ رہی تھیں
بازنتوش سیڑھیاں اترنے لگا اور کچھ ہی دیر میں وہ زیر زمین ایک کافی وسیع علاقے میں موجود تھا
یہاں ایک الگ ہی دنیا آباد تھی
ہر طرف بونے قد کے لوگ آ جا رہے تھے
بازنتوش کو دیکھتے ہی سب تعظیماً جھک کر مہاراج کی جے ہو کرنے لگے
بازنتوش گردن اکڑا کر چلتا ہوا ایک خیمے کی طرف بڑھ گیا
یہ بونے لوگوں کی دنیا تھی
ایک عرصے سے وہ یہاں پر رہتے آئے تھے پھر یہ جگہ بازنتوش کی نظر میں آ گئی تھی
اس نے اپنے شیطانی حربوں اور جادوگری سے یہاں کے لوگوں پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا
وہ اپنے مختلف کام لینے کیلیے ان لوگوں کو استعمال کرتا تھا
بونے لوگوں کے مکان بھی چھوٹے چھوٹے تھے اس وجہ سے بازنتوش نے اپنے لئیے ایک خیمہ لگوا لیا تھا
وہ کافی عرصہ باہر ہی بھٹکتا رہتا یا شیطان کے مندر میں رہتا
یہاں صرف وہ تب آتا جب کوئ بہت ہی ضروری کام پڑ جاتا جو اس کی دانست میں یہ لوگ زیادہ بہتر سرانجام دے سکتے تھے
اور اب بھی اسے ایک ایسی ہی ضرورت آن پڑی تھی جو اسے یہاں کھینچ لائ تھی
جاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونیورسٹی کی بس سٹوڈنٹس سے بھری ہوئ تھی۔ سائیکولوجی ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ڈیپارٹمنٹ کے تمام سٹوڈنٹس کیلیے ایک ٹرپ رکھا گیا تھا
بس بہاولپور سے نکل کر مری کی طرف روانہ ہو چکی تھی۔ تمام سٹوڈنٹس پرجوش تھے
بات بات پر قہقہے گونج رہے تھے
مختلف گروپس چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں الگ الگ موضوع پر گفتگو کر رہے تھے
ایسے میں ہیر پچھلی سیٹوں پر موجود اپنی سہیلیوں کے ہمراہ بیٹھی کن انکھیوں سے شاہ میر کی طرف دیکھ رہی تھی
شاہ میر کی پشت اس کی جانب تھی
صدف کافی دیر سے ہیر کی حرکتوں کو نوٹ کر رہی تھی
بالآخر وہ بول پڑی
کیا بات ہے ہیر
کوئ پریشانی ہے؟
ہیر اس کی بات پر چونک اٹھی
اور پھر ہلکا سا زیر لب مسکرانے لگی
صدف اپنی سہیلی کی اس ادا پر ہنس پڑی
اے لڑکی ۔۔۔! کہیں عشق وشق تو نہیں ہو گیا نا
پاگل ہو یار۔۔ عشق اور مجھے
امپاسیبل۔۔ ہیر بھلا کہاں ہار ماننے والی تھی
ہاں ہاں جیسے میں کچھ جانتی نہیں ہوں
اپنے رانجھا کو چوری چوری جس نظر سے دیکھے جا رہی ہو نا سب سمجھتی ہوں میں
اس کی بات پرہیر جھینپ سی گئ
اس کے گال حیا سے لال ہو گۓ تھے
ایسے میں بس کو زور سے جھٹکا لگا اور ڈرائیور نے کمال مہارت سے بس کو سنبھالتے ہوئے بریک لگائے
چلتی ہوئ بس کے ٹائر اچانک برسٹ ہوئے
یہ کوئ سنسان راستہ تھا جس کے ارد گرد جنگل پھیلا ہوا تھا
ایسے میں بس کا پنکچر ہونا باعث تشویش تھا
دن بھی ڈھلنے لگا تھا اور یہاں کسی قسم کی مدد ملنا بھی ناممکن تھا
ڈرائیور نیچے اتر آیا اور بس کو سٹیپنی لگانے کی تیاری کرنے لگا
اس کی دیکھا دیکھی سٹوڈنٹس بھی بس سے نیچے اترنے لگے
سٹوڈنٹس کے ہمراہ آنے والے ٹیچر منصور علی نے تمام سٹوڈنٹس کو پاس ہی رہنے کی ہدایت کی
کیونکہ یہاں سے آگے پھر جنگل گھنا ہوتا جاتا تھا اور ایسے میں موذی جانوروں کا پایا جانا بعید از قیاس نہیں تھا
ڈرائیور سٹیپنی لگا کے بس کے ٹائرز چینج کر رہا تھا جب جنگل کی طرف سے کسی جانور کے غرانے کی آواز سنائ دی
سٹوڈنٹس ڈر کے مارے واپس بس میں سوار ہونے لگے
افراتفری پھیل گئ تھی
پھر ایک دم زور سے غراہٹ کی آواز آئ
بہت قریب سے کوئ درندہ تاک لگائے بیٹھا تھا
لڑکیاں دہشت کے مارے چیخنے لگیں
ڈرائیور بھی جلدی سے بس میں سوار ہو کر گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کرنے لگا
بس کی ونڈوز بند کر دی گئی تھیں
سٹوڈنٹس آیت الکرسی کا ورد شروع کر رہے تھے
سر منصور علی دہشت سے چیخیں مارتی گرلز کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے
پھر ایک تیندوا کہیں سے چھلانگ لگا کر بس کے قریب آپہنچا
اسکی آنکھوں مین میں وحشت صاف نظر آرہی تھی
انگارے کی مانند جلتی تیز آنکھیں
ایسے جیسے وہ کسی کو تلاش کر رہی ہوں
جسامت میں وہ تیندوا کافی بڑا تھا
لمحہ بہ لمحہ وہ بس کے قریب ہوتا جا رہا تھا
سٹوڈنٹس کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی
کچھ لڑکیاں دہشت سے بیہوش ہو چکی تھیں
کچھ ڈر کے ماتے تھر تھر کانپ رہی تھیں
بہت ہی ہیبت ناک منظر تھا
بوائز کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں تھی
سر منصور علی بچوں کو کیا سنبھالتے وہ خود شاک کی سی کیفیت میں تھے
ایسے میں بس سٹارٹ ہوئ اور ڈرائیور نے جلدی سے گئیر میں ڈالتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی
تیندوا اچھلا اور بس کی چھت پر سوار ہونے کی کوشش کی مگر گاڑی جس تیزی سے آگے بڑھی وہ ہوا میں ہی اچھلتا ہوا واپس زمین پر آ گرا
پھر اس نے جارحانہ انداز میں بس کا تعاقب شروع کر دیا
ایسے لگ رہا تھا وہ یہاں سے ان کو نکلنے نہیں دیگا
بس ڈرائیور اپنے فن میں استاد مانا جاتا تھا
اس نے اس رفتار سے گاڑی بھگائ، اپنے اوسان بحال رکھے ہوئے گاڑی کو سنبھالے رکھا اور تیندوے کو کافی پیچھے چھوڑ آیا
سب نے سکون کا سانس لیا
بیہوش ہوئے سٹوڈنٹس کو ہوش میں لایا جانے لگا
آگے آبادی شروع ہو رہی تھی
سورج مکمل غروب ہو چکا تھا اور ہر سو اندھیرا پھیل چکا تھا
گاڑی برق رفتار سے چلتی جنگل سے کافی دور نکل آئ تھی
اب سکون تھا۔۔ دہشت قدرے کم ہو چکی تھی
مگر یہ واقعہ سٹوڈنٹس کے ذہن کے پردے پر نقش ہو چکا تھا
آسانی سے بھولنے والا نہیں تھا
زندگی بھی عجیب چیز ہے
انوکھے انوکھے تجربات سے گزرتی رہتی ہے
لمحہ بہ لمحہ رنگ بدلتی ہے

یہ زندگی بڑی عجیب سی

کبھی گلزار سی کبھی بیزار سی

کبھی خوشی ہمارے ساتھ ساتھ

کبھی غموں کی برسات سی

یہ زندگی بڑی عجیب سی

کبھی طوفانوں میں بھی ہیں رستے

کبھی منزلوں کا پتہ نہیں

کبھی دو قدم پے زندگی

کبھی صدیوں تک انتظار سی

یہ زندگی بڑی عجیب سی

کبھی ہر پل امتحان ہے

کبھی بن مانگے انعام ہے

کبھی کچھ نہیں کبھی سب کچھ سی

یہ زندگی بڑی عجیب سی

کبھی گلزار سی کبھی بیزار سی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مری کے خوبصورت مناظر میں ایک مسحور کن خوبصورتی کا اضافہ ہوا تھا
یہ خوبصورتی تھی ہیر کی ذات
معصوم سا پیکر اور دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ وہ اپنی فیلوز کے ساتھ انجوائے کر رہی تھی
کچھ فاصلے پر ٹھہرا ہوا شاہ میر ہاتھ میں چائے کا کپ لئیے ہیر کو گہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا
سٹوڈنٹس ادھر ادھر پھیلے ہوئے تھے سب اس وقت پرجوش تھے
سیلفیز لی جا رہی تھیں
یہ کارواں کچھ دیر کیلیے یہاں ٹھہرا ہوا تھا آگے پھر ایوبیہ جانے کا ارادہ تھا
قریب کے اسٹالز سے دھڑا دھڑ شاپنگ کی جا رہی تھی
ہر قہقہے گونج رہے تھے
وہ گزشتہ شام کا واقعہ بھول کر حال کو بھر پور طریقے سے جی رہے تھے
شاہ میر چلتا ہوا ہیر کے قریب پہنچا
ہیر اس کے ایسے قریب آنے سے گھبرا اٹھی تھی
صدف شاہ میر کو آتے دیکھ کر باقی گرلز کو وہاں سے دوسری طرف لے گئ تھی
ہیر اکیلی کھڑی اپنے حجاب کونے کو انگلیوں میں لپیٹنے لگی تھی
اسکے انداز میں ارتعاش تھا
دل تیزی سے دھڑک رہا تھا
شاہ میر اس کے بالکل سامنے آ کر ٹھہرا تھا
اسکی جھکی ہوئ آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا
ہائے ہیر۔۔۔ کیسی ہو
وہ گویا ہوا تھا
ہیر نظریں اٹھا کے اس کی طرف دیکھنے لگی تھی
نگاہوں سے نگاہیں مل چکی تھیں
آنکھیں جھپکنا بھول گئ تھیں
وہ دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کی آنکھوں میں کھوئے ہوئے تھے
بہت سکون تھا۔۔ ٹھہراؤ سا تھا
عشق نے اپنا کام کر دیا تھا
یہ سکون کچھ پل کا تھا
پھر سب تباہ ہونے والا تھا
امتحان در امتحان زندگی ان کا استقبال کرنے کیلئے تیار تھی
زندگی امتحان تو لیتی ہے نا
انکی زندگی میں بھی امتحان لکھے جا چکے تھے
عشق کے امتحان
جو سب کچھ جلا کر خاکستر کرنے والے تھے
پر سکون زندگی طوفان کی نذر ہونے والی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب ٹرپ سے واپس آ چکے تھے
جنگل میں گزری وہ خوفناک شام اور پھر دن کے اجالے میں کی گئ مستیاں ، شرارتیں
اچھی اور بری یادیں زندگی کا حصہ ہیں
یونیورسٹی کے کیفیٹیریا میں بیٹھی ہیر اور صدف ٹرپ کے موضوع پر باتیں کر رہی تھیں
صدف باتوں باتوں میں شاہ میر کا ذکر لے آتی اور ہیر شرما کر رہ جاتی
شاہ میر کے ذکر پر اس کے گال لال ٹماٹر سے ہو جاتے  تھے
ایسے میں انکی کلاس میٹ ستارہ ہاتھ میں نوٹس لئیے دوسرے ہاتھ سے چشمہ ٹھیک کرتے بوکھلائے ہوئے انداز میں نمودار ہوئ اور ادھر ادھر دیکھنے لگی
پھر ان دونوں پر نگاہ پڑتے ہی جھپٹنے کے سے انداز میں ان کے پاس پہنچی
ہائے ہیر۔۔ ہائے صدف
وہ گویا ہوتے ہو ئے کرسی گھسیٹنے لگی جس سے پیدا ہونے والی آواز سے کم از کم دس بندوں نے مڑ کر دیکھا
کیا ہوا ستارہ خیر تو ہے اتنی بوکھلائ ہوئ کیوں ہو
صدف کن انکھیوں سے ستارہ کو گھورتے ہوئے پوچھنے لگی
وہ کیا ہے نا۔۔۔ میڈم نے کل جو ٹیسٹ لینا ہے اس کے نوٹس نہیں مل رہے
تمہارے پاس ہوں تو مجھے دے دو میں کاپی کروا کر واپس کر دوں گی

کیا یار۔۔ ہر وقت پڑھاکو بنی رہتی کو
بندہ تھوڑا انجوائے کرتا ہے تم سٹڈی کو اتنا سیریس لیتی ہو جیسے یونیورسٹی ٹاپ کرنی ہو
صدف ہنستے ہوئے بولی اور اتنے میں کیفیٹیریا کے ویٹر ان کا آرڈر لینے پہنچ چکا تھا
انہوں نے اپنی اپنی پسند کا آرڈر دیا اور باتوں میں مشغول ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فٹ بال گراؤنڈ میں فٹ بال کھیل کر اب فارغ ہو چکے شاہ میر اور قمر پسینہ پونچھتےہوئے گراؤنڈ سے باہر نکلے اور کیفیٹیریا کی طرف بڑھنے لگے
شٹ یار قمر آج ہماری ٹیم نے اچھی پرفارمنس نہیں دکھائ
جیتی ہوئ گیم ہار چکے ہیں
شاہ میر جھنجھلائے ہوئے انداز میں کہا
قمر نے اسکے کندھے پر گردن کے پیچھے اپنا بازو رکھتے ہوئے کہا
کوئ بات نہیں یار ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے
اب اگلی باری جم کر کھیلیں گے چھکے چھڑادیں گے
ٹینشن نہ لو ہماری ٹیم اچھا کھیلی ہے بس تھوڑی بہت جو کوتاہی ہوئ وہ ٹھیک ہو جائے گی
مخالف ٹیم کا کپتان عدنان بہت ہی شاطر کھلاڑی تھا
وہ ہاری ہوئی بازی کو پلٹنے میں ماہر سمجھا جاتا تھا
اس نے شاہ میر کی ٹیم کی بس تھوڑی سی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بازی اپنے نام کر لی تھی جس کا شاہ میر کو بے حد افسوس ہو رہا تھا
دونوں چلتے ہوئے کیفیٹیریا میں داخل ہوئے اور خالی ٹیبل کی تلاش میں نظر دوڑانے لگے
اسی وقت صدف، ستارہ اور ہیر بھی فارغ ہو کر وہاں سے جانے لگی تھیں جب ایک اوباش سے نظر آنے والے لڑکے نے ہیر کے راستے میں ٹانگ اڑائ اور ہیر اچھل کر منہ کے بل فرش پر آگری
اس کے منہ سے چیخ کی آواز نکلی
ٹھیک اسی وقت شاہ میر کے منہ پر جیسے قیامت سی گزری ہو
اسے ایسے محسوس ہوا کسی نے زور دار ہتھوڑا اس کے منہ پر دے مارا ہو
تکلیف سے وہ دوہرا ہوا اور اس کے منہ سے خون کے قطرے نکلنے لگے
کیسے احساسات تھے
چوٹ ایک کو لگ رہی تھی اثر دوسرے پر ہو رہا تھا
قمر حیران و پریشان سا کھڑا کبھی شاہ میر کو دیکھ رہا تھا کبھی کچھ فاصلے پر فرش پر گری ہیر کی طرف دیکھتا
وہ اوباش لڑکا ہیر کو گرانے کے بعد قہقہے لگاتا وہاں سے رفو چکر ہو چکا تھا
صدف نے ہیر کو سہارا دے کر اٹھایا
اس کے منہ سے اور ناک سے خون بہہ رہا تھا اور وہ درد سے کراہ رہی تھی
شاہ میر سنبھل چکا تھا اور اس کی نگاہ بھی اب ہیر پر پڑ چکی تھی
دونوں کی حالت ایک دوسرے سے مختلف نہ تھی
دونوں اشک زدہ آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھے جا رہے تھے
ان کے اب تک کے احساسات اب یکجا ہونے لگے تھے
ان کی ایک دوسرے کو محسوس کرنے والی ایک دوسرے کا درد سمجھنے والی حس جاگ اٹھی تھی
یہی وہ وقت تھا جب بازنتوش کو اشارہ مل چکا تھا کہ اس کی مطلوب دونوں ہستیاں اس وقت بہاولپور میں کسی مقام پر ایک جگہ پر موجود ہیں
اس سے پہلے اسے اشارہ ملا تھا کہ مری سے کچھ فاصلے پر یہ انوکھا جوڑا کسی یونیورسٹی بس میں ایک ساتھ ٹریول کر رہا ہے
اس نے اپنی طاقتوں سے چیتے کا روپ دھار لیا تھا اور فوراََ بس کے راستے پر پہنچ گیا تھا
اس سے دور کچھ فاصلے پر بونے سپاہی درختوں پر چڑھے ارد گرد کا جائزہ لے رہے تھے جب انہیں بس سپیڈ سے آتی نظر آئ تھی
تیر کمان روڈ کے ارد گرد پھیلے بس کو روکنے کا انتظام کرنے لگے تھے
انکے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی کمانیں تھیں اور ترکش میں چھوٹے چھوٹے سے تیر موجود تھے
جیسے ہی بس قریب پہنچی انہوں نے ٹائرز کا نشانہ باندھ کر تیر چلا دئیے تھے
بس کے ٹائر برسٹ ہوتے ہی انہوں نے مخصوص آوازوں کے ذریعے  بازنتوش کو با خبر کیا تھا اور وہ اب اپنی پوری طاقت سے بس کے مسافروں سے ٹکر لینے کو تیار ہو چکا تھا
کافی دیر تو جھاڑیوں میں چھپ کر انکی حرکات و سکنات کا جائزہ لیتا رہا تھا جب اسے لگا حملے کیلئیے بہتر وقت ہے تب تک شاید مسافروں کو خطرے کی بھنک پڑ چکی تھی
بس ڈرائیور جس کمال مہارت سے ممکنہ خطرے سے نمٹتے ہوئے ان سب مسافروں کو بچا لے گیا تھا وہ قابل داد تھا
چیتے کے روپ میں موجود بازنتوش اپنی ناکامی پر پیچ و تاب کھا کر رہ گیا تھا اور اپنا غصہ ان بونوں پر اتارنے لگا تھا
وہ سب مجبوری میں اور ڈر کی وجہ اس کا ساتھ دے رہے تھے ورنہ دل سے اس کے خلاف تھے
بازنتوش کیلیے یہ بہت بڑا مسئلہ تھا کہ وہ اس جوڑے کو جانتا نہیں تھا
دوسرا جب تک وہ جوڑا ایک ساتھ نہ ہوتا تب بھی وہ ان کو کھوجنے سے قاصر تھا
جب دونوں ہی انوکھی طاقت رکھنے والے انسان ایک دوسرے کے آس پاس ہوتے تب ہی وہ ان کو ڈھونڈنے میں  کامیاب ہو سکتا تھا
اور اس بار وہ پورے غیض و غضب کے ساتھ ان کی تلاش میں نکل چکا تھا
اس نے ان کی تلاش کیلئے اپنی ساری طاقت صرف کر دینے کا ارادہ کر لیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ رہا۔۔ پکڑو اسے بھاگنے نہ پائے
قمر کی آواز سنتے اس کے سارے ساتھی چوکنا ہو گئے اور اپنے شکار پر فوکس ہوگئے
وہ ایک ہپی ٹائپ کا لڑکا تھا جو رات کے اس پہر آوارہ گردی کے بعد ہاسٹل واپس جا رہا تھا
اپنے اوپر منڈلاتے خطرے سے بے خبر وہ بس اپنی دھن میں ہوا میں سگریٹ کا دھواں چھوڑتے کانوں میں ہینڈ فری لگائے کسی میوزک کی لے پر سر ہلاتے چلا جا رہا تھا
ہاسٹل ابھی کافی فاصلے پر تھا اور اس کے راستے میں نقاب پہنے قمر ڈنڈوں سے لیس کچھ لڑکوں کے ہمراہ درختوں کی اوڑ میں اسکی تاک میں بیٹھا تھا
جیسے ہی وہ قریب پہنچا ارد گرد سے ڈنڈے بردار نمودار ہو کر اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے لگے
ان کو دیکھ کر وہ سٹپٹا سا گیا
ایسے میں ایک بھاری جسامت والے لڑکے نے اس کے منہ پر پیچھے سے کپڑا ڈالتے ہوئے اس کا منہ اس زور سے دبا دیا کہ وہ چاہ کر بھی چیخ نہ سکے
پھر اسے وہ گھسیٹ کر وہاں سے دور ویران سی جگہ پر لے جانے لگے جہاں انہوں نے اس کی درگت بنانے کیلئے مکمل انتظام کر رکھا تھا
یہ جگہ جھاڑ جھنکار سے بھری ہوئ تھی اور آبادی سے کافی دور تھی
یہ ممکن ہی نہیں تھا کوئ اس طرف کو آنکلے اس لئیے وہ پوری طرح سے مطمئن ہو کر اپنا کام سر انجام دے رہے تھے
وہ لڑکا اپنے آپ کو چھڑانے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا
وہ اسے گھسیٹ کر لے آئے تھے اب اس کے ہاتھ پاؤں باندھے جا رہے تھے
وہ گھگھیا رہا تھا مجھے چھوڑ دو کیا قصور ہے میرا کون لوگ ہو تم
کیوں لے آئے مجھے
قمر اس کے قریب آگیا اور اس کو بالوں سے پکڑ کر اس کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے گویا ہوا
بڑا شوق ہے نا تمہیں لوگوں کے راستے میں ٹانگ اڑانے کا
آج تمہاری ٹانگیں سلامت نہیں رہیں گی
اس کے سرد لہجے کو محسوس کرتے وہ لڑکا مزید خوفزدہ ہوچکا تھا
کک کک کیا مطلب
وہ بری طرح سے ہکلانے لگا تھا
ابھی جب تمہیں تمہارا چھٹی کا دودھ یاد دلائیں گے تب تمہیں ساری سمجھ آ جائے گی کہ تم نے کیا کیا ہے ۔۔ !
ایک لڑکا شیر ہو کر سامنے آیا اور اس پر حقارت سے تھوکتے ہوئے بولا
پھر جیسے بھونچال سا آ گیا ہو
سارے ڈنڈا بردار اس پر پل پڑے تھے اور اس پر وحشیانہ انداز میں ڈنڈے برسا رہے تھے
اسکے حلق سے فلک شگاف چیخیں نکل رہی تھیں مگر اس کی مدد کو آنے والا کوئ نہ تھا
اچھی طرح اس کی پٹائ کر لینے کے بعد جب وہ اذیت سے بیہوش ہوگیا تو وہ رک گئے
اس کے جسم کے مختلف حصوں سے خون رسنے لگا تھا
امید تھی چار پانچ ماہ کیلئے وہ بستر سے نہیں اٹھ پائے گا
یہ لڑکا وکی تھا۔ وقاص عرف وکی
آوارہ گردی۔۔ سگریٹ، شیشہ اسموکنگ اسکی فطرت تھی
بلاوجہ لوگوں کو تنگ کرنا اسکی عادت تھی اور اس وجہ سے کافی بار اسکا نام یونیورسٹی میں بلیک لسٹ کیا گیا تھا مگر اس پر کوئ اثر نہیں پڑتا تھا
کھاتے پیتے گھرانے سے اس کا تعلق تھا اچھے اثر رسوخ کی بنا پر وہ ہمیشہ بچ جاتا تھا۔
کیفیٹیریا میں اس نے جو قبیح حرکت کی تھی اس کا قمر عینی شاہد تھا
اس کے بعد جو ہوا اس پر وہ بہت حیران بھی تھا
یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ چوٹ ایک انسان کو لگے درد دوسرے کو محسوس ہو
یہ تو بس فلموں کی حد تک ہی ممکن لگ رہا تھا
لیکن یہ حقیقت اس پر آشکار ہو چکی تھی
وہ اپنے دوست شاہ میر سے بچپن سے واقف تھا
اس کے احساسات کو کافی حد تک سمجھتا تھا اور کبھی کبھار اس کا مذاق بھی اڑایا کرتا تھا لیکن اب جب یہ واقعہ پیش آیا تو معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں اسے کوئ دیر نہیں لگی تھی
وہ سب کچھ سمجھ گیا تھا
صدف کے ساتھ مل کر اس نے اپنے جگری دوست شاہ میر کو اور ہیر کو سنبھالا تھا ان کی حالت ٹھیک ہونے تک وہ اس لڑکے کو سبق سکھانے کا پختہ ارادہ کر چکا تھا اور شاہ میر کو آگاہ کئیے بنا ہی اس نے پوری تیاری بھی کر لی تھی
اس نے چپکے سے وکی کا اتا پتہ معلوم کرایا تھا اور اس کے معمولات جاننے کے بعد پوری پلاننگ کر لی تھی
اب مسئلہ تھا وکی کو ہاسپٹل پہنچانے کا۔۔
وہ خود سے تو جانے سے رہا اور یہ لوگ اس کو اکیلے مرنے کیلیے بھی نہیں چھوڑ سکتے تھے
قمر اپنے دو چار ساتھیوں کے ذمے لگا کر خود واپس چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصف شب کا وقت تھا۔ شاہ میر اپنے کمرے میں لیٹا گہری نیند سو رہا تھا۔
اچانک ہی اسے محسوس ہوا اس کا دم گھٹ رہا ہے
کوئی غیر مرئ طاقت اس کا گلا دبا رہی ہے
اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر بے سود
اس کا ذہن مکمل طور پر بیدار ہو چکا تھا مگر وہ نہ آنکھیں کھول پا رہا تھا نہ ہی جسم کو حرکت دے پا رہا تھا
سانس بند ہو رہا تھا۔۔ اس نے چیخنے کی کوشش کی مگر کوئ آواز اس کے منہ سے نہیں نکل پا رہی تھی
اس کے حلق میں کانٹے سے چبھنے لگے تھے
وہ اپنا پورا زور لگا رہا تھا مگر ذرا سی جنبش بھی نہیں کر پا رہا تھا
ایسے میں اس کے روم کا دروازہ کھلا اور اس کا روم میٹ قمر جو ابھی باہر کہیں سے آ رہا تھا اس نے شاہ میر کی بگڑتی حالت کو محسوس کر لیا
وہ جلدی سے چاہ میر کے پاس آیا اور اسے کندھے سے پکڑ کر زور سے ہلایا ساتھ پکارنے لگا
شاہ میر۔۔۔ ! شاہ میر کیا ہو گیا ہے تمہیں
ایک جھٹکے سے شاہ میر کی آنکھیں کھلیں اور وہ تیز تیز سانس لیتا دوہرا ہونے لگا
اسے صاف محسوس ہوا تھا کوئ اس کے سینے پر سوار ہو کر اس کا گلا دبا رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیر گہرے گہرے سانس لے رہی تھی
اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیا ہوا تھا
چند لمحے پہلے کی بات تھی اسے سانس نہیں آ رہا تھا۔
وہ چلا رہی تھی مگر آواز  نہیں نکل رہی تھی
اٹھنا چاہتی تھی مگر اس کا جسم جیسےمفلوج ہو چکا تھا
صرف چند لمحوں کا عذاب تھا اور پھر سب نارمل ہونے لگا تھا
کچھ ہی دیر بعد وہ آنکھیں کھول چکی تھی مگر گھور اندھیرا تھا
وہ اٹھنے لگی تو اسے لگا وہ کسی پتھریلی یخ بستہ زمین پر لیٹی تھی
اس کے حواس بحال ہو رہے تھے مگر اس کے ساتھ ہی خوف و حراس اس کی رگوں میں دوڑ رہا تھا
اسے محسوس ہو چکا تھا وہ اپنے بستر پر موجود نہیں تھی
کہاں نرم و گرم بستر کہاں یہ سخت پتھریلی ٹھنڈی زمین
اوپر سے گھور اندھیرا جبکہ اس کی تو عادت تھی ساری لائیٹس جلا کر سونے کی
اس کا دل خوف کی شدت سے دھک دھک کرنے لگا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوری یونیورسٹی میں سنسنی پھیلی ہوئی تھی
سائیکولوجی ڈپارٹمنٹ کی ایک سٹوڈنٹ ہیر رات کسی پہر یونیورسٹی کے ہاسٹل سے لاپتہ ہوئ تھی
ہاسٹل کا گارڈ لاعلمی کا اظہار کر رہا تھا جس سے تفتیش کی جارہی تھی
یونیورسٹی انتظامیہ نے معاملے کو چھپانے کی کوشش کی تھی مگر بات اب بڑھ چکی تھی
دوسرے جانب بوائز ہاسٹل سے بھی وکی نامی ایک لڑکا غائب تھا مگر وہ زخمی حالت میں سٹی ہسپتال سے مل چکا تھا
ہیر کی گمشدگی معمہ بنی ہوئی تھی
کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہوئ اور ہیر ہاسٹل سے لاپتہ ہو گئ تھی
ہیر کے گھر اطلاع کر دی گئی تھی
ہیر کی تلاش شروع کر دی گئی تھی
اس کی فیملی کو جب معلوم ہوا تو ان کیلیے یہ بات کسی دھماکے سے کم نہیں تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیر سمجھ چکی تھی کہ یہ اس کا ہاسٹل روم نہیں کوئی اور جگہ ہے
کوئ نہایت ہی ٹھوس اور پتھریلی جگہ
پھر اس کو آہستہ آہستہ سب یاد آنے لگا
وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اطراف کا جائزہ لینے کی کوشش کرنے لگی
اندھیرے میں کچھ سجھائ نہیں دے رہا تھا
وہ آہستہ آہستہ چلنے لگی
یہ کوئ پہاڑ کے اندر کھودی گئ سرنگ جیسا لگ رہا تھا
ہیر گھبرائ ہوئ تھی اور اس کا جسم پسینے سے شرابور ہو رہا تھا
وہ چلتے چلتے ایک غار کے دہانے پر آ کھڑی ہوئ
غار کے اندر سے روشنی کی جھلک نظر آ رہی تھی
لرزتے قدموں اور دھک دھک کرتے دل کے ساتھ ہیر ہمت باندھے آہستہ سے دبے قدموں غار کے اندر داخل ہو گئ
چاروں طرف چراغ روشن تھے اور درمیان میں ایک بہت بڑی شیطانی مورتی نصب تھی
اس مورتی کی سرخ آنکھیں اور لمبے دانتوں کے درمیان سے نکلی لمبی سرخ زبان اسے ہیبت ناک بنا رہی تھیں
ہیر کو جھرجھری سی آ گئ اور وہ گھبرا کر الٹے قدموں پیچھے ہٹنے لگی
ایسے میں وہ کسی سے ٹکرائ اور نیچے گر گئ
اس نے اٹھ کر پیچھے کی جانب دیکھا تو اس کا وجود جیسے سن ہو کر رہ گیا ہو
وہ کوئ بوڑھا پنڈت لگ رہا تھا جس نے گلے میں انسانی کھوپڑیوں کی مالا پہن رکھی تھی اور ماتھے پر لمبا سرخ رنگ کا تلک لگایا ہوا تھا
اس کی آنکھوں سے وحشت اور چہرے سے نحوست برس رہی تھی
ہیر کی طرف دیکھتے ہوئے وہ فاتحانہ انداز میں مسکرا رہا تھا
اس کی مسکراہٹ میں تمسخر تھا۔۔ طنز تھا۔۔ شیطانیت تھی
آخر ڈھونڈ ہی لیا میں نے تمہیں
میری تپسیہ رنگ لائ آخر
ہیر اس کی باتیں سن کر سکتے میں رہ گئ تھی
اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کسی خطرناک چکر میں پھنس چکی ہے
کیا پتہ یہاں اس کے ساتھ کیا پیش آنے والا تھا
آنے والے وقت کا سوچ کر اس کا دل دہل رہا تھا۔۔ اور پھر وہ تیورا کر گری اور بیہوش ہوگئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ میر کی محبت جو ابھی ٹھیک سے شروع بھی نہیں ہو سکی تھی اس سے اچانک بچھڑ گئ تھی
ہیر کی ذات ابھی تک اسرار کی دھند میں لپٹی ہوئ تھی
اتنا تو وہ جان چکا تھا کہ وہ ہیر ہی تھی جسے وہ بچپن سے محسوس کرتا آیا تھا
اور شاید ہیر بھی یہ حقیقت جان چکی تھی مگر وہ ایسے اچانک کہاں کھو گئی تھی
ابھی جب کہ انکی چاہت کا آغاز ہونے کو تھا وہاں بچھڑنا کیوں مقدر ٹھہرا تھا
شاہ میر دیوانہ ہو چکا تھا
وہ پہلے ہی کم گو تھا مگر اب تو اسے جیسے چپ سی لگ گئ تھی
اس نے اپنی طرف سے بھی بھر پور کوشش کی تھی کہ ہیر کا کچھ پتہ چل سکے
ایسے وقت میں ایک قمر ہی تھا جس نے اسے سنبھال رکھا تھا
ہیر کے گھر میں تو جسے ماتم کا سماں تھا
ہیر کو لاپتہ ہوئے دو ہفتے ہو چکے تھے اور اسکی تلاش بھی اب ٹھنڈی پڑ چکی تھی مگر ایک چنگاری تھی جو اس کے قریبی لوگوں کا جی جلائے جا رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شام فضا میں کچھ زیادہ ہی خنکی تھی
شاہ میر شہر سے کچھ فاصلے پر اپنی بائیک لیکر آیا ہوا تھا اور کھلے آسمان تلے ایک بینچ پر بیٹھا کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا جب وہ بڑھیا سر پر کوئ گٹھڑی اٹھائے لاٹھی کے سہارے چلتی ہوئ اس کے قریب آ پہنچی
وزن کچھ زیادہ تھا شاید جس کی وجہ سے بوڑھیا کو چلنے میں کافی دقت ہو رہی تھی
شاہ میر کے قریب پہنچ کر اس کے سر سے وہ گٹھڑی گر پڑی جسے وہ اٹھانے کی کوشش کرنے لگی
اس کا سانس پھول رہا تھا اور گٹھڑی اس سے نہیں اٹھائ جا رہی تھی
شاہ میر اٹھا اور اس کی مدد کرنے کیلئے آگے بڑھا
وہ رکی اور ہانپتے کانپتے اس سے مخاطب ہوئ
بیٹا میرا سامان تھوڑی دور میرے گھر تک پہنچانے میں میری مدد کرو گے
میں بہت تھک گئی ہوں اور گھٹنوں میں بھی تکلیف ہے اور اب یہ وزن اٹھا کر چلنا میرے لئیے محال ہو گیا ہے
شاہ میر کچھ لمحے سوچتا رہا پھر اس بوڑھیا کے ساتھ چلنے کیلیے حامی بھر لی
قریب ہی اس کی بائیک موجود تھی جسے اس نے کک مار کر سٹارٹ کیا اور بوڑھی عورت کا سامان لاد کر اسے بھی سوار کرا لیا اور اس کے بتائے راستے پر چل پڑا
فاصلہ اس کی توقع سے کچھ زیادہ ہی لگ رہا تھا اور شہر کی رونق سے نکل کر وہ ویران علاقے میں آ پہنچے تھے
اس کے دل میں کوئ بات کھٹکنے لگی تھی
بوڑھیا اتنا سفر پیدل تو طے کرنے سے رہی اس کا اس ویرانے میں گھر ہونا بھی عجیب لگ رہا تھا
شاہ میر سوچنے لگا کہ اسے کیا کرنا چاہیئے
بوڑھیا کو اتار دے یا اس کے ساتھ چلے
اور یہ کوئ جال نہ ہو جس میں وہ پھنس جائے
مختلف خیالات اس کے دماغ پر حملہ آور ہونے لگے
دور دور تک آبادی کا نام و نشان نہیں لگ رہا تھا
اس نے بائیک روک دی اور مڑ کر بوڑھیا کی طرف دیکھنے لگا مگر بوڑھیا موجود ہوتی تو نظر آتی
اسے محسوس بھی نہیں ہوا تھا اور بوڑھیا چلتی بائیک پر سے غائب بھی ہو گئی تھی
وہ سر پکڑ کر رہ گیا
پہلے وہ  سمجھ رہا تھا کہ یہ بوڑھیا چور ڈکیتوں کی آلہ کار نہ ہو کہ شاید وہ لوگوں کو گمراہ کر کے اس ویرانے میں لوٹ لیتے ہونگے مگر اب جو ہوا تھا وہ زیادہ حیران کن تھا
اب اسے معاملہ کچھ پراسرار سا لگ رہا تھا
شاید کوئی آسیب کا چکر
مگر وہ آسیب پر یقین نہیں رکھتا تھا
وہ چکرا کر رہ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ میر حیرت زدہ انداز میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کے گرد دھواں سا جمع ہونے لگا
اس دھویں میں عجیب طرح کی بو تھی اور آنکھوں میں جیسے مرچیں سی چبھ رہی تھیں
یہ دھواں کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی گیا اور پوری طرح سے شاہ میر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا
شاہ میر آنکھیں بند کئیے بری طرح سے کھانسنے لگا تھا
اس کی حالت خراب ہو نے لگی تھی
یہ دھواں اس کے حواس پر چھانے لگا تھا اور بے حد تکلیف دہ تھا
کچھ ہی دیر گزری ہوگی جب شاہ میر کے حواس جواب دینے لگے اور پھر ہر طرف اندھیرا سا چھا گیا
وہ بےہوش ہو چکا تھا
چند لمحوں بعد دھواں چھٹ گیا تو وہاں نہ شاہ میر کا نام و نشان تک نہ تھا
البتہ کچھ فاصلے پر اس کی بائیک اوندھی پڑی ہوئ تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بازنتوش شیطانی مورتی کے آگے آلتی پالتی مارے جاپ کر رہا تھا
اچانک ایک طرف سے ساہ رنگ کا دھواں سا اٹھنے لگا
کچھ ہی لمحوں میں دھویں نے ایک بدروح کی سی شکل اختیار کر لی
راگنی چڑیل حاضر ہے میرے آقا
اس بدروح نے ہاتھ جوڑتے ہوئے جھک کر بازنتوش جادوگر کو کہا
بازنتوش نے آنکھیں کھولیں اور راگنی کی طرف دیکھنے لگا
کیا خبر لائ ہو راگنی
آقا آپکا دشمن آپکے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ چکا ہے
اس کی بات سنتے ہی بازنتوش کی آنکھوں میں چمک سی آگئ اور فرط مسرت سے اس کا سیاہ چہرہ اور بھی سیاہ ہو گیا
چند لمحے بعد وہ ایک غار میں موجود تھا جہاں ایک طرف شاہ میر بےہوش پڑا تھا اور اس سے کچھ فاصلے پر ہی ہیر بھی کسی گہری نیند کے عالم میں پڑی نظر آرہی تھی
وہ کسی جادو کے زیر اثر سوئ ہوئ تھی
بازنتوش بے ساختہ قہقہے لگانے لگا اور پھر وہاں سے باہر نکل گیا
کافی دیر بعد ایک لمبا تڑنگا حبشی اندر آگیا اور بیہوش پڑے شاہ میر کو اٹھا کر اپنے کندھے پر لاد لیا اور اسے لیتا ہوا باہر نکل گیا
کچھ دیر گزری ہوگی جب وہ دوبارہ اندر آیا اور ہیر کو بھی اپنے ساتھ لے گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ میر کے دماغ سے اندھیرا چھٹنے لگا تھا اور کچھ ہی دیر میں اس کا دماغ مکمل طور پر بیدار ہو چکا تھا
وہ اپنی آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھنے لگا
سب کچھ دھندلا دھندلا سا لگ رہا تھا پھر ہر چیز صاف نظر آنے لگی
اس نے اٹھنا چاہا تو اسے محسوس ہوا اس کا ہورا جسم حرکت کرنے سے قاصر ہے
البتہ اسکی گردن گھوم سکتی تھی ادھر ادھر دیکھ سکتا تھا
اسے اپنے قریب سے ہیر کی آواز سنائ دی
شاہ میر۔۔۔ !
اس نے جلدی سے اس طرف دیکھا تو ہیر بھی اسی کی طرح زمین پر پڑی حیرت زدہ انداز میں اسے دیکھ رہی تھی
اس سے پہلے کے وہ کوئ بات کرتے سامنے کی طرف سے تیز روشنی پھیلنے لگی اور پھر ایک خوفناک شیطانی مورتی انہیں نظر آئ
اس کی سرخ آنکھیں حرکت کرتی ہوئ نظر آ رہی تھیں
ایک طرف سے کسی کے چلتے ہوئے قدموں کی آواز آنے لگی
یہ بازنتوش جادوگر تھا جو اپنی پہلی فتح حاصل کر کے بےحد خوش نظر آرہا تھا
اب اسے ان دونوں کی بھینٹ دینی تھی اور یہ رات بھی اس کیلئے خاص تھی
اماوس کی کالی سیاہ رات
اور شاید شاہ میر اور ہیر کی زندگی بھی گہری تاریکی میں بدلنے والی تھی
موت کی تاریکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں بازنتوش کے چیلے جمع ہونے لگے
بازنتوش، شاہ میر اور ہیر کے گرد چکر کاٹنے لگا اور ساتھ ساتھ کسی منتر کا جاپ کرنے لگا اور باقی سارے چیلے ایک طرح کے رقص کے سے انداز میں جھومنے لگے
شاہ میر اور ہیر حیرت اور خوف سے انکی عجیب و غریب رسمیں پوری ہوتے دیکھ رہے تھے
پھر سب رک گئے۔۔ اب وقت ہو چکا تھا قربانی کا
بازنتوش چلتا ہوا پہلے شاہ میر کے پاس رکا اور اس کے ماتھے پر کسی طرح کی راکھ ملنے لگا
پھر یہی عمل اس نے ہیر کے ساتھ کیا اور پھر
تیز تیز منتر دوہرانے لگا
کچھ ہی دیر میں شیطانی مورتی میں حرکت پیدا ہونے لگی اور اسکی آنکھوں سے شعلے سے نکلنے لگے
مورتی اب کسی بھیانک شیطان کا روپ لے چکی تھی جو لمبے لمبے نوکیلے دانتوں کے ساتھ ہیر کی طرف بڑھنے لگا تھا
ہیر کے جسم میں کپکپی طاری ہونے لگی تھی
بازنتوش کے منتر جاری تھے اور وہ عقیدت کے ساتھ شیطان کے آگے سر جھکائے ہوئے تھا
شیطان ہیر کے چہرے کی طرف پہنچا اور جھک کر اسکی گردن میں اپنے لمبے دانت چبھونے لگا
شاہ میر تڑپ رہا تھا تکلیف محسوس کر رہا تھا
ہیر پھٹی پھٹی آنکھوں سے بے بسی کے ساتھ یہ سب دیکھ رہی تھی
اس کی گردن میں نوکیلے دانت چبھ رہے تھے جب شاہ میر زور سے چلایا
اللہ لا الہ الا ہو الحی القیوم۔ اسکی زبان پر آیت الکرسی کا ورد جاری تھا
شیطان ایک جھٹکے سے مڑا اور چیختا چلاتا ہوا ایک طرف کو دوڑا
اس کی ساری شیطانیت ایک مرد مومن کے ایمان کے آگے دھری کی دھری رہ گئ تھی
پھر جیسے بھونچال سا آ گیا ہو
ایک زلزلے کی سی کیفیت تھی
زور دار دھماکے ہونے لگے اور بازنتوش کی طلسماتی دنیا کے سارے حصار ٹوٹنے لگے
اس کا طلسم ختم ہونے لگا
اس کے چیلے بھاگ اٹھے
شیطان اندھا ہو کے دیواروں سے ٹکراتا پھر رہا تھا
سب بد حواس ہو چکے تھے
ایسے میں شاہ میر نے محسوس کیا اسکی بندش کھل چکی ہے
وہ اٹھ بیٹھا اور ہیر کی طرف دیکھا
وہ پہلے ہی بے ہوش ہو چکی تھی
شاہ میر جلدی سے اس کی طرف بڑھا اور اس کو اٹھا کر اپنے کندھے پر لاد لیا اور باہر کی طرف بڑھا
بازنتوش جلدی سے اسکی طرف آیا تاکہ اسے جانے سے روک سکے
شاہ میر کی ایک لات کھا کر وہ اچھل کر زمین بوس ہو گیا
اس کے دوبارہ اٹھنے سے پہلے ہی شاہ میر ہیر کو لئیے وہاں سے نکل چکا تھا۔
اس غار سے باہر نکل کر وہ کھلے میدان میں آ پہنچا دور تک چلتا رہا
اس کے پیچھے ابھی تک کوئ نہیں آیا تھا
ایک جگہ پر وہ رک گیا اور ہیر کو نیچے لٹا کر ہوش میں لانے لگا
چند لمحوں بعد ہیر آنکھیں مسلتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی
شاہ میر پر نظر پڑتے ہی وہ اس سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
اس کے آنسو کا ہر قطرہ شاہ میر کے دل پر گر رہا تھا
حالت اضطراب میں وہ ہیر کو سنبھالنے میں لگا ہوا تھا اس کا ماتھے پر چوم رہا تھا اس کے گال تھپتھپا رہا تھا مگر ہیر کے ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا تھا
وہ جی بھر کے رو چکی تو پھر اسے احساس ہوا اور وہ شاہ میر کے سینے سے الگ ہو گئ
شاہ میر اسے تسلیاں دیتے ہوئے کہنے لگا کہ ادھر سے چلنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ کسی اور مصیبت میں پڑ جائیں
کیونکہ یہ علاقہ شیطان کے قبضے میں تھا اور شیطان سنبھل کر دوبارہ ان پر حملہ آور ہو سکتا تھا
ابھی تک بازنتوش یا اس کے چیلوں نے بوکھلاہٹ میں ان کا پیچھا نہیں کیا تھا ورنہ اب تک دوبارہ انکو قبضے میں لے چکے ہوتے
ہیر اور شاہ میر وہاں سے دور ہونے لگے
وہاں سے نکلنے کا واحد راستہ وہی جنگل تھا اور رات بہت گہری ہو چکی تھی
ایسے میں موذی جانوروں سے مڈبھیڑ ہونا لازمی بات تھی
اگے کنواں پیچھے کھائ والی مثال ان پر صادق آتی تھی
وہ چلتے رہے چلتے رہے
ہیر تھک کر رک گئ اور گہرے گہرے سانس لینے لگی
اب مجھ سے نہیں چلا جا رہا شاہ میر
ہیر پھولی ہوئ سانسوں سے بولی
جنگل ابھی کچھ فاصلے پر تھا
ان دونوں نے رکنے کا فیصلہ کیا
اس بات سے بے خبر کہ ابھی ایک اور قیامت انکی تاک میں تھی
ابھی موت ٹلی نہیں تھی
ہیر کو تھکاوٹ کی وجہ سے نیند آنے لگی
وہ زمین پر ہی سو گئ جب شاہ میر نے اسکا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور ہلکا ہلکا ہاتھ اس کے بالوں میں پھیرنے لگا
اس موم سی گڑیا پر اسے بہت پیار آرہا تھا
جانے کس پل وہ بھی اونگھنے لگا تھا جبکہ موت ان کے سر پر پہنچ چکی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں سے بونوں کا علاقہ شروع ہو رہا تھا
وہ دونوں بے خبر نیند کی آغوش میں پہنچ چکے تھے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں بونے انکو اپنے گھیرے میں لے چکے تھے
یہ ٹڈی دل کا لشکر آہستہ اہستہ شاہ میر اور ہیر کے گرد دائرہ تنگ کرتا جا رہا تھا تاکہ شکار بھاگ کر نہ جا سکے
بونوں کا سردار اپنے سپاہیوں کے ہمراہ تھا اور انکو ہدایات دے رہا تھا
اسکی ہدایت کے مطابق ہی سوئے ہوئے شاہ میر اور ہیر کو کوئ بیہوش کر دینے والی جڑی بوٹی سنگھا دی گئ تاکہ وہ نیند سے جاگ کر کوئ مشکل نہ کھڑی کر دیں
پھر وہ آہستہ آہستہ انکو گھسیٹ کر لے جانے لگے
پتھریلی زمین پر ہیر کا نرم و نازک جسم رگڑ کھا کھا کر زخمی ہو رہا تھا مگر وہ بدستور بیہوش تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیطان واپس جا چکا تھا
اسکی وہ مورتی اپنی جگہ پر موجود تھی
بازنتوش اس کے آگے ہاتھ جوڑے گڑگڑا رہا تھا
اس کے سارے کئیے کرائے پر پانی پھر چکا تھا
اماوس گزر چکی تھی اور اب اسے پھر اگلی اماوس تک کا انتظار کرنا تھا
اسکی ساری خوشی ماند پڑ چکی تھی
وہ طاقت کے حصول کیلئے پاگل ہو رہا تھا
اسکا شکار کس قدر آسانی سے بچ کر نکل گیا تھا
اب تک بازنتوش اندھیرے میں رہ کر شاہ میر اور ہیر کو تلاش کرتا رہا تھا کیونکہ وہ ان کو جانتا نہیں تھا مگر اب وہ انکی اچھی طرح سے جان چکا تھا تو دوبارہ انکو ڈھونڈ نکالنا اس کیلئیے خاص مسئلہ نہیں تھا
اب اسے شیطان کی حد سے زیادہ خوشامد کرنی تھی کیونکہ شیطان اس واقعے کے بعد اس سے کنارہ کر چکا تھا
شیاطین بہت ساری اقسام کے ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے ان کے نام بھی مختلف ہوتے ہیں
اصل شیطان جس کا نام پہلے عزازیل تھا پھر ابلیس ملعون پڑ گیا اس نے انس و جن کو بہکانے کیلئیے اپنی اولاد کو مختلف کام سونپے
یہی اس کی اولاد اس کے چیلے مختلف شیاطین ہیں اور سب کو مخلتف کام سونپے گئے ہیں
انسانوں کو بہکانے سے لیکر ڈرانے تک،  وسوسے ڈالنے تک ہر طرح کے کام ان کے ذمے ہوتے ہیں مگر درحقیقت شیاطین جتنا بھیانک نظر آتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ڈرپوک ہوتے ہیں
یہ شیطان بھی ان میں سے ایک تھا
شاہ میر کے سامنے وہ منہ کی کھا چکا تھا اب وہ دوبارہ شاہ میر کا سامنا کرنے سے کترا رہا تھا کیونکہ شاہ میر کی ایمانی قوت کے آگے وہ کانپ اٹھا تھا
شیاطین کبھی چپ نہیں بیٹھتے جہاں منہ کی کھائیں وہاں وہ زیادہ شدت سے حملہ آور ہوتے ہیں بدلہ لینے کیلئیے اور اپنے مقصد کو کامیاب بنانے کیلیے
اور یہ شیطان بھی اپنا بدلہ لینے کیلیے منصوبہ بندی کر رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بونوں کا لشکر شاہ میر اور ہیر کو پتھریلی وادی کے بیچوں بیچ گھسیٹتا ہوا ایک پراسرار غار کی طرف لے جا رہا تھا۔
انکے سردار نے انہیں خیموں کی طرف لانے کی بجائے ایک ایسی غار کی طرف لیمے جانے کا کہا تھا جو انکے خیال میں بازنتوش سے خفیہ تھی
غار کے اندر کا ماحول تاریک اور سرد تھا، جہاں جگہ جگہ عجیب سی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ ان روشنیوں کا ذریعہ کچھ مخصوص پتھر تھے جو غار کی دیواروں میں جڑے ہوئے تھے، اور ان سے عجیب سی توانائی خارج ہو رہی تھی۔

بونوں کا سردار اپنی قوم سے بہت مختلف تھا۔ عام بونوں کے مقابلے میں اس کا قد لمبا تھا، اور اس کی آنکھیں سرخ شعلوں کی مانند چمک رہی تھیں۔ وہ شاہ میر اور ہیر کی طرف دیکھ کر مطمئن انداز میں مسکرایا۔
اس نے شاہ میر اور ہیر کو بازنتوش کے حوالے کرنے کی بجائے ایک اور منصوبہ بنا لیا تھا
“یہ دونوں ہمارے لیے خزانہ ثابت ہوں گے،” اس نے اپنی کرخت آواز میں کہا۔
“مگر سردار، یہ انسان ہیں، ان سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟” ایک بونے نے سوال کیا۔
سردار نے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔
“تمہیں کچھ نہیں معلوم۔ یہ دونوں خاص ہیں۔ ان کے اندر وہ طاقت ہے جسے ہم صدیوں سے تلاش کر رہے ہیں۔ اس طاقت سے ہماری نسل کو ناقابل شکست بنایا جا سکتا ہے۔”

شاہ میر اور ہیر کو غار کے ایک کونے میں زنجیروں سے باندھ دیا گیا ۔
یہ۔ ایک ہی لمبی سی زنجیر تھی جو انہوں نے ماہرانہ انداز میں شاہ میر اور ہیر کے گرد  کس کر بل دئیے تھے اور باقی کے سرے غار کی دیواروں سے منسلک کر دئیے تھے
بونوں نے اردگرد جادوئی تعویذات لگا دیے تاکہ کوئی ان کو آزاد نہ کرا سکے۔
بازنتوش، شیطان کے سامنے اپنی ناکامی پر گڑگڑانے کے بعد اب خود کو سنبھال چکا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ شاہ میر اور ہیر کو دوبارہ قابو میں کرے گا، مگر اس بار وہ زیادہ چالاکی سے کام لے گا۔
بازنتوش نے ایک اور طاقتور شیطانی عفریت، زارلوس، سے مدد طلب کی۔ زارلوس، وسوسے ڈالنے اور انسانوں کے ذہنوں کو قابو کرنے میں ماہر تھا۔ بازنتوش نے اپنی پوری کہانی سنائی، اور زارلوس نے مکاری سے مسکرا کر کہا،
“یہ کام تمہارے لیے مشکل ہو سکتا ہے، لیکن میرے لیے نہیں۔ ہم ان کی روحوں کو توڑ کر ان پر حکمرانی کریں گے۔”

ادھر غار میں، ہیر کو ہوش آنے لگا۔ اس کے جسم پر خراشیں تھیں، اور زنجیروں کا بوجھ اسے مزید تکلیف دے رہا تھا۔ مگر اس کی آنکھوں میں خوف کی جگہ ایک عجیب سی ہمت دکھائی دے رہی تھی۔
“شاہ میر!” اس نے آہستہ سے پکارا، مگر شاہ میر بے ہوش تھا۔
ہیر نے اردگرد کا جائزہ لیا۔ اس نے بونوں کی موجودگی محسوس کی، جو دور کھڑے آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔ وہ جانتی تھی کہ اسے یہاں سے نکلنے کے لیے اپنی عقل کا استعمال کرنا ہوگا۔
جب ہیر شاہ میر کو جگانے کی کوشش کر رہی تھی، تبھی غار کی دیواروں سے ایک گہری سرگوشی سنائی دی۔ یہ زارلوس کی آواز تھی، جو شاہ میر کے دل و دماغ میں وسوسے ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا۔
“شاہ میر، تم ہار چکے ہو۔ تم نے اپنی محبت اور ایمان کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اب تم کبھی نہیں بچ سکتے۔”
مگر زارلوس کو یہ احساس نہیں تھا کہ شاہ میر کی روح کتنی مضبوط تھی۔ اس کی ایمانی طاقت نے ان وسوسوں کو رد کر دیا، اور وہ آہستہ آہستہ ہوش میں آنے لگا۔
شاہ میر نے جب ہیر کو زنجیروں میں دیکھا، تو اس کی آنکھوں میں غصے اور محبت کی چمک پیدا ہوئی۔ وہ اپنے اندر ایک طاقت محسوس کر رہا تھا، جیسے کوئی غیبی مدد اس کے قریب ہو۔ اس نے زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کی مگر بے سود
پھر اس نے گہرائ سے جائزہ لینا شروع کیا تو اسے احساس ہوا کہ زنجیریں موٹے موٹے کیلوں کی مدد سے دیوار میں گڑی ہوئ تھیں اور کچھ ہمت اور طاقت کا مظاہرہ کر کہ وہ آزاد ہونے کی کوشش کر سکتے تھے
یہ جان کر وہ زور زور سے زنجیروں کو جھٹکے دینے لگا
دور کھڑے بونے اسکی حالت پر ہنسنے لگے
مگر چند لمحوں بعد جب کیل دیوار سے اکھڑنے لگےتو شاہ میر اور ہمت کے ساتھ زنجیر کو جھٹکنے لگا

بونے یہ دیکھ کر بوکھلا گئے۔
“یہ کیسے ممکن ہے؟” سردار جو زنجیروں کی آواز سن کر اس طرف آ نکلا تھا زور سے چیخا۔
شاہ میر نے سردار کی طرف دیکھا اور کہا،
“یہ میری نہیں، میرے ایمان کی طاقت ہے۔”
اس کے ساتھ ہی پورے جوش کے ساتھ اس نے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے زنجیر کو جھٹکا دیا اور وہ کیلوں سمیت اکھڑ کر نیچے آ گری جس سے شاہ میر اور ہیر آزاد ہو چکے تھے

شاہ میر کی ایمانی طاقت سے غار لرزنے لگا۔ وہ پتھر جو روشنی خارج کر رہے تھے، پھٹنے لگے، اور غار میں افرا تفری مچ گئی۔ بونے بھاگنے لگے، مگر سردار غصے میں چیختا رہا۔
“کھیل ابھی ختم نہیں ہوا، آدم زاد! تم دونوں کو ہم جیتنے نہیں دیں گے!”

شاہ میر نے ہیر کا ہاتھ پکڑا اور اسے باہر کی طرف لے جانے لگا۔ مگر غار کا دروازہ ایک بار پھر بند ہونے لگا۔
“ہمیں جلدی کرنی ہوگی،” شاہ میر نے کہا۔
ہیر نے اس پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی باقی ہمت جمع کی، اور دونوں غار کے باہر کی طرف بھاگنے لگے۔
باہر نکلتے ہی، زارلوس اور بازنتوش نے ان کا راستہ روک لیا۔
“کہاں جا رہے ہو؟ یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا،” زارلوس نے مکروہ ہنسی کے ساتھ کہا۔

شاہ میر نے مضبوطی سے ہیر کا ہاتھ تھامے رکھا اور اللہ کا نام لے کر زارلوس کی طرف بڑھا۔
“تمہارے کھیل ختم ہو چکے ہیں، شیطان! میرا ایمان تمہیں کبھی جیتنے نہیں دے گا۔”

زارلوس نے بازنتوش کی طرف اشارہ کیا، اور دونوں نے اپنے جادو سے شاہ میر اور ہیر کو ایک جال میں پھنسانے کی کوشش کی۔ مگر اس بار شاہ میر کی روحانی طاقت اپنے عروج پر تھی۔
ہیر کے ساتھ نے اسکی روح کو بھی ایک ناقابل شکست طاقت میں تبدیل کر دیا تھا
ایک پختہ عزم اسکی قہر برساتی آنکھوں سے جھانک رہا تھا
………………….
یونیورسٹی سے بات نکل کر پورے شہر میں پھیل چکی تھی
یکے بعد دیگرے یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس غائب ہو رہے تھے
پولیس کو شاہ میر کی بائیک جنگل کے قریب ملی تھی، مگر اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی ٹھوس سراغ نہیں تھا۔ تفتیشی ٹیم جنگل میں بھی گئی، لیکن وہاں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکا۔ ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا، اور جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے تھے، معاملہ مزید پراسرار ہوتا جا رہا تھا ۔
یونیورسٹی میں پھیلی خوف کی فضا اور سٹوڈنٹس کے مسلسل غائب ہونے کے بعد شہر کے لوگ بھی اضطراب میں مبتلا ہو چکے تھے
ہر ایک کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا
آخر کون ہے اس سب کے پیچھے؟
کہاں جا رہے ہیں یہ سٹوڈنٹس
پہلے یونیورسٹی کے ایک لڑکے کا اغوا ہونا اور زخمی حالت میں ملنا
پھر ہاسٹل سے ہیر نامی لڑکی کا پراسرار طریقے سے غائب ہو جانا
اس کے بعد شاہ میر کا غائب ہونا اور اس کی بائک کا جنگل سے برامد ہونا
معاملہ پراسرار ہوتا جا رہا تھا
ہر جگہ انہی واقعات کی چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں، اور پولیس اپنی بھرپور کوشش کے باوجود کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہی تھی۔
یونیورسٹی میں غیر معینہ مدت تک کیلئیے چھٹی کر دی گئ تھی اور ہاسٹل کو تو پوری طرح سیل کر دیا گیا تھا جہاں سے ہیر غائب ہوئ تھی
تفتیشی ٹیم اپنی کھوج جاری رکھے ہوئے تھی
ایک طرف قمر اپنے جگری دوست کیلئے بے حد پریشان تھا وہیں صدف بھی ہیر کو لیکر گم سم سی ہو گئ تھی
ایسے میں یہ دونوں ساتھ نظر آنے لگے تھے اور اپنے اپنے طریقوں سے ان دونوں کو ڈھونڈنے کی پوری کوشش کر رہے تھے
یونیورسٹی بند ہونے کے بعد صدف تو ہاسٹل سے گھر واپس جانے کی بجائے اسی شہر میں اپنی ایک دور کی رشتے دار کے گھر شفٹ ہو گئ
اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس معمے کو سلجھانے میں قمر کی مدد کرے گی۔ اس لئیے وہ قمر کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھی
جبکہ قمر اپنے تعلق استعمال کر کے کسی اور جگہ رہائش پذیر ہو گیا تاکہ وہ شاہ میر کا پتہ چلا سکے
قمر نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ خود جنگل جائے گا اور وہاں کی صورتحال کا جائزہ لے گا۔ اس نے ایک رات اپنی موٹر بائیک لی اور جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔ جنگل میں داخل ہونے کے بعد اس نے ایک عجیب سی سرد لہر محسوس کی، جیسے وہاں کوئی پوشیدہ قوت موجود ہو۔
قمر نے اپنی ٹارچ جلائی اور اردگرد دیکھنے لگا۔ وہاں کی خاموشی ناقابل برداشت تھی۔ اچانک اسے زمین پر کچھ نشان نظر آئے، جیسے کسی کو گھسیٹ کر لے جایا گیا ہو۔
ان نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے قمر ایک چھوٹے سے خفیہ کمرے تک پہنچا، جو زمین کے نیچے بنا ہوا تھا۔ کمرے کا دروازہ لوہے کا تھا اور اس پر کچھ عجیب و غریب نشان بنے ہوئے تھے۔ قمر نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، مگر وہ بند تھا۔
تبھی اسے اندر سے کسی کے کراہنے کی آواز آئی۔
“کون ہے؟” قمر نے بلند آواز میں کہا، مگر جواب میں صرف خاموشی تھی
قمر نے صدف کو فون کیا اور اسے اس پراسرار کمرے کے بارے میں بتایا۔ صدف نے اسے محتاط رہنے کی تاکید کی اور کہا کہ وہ جلد از جلد وہاں پہنچنے کی کوشش کرے گی۔
قمر نے اسے وہاں کی لوکیشن بھیج دی اور احتیاط کے ساتھ پہنچنے کا کہا
اچانک دروازہ خودبخود کھل گیا۔ قمر نے ہچکچاتے ہوئے اندر قدم رکھا۔ اندر کا منظر اسے حیران کر دینے والا تھا۔ وہاں دیواروں پر مختلف قسم کے تعویذات لگے ہوئے تھے، اور کمرے کے وسط میں ایک میز پر کچھ کتابیں اور پرانے کاغذات رکھے تھے۔
قمر نے کاغذات کا جائزہ لیا تو اسے ایک تصویر ملی، جس میں شاہ میر اور ہیر کی شکل بنی تھی اور نام تحریر تھے۔ تصویر کے نیچے کچھ عجیب الفاظ لکھے تھے جو وہ سمجھ نہیں سکا۔
اسی دوران، کمرے کے ایک کونے سے ایک خوفناک سایہ نمودار ہوا، جو تیزی سے قمر کی طرف بڑھنے لگا۔ قمر خوف کے مارے پیچھے ہٹا، مگر سایہ اس کے قریب آتا گیا۔
……………….
صدف نے فوراً پولیس کو اطلاع دی اور جنگل کی طرف روانہ ہو گئی۔
اس نے بار بار قمر کا نمبر ملایا مگر قمر اسکی کال رسیو نہیں کر رہا تھا
وہ دیوانہ وار قمر کو ادھر ادھر ڈھونڈنے لگی اور اس کا نمبر ڈائل کرتی رہی
بالآخر وہ قمر کی بھیجی لوکیشن پر اس کمرے تک پہنچ گئ
جب وہ کمرے کے قریب پہنچی تو وہاں قمر کمرے کے باہر بے ہوش پڑا تھا جبکہ کمرے کا دروازہ بند تھا
صدف اسے ہوش میں لانے لگی اور کچھ ہی دیر بعد قمر آنکھیں مسلتے اٹھ بیٹھا تھا
“یہ کیا تھا، قمر؟ کیا تم نے کچھ دیکھا؟” صدف نے پریشانی سے پوچھا۔
قمر نے ہوش میں آتے ہی کہا،
“یہاں کچھ ہے، صدف! شاہ میر اور ہیر یہی کہیں ہیں، مگر ہمیں جلدی کرنا ہوگی۔”
پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی کمرہ غائب ہو چکا تھا اور قمر اور صدف ہکے بکے وہاں کھڑے ہوئے تھے
کمرے والی جگہ زمین بالکل ہموار تھی، جیسے وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔
قمر اور صدف نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
“یہ صرف آغاز ہے، صدف۔ ہمیں ان دونوں کو بچانا ہوگا، چاہے کچھ بھی ہو جائے،” قمر نے عزم سے کہا۔
وہ۔ دونوں نہیں جانتے تھے کہ وہ شاہ میر اور ہیر سے کوسوں دور ایک نئ افتاد کا شکار ہونے والے تھے
ایک نئ مصیبت ان کو درپیش تھی جس کا جال بہت سوچ سمجھ کر بچھایا جا چکا تھا
پولیس کی تفتیشی ٹیم نے ان دونوں سے تھوڑی بہت بازپرس کی اور پھر انہیں وہاں سے جانے کی اجازت مل گئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بازنتوش منہ ہی منہ میں کچھ بڑانے لگا
وہ کوئ منتر پڑھ رہا تھا اور وہاں تیز طوفانی ہوائیں چلنا شروع ہو گئیں
شاہ میر نے زمین پر پڑا پتھر اٹھا کر پوری قوت سے بازنتوش کو دے مارا
بازنتوش پتھر کی ضرب کھا کر کراہا اور شعلہ بار نظروں سے شاہ میر کی طرف دیکھتے ہوئے ایک ریچھ کی شکل میں بدلنے لگا
بازنتوش ریچھ کی شکل میں شاہ میر پر حملہ آور ہوا جس سے شاہ میر نے بچنے کی کوشش کی مگر کافی حد تک وہ زخمی ہو گیا
اسی دوران زارلوس نے ان دونوں کی لڑائ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک عفریت کا روپ دھار لیا اور ہیر کو اٹھا کر غائب ہو گیا
شاہ میر چونکہ اس افتاد کیلئیے تیار نہیں تھا وہ بوکھلا سا گیا اور ہیر ہیر پکارنے لگا
اس کے زخموں سے خون رسنے لگا تھا جبکہ بازنتوش ایک بار پھر حملہ کرنے کیلئیے تیار تھا
وہ جونہی شاہ میر پر جھپٹا ایک طرف سے سفید رنگ کی لہریں اس پر پڑیں اور وہ چنگھاڑتا ہوا زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگا اور پھر غائب ہو گیا
شاہ میر کراہتے ہوئے اس طرف دیکھنے لگا جہاں سے سفید روشنی کی لہریں آرہی تھیں
شاہ میر نے کراہتے ہوئے اس طرف دیکھا جہاں سے سفید روشنی کی لہریں آ رہی تھیں۔ وہ روشنی اتنی شدید تھی کہ چند لمحوں کے لیے شاہ میر کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ جیسے ہی روشنی دھیمی ہوئی، ایک نورانی شخصیت نمودار ہوئی۔
بزرگ نے شاہ میر کی طرف دیکھا اور کہا،
“نوجوان، تمہارے ایمان نے مجھے یہاں آنے پر مجبور کیا۔ یہ جنگ تم تنہا نہیں لڑ سکتے، مگر یاد رکھو، تمہاری روح کی طاقت تمہارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔”

شاہ میر نے زخمی اور تھکے ہوئے لہجے میں کہا،
“ہیر کو زارلوس لے گیا ہے! مجھے اسے بچانا ہے، مگر میں کمزور ہوں۔”

بزرگ مسکرائے اور اپنی چھڑی کو بلند کیا۔ سفید روشنی کی ایک اور لہر شاہ میر کے زخموں پر پڑی، اور چند لمحوں میں وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا۔

“تمہارے جسم کے زخم بھر گئے ہیں، لیکن روح کی آزمائش ابھی باقی ہے۔ ہیر کو بچانے کے لیے تمہیں اپنی روحانی طاقتوں کو مزید مضبوط کرنا ہوگا۔ زارلوس اور بازنتوش تمہیں آسانی سے جیتنے نہیں دیں گے۔”

دوسری طرف، زارلوس ہیر کو ایک تاریک اور سرد قید خانے میں لے آیا تھا۔ یہ جگہ کسی اور جہان میں تھی، جہاں وقت اور حقیقت کا کوئی وجود نہیں تھا۔ قید خانے کی دیواروں پر جادوئی نقوش اور تعویذات بنے ہوئے تھے، جو ہیر کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے کافی تھے۔

زارلوس نے ہیر کی طرف مکروہ ہنسی کے ساتھ دیکھا اور کہا،
“تم شاہ میر کی کمزوری ہو، اور میں اسی کمزوری کو اس کے خلاف استعمال کروں گا۔ اس کی محبت ہی اسے برباد کرے گی۔”

ہیر نے مضبوطی سے جواب دیا،
“میری محبت میری طاقت ہے، اور تم کبھی اسے شکست نہیں دے سکتے۔”

زارلوس ہنسا اور بولا،
“دیکھتے ہیں، تمہاری یہ طاقت کب تک چلتی ہے۔”
بزرگ نے شاہ میر کو ایک مخصوص مقام پر جانے کا کہا، جہاں وہ اپنی روحانی طاقتوں کو مزید مضبوط کر سکتا تھا۔ یہ مقام ایک پراسرار پہاڑی پر تھا، جو کئی صدیوں سے محفوظ تھی اور وہاں صرف وہی پہنچ سکتا تھا جس کے دل میں ایمان کی روشنی ہو۔

شاہ میر نے پہاڑی کی طرف سفر شروع کیا۔ راستہ انتہائی خطرناک اور کٹھن تھا۔ ہر قدم پر اسے اپنے اندرونی خوف اور وسوسوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک موقع پر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے زارلوس کی آواز اس کے کانوں میں گونج رہی ہو،
“تم ناکام ہو جاؤ گے، شاہ میر! تم اپنی محبت کو بچا نہیں پاؤ گے۔”

مگر شاہ میر نے اپنے دل میں اللہ کا ذکر جاری رکھا اور اپنے قدموں کو لڑکھڑانے نہیں دیا۔
پہاڑی نہ صرف ایک جسمانی آزمائش تھی بلکہ روحانی اور نفسیاتی مشکلات کا گہرا امتزاج بھی تھی۔ ہر قدم پر اسے ایسی آزمائشوں کا سامنا تھا جو اس کے ایمان، ہمت، اور محبت کی گہرائیوں کو جانچ رہی تھیں۔
شاہ میر جب پہاڑی کے دامن پر پہنچا تو اسے وہاں پر ایک بھاری دھند نے گھیر لیا۔ اس دھند میں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا، اور ہر طرف سے وسوسوں کی سرگوشیاں سنائی دینے لگیں:
“تم ناکام ہو جاؤ گے، شاہ میر۔ تم ہیر کو بچا نہیں سکتے۔”
یہ سرگوشیاں شاہ میر کے دل میں خوف اور بے بسی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

شاہ میر نے اللہ کا ذکر بلند آواز میں شروع کیا اور دھند کے بیچوں بیچ اپنا راستہ تلاش کرنے لگا۔ جیسے ہی وہ ذکر کرتا، دھند تھوڑی تھوڑی چھٹنے لگتی۔ لیکن راستے میں بڑے بڑے پتھر اس کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ ان پتھروں کو عبور کرنے کے دوران اس کے ہاتھ زخمی ہو گئے، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔
پہاڑی کے وسط میں پہنچتے ہی شام ہو گئی، اور ہر طرف گہرا اندھیرا چھا گیا۔ یہ اندھیرا صرف نظر کا دھوکہ نہیں تھا بلکہ اس میں ایک عجیب سی سرد لہر بھی شامل تھی۔ شاہ میر کے سامنے راستہ غائب ہو گیا، اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کسی گہرے خلا میں کھڑا ہو۔

تبھی، ایک آواز نے اندھیرے میں گونجنا شروع کیا:
“شاہ میر، پیچھے مڑ جاؤ۔ یہ راستہ تمہارے لیے نہیں ہے۔”

شاہ میر نے اپنے دل کو مضبوط کیا اور کہا،
“میری راہ اللہ نے متعین کی ہے، اور میں اسی پر چلوں گا!”
اس کے ساتھ ہی اس نے زمین پر ہاتھ رکھا اور دعائیہ انداز میں اللہ سے مدد مانگی ۔ زمین میں روشنی کی ایک لکیر نمودار ہوئی، جو اس کے لیے راستہ بناتی گئی۔

اندھیرے سے نکلنے کے بعد شاہ میر کا سامنا اپنے سب سے بڑے خوف سے ہوا۔ ایک سایہ نمودار ہوا، جو شاہ میر کی شکل کا تھا، لیکن اس کی آنکھیں شعلوں کی طرح جل رہی تھیں۔ اس نے کہا:
“شاہ میر، تم کمزور ہو۔ تمہاری محبت صرف ایک بوجھ ہے، جو تمہیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ ہیر کو بچانے کی کوشش ترک کر دو، ورنہ تم خود کو کھو دو گے۔”

شاہ میر نے سایے کی باتوں کو سن کر  ایک لمحے کیلئیے سوچا پھر سارے وسوسوں کو جھٹکتے ہوئے فوراً ہی اس نے اللہ کا نام لیا اور کہا:
“میری محبت کمزوری نہیں، میری طاقت ہے۔ میرا ایمان مجھے کبھی گمراہ نہیں ہونے دے گا!”

سایہ دھیرے دھیرے مٹنے لگا، اور شاہ میر کا دل پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گیا
وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک قدیم عبادت گاہ دیکھی، جو روشنی سے جگمگا رہی تھی۔ بزرگ نے اسے بتایا تھا کہ یہاں ایک مقدس شعلہ ہے، جو اس کی روحانی طاقت کو ناقابل شکست بنا دے گا۔
جیسے ہی شاہ میر شعلے کے پاس پہنچا ، اس کے سامنے ایک عجیب منظر تھا وہاں ایک عجیب طرح کا بونا نمودار ہوا اور بولا:
رک جاؤ آدم زاد
“اگر تم مقدس شعلہ چاہتے ہو، تو اپنی سب سے قیمتی چیز قربان کرنی ہوگی۔”
اور شعلے کے بنا واپس جانا چاہو گے تو راکھ بن کر ختم ہو جاؤ گے
شاہ میر نے حیرانی سے پوچھا،
“کیا چیز قربان کرنی ہوگی؟”

بونے نے جواب دیا،
“تمہاری محبت۔ اگر تم اپنی محبت کو چھوڑنے پر راضی ہو، تو تمہیں شعلہ مل سکتا ہے۔”

شاہ میر عجیب سے شش و پنج میں پڑ گیا
اسے اپنی یا ہیر میں سے کسی ایک کی زندگی قربان کرنی تھی
پھر وہ فیصلہ کن لہجے میں بولا
میں ہیر سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتا
وہ میری محبت ہے اور مجھے ہر حال میں اسے بچانا ہے
یہ کہتے ہوئے وہ بونے کی طرف لپکا
بونا ایک دم سے غائب ہو گیا
شاہ میر اس عجیب سے امتحان میں پاس ہو چکا تھا
آزمائشوں میں کامیاب ہونے کے بعد، شاہ میر کو مقدس شعلہ مل گیا۔
یہ شعلہ ایک آگ میں تبدیل ہو کر شاہ میر کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا اور اس کی روح میں اتر گیا اور اس کی آنکھوں میں ایک نئی روشنی نمودار ہوئی۔
شعلہ حاصل کرنے کے بعد شاہ میر نے پہاڑی سے نیچے اترتے ہوئے کہا،
“زارلوس، میں آ رہا ہوں! ہیر کو تمہارے چنگل سے آزاد کر کے رہوں گا۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قمر اور صدف شہر کے مشہور کیفیٹیریا میں بیٹھے بات کر رہے تھے
پریشانی ان کے چہرے سے صاف عیاں ہو رہی تھی
ان دونوں کے ذہن میں ایک ہی سوال گونج رہا تھا: “آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟”

قمر نے اپنی جیب سے وہ تصویر نکالی جو اس نے کمرے سے اٹھائی تھی۔ تصویر میں شاہ میر اور ہیر کے چہرے واضح تھے، اور نیچے لکھے گئے عجیب الفاظ اسے پریشان کر رہے تھے۔
“یہ الفاظ کوئی عام زبان میں نہیں ہیں،” قمر نے کہا۔
صدف نے تصویر کو غور سے دیکھا اور کہا،
“یہ شاید کوئی قدیم زبان ہے۔ ہمیں کسی ماہر سے رابطہ کرنا ہوگا جو ان الفاظ کو سمجھ سکے۔”

قمر نے شہر کے ایک قدیم کتب خانے کے بارے میں سنا تھا، جہاں کے لائبریرین کو پراسرار زبانوں اور جادوئی علوم کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ وہ فوراً وہاں جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

کتب خانے پہنچ کر ان کی ملاقات ایک بوڑھے لائبریرین، “بابا ظفر” سے ہوتی ہے۔ بابا ظفر نے تصویر دیکھتے ہی چونک کر کہا،
“یہ الفاظ ایک قدیم جادوئی رسم کے ہیں۔ یہ رسم شیطانی طاقتوں کو قابو میں کرنے اور انسانی روحوں کو قربان کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔”
“مگر اس میں شاہ میر اور ہیر کا کیا کردار ہے؟” صدف نے بےچینی سے پوچھا۔
بابا ظفر نے سنجیدگی سے کہا،
“یہ دونوں شاید اس رسم کے لیے منتخب کیے گئے ہیں۔ ان کی روحیں اس جادو کو مکمل کرنے کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہیں۔”

بابا ظفر نے مزید بتایا کہ ان الفاظ کو رد کرنے کے لیے ایک قدیم دعا کی ضرورت ہوگی، جو صرف “نورانی کتاب” میں درج ہے۔
“یہ کتاب کہاں مل سکتی ہے؟” قمر نے جلدی سے پوچھا۔
“یہ کتاب ایک خفیہ مقام پر محفوظ ہے، جو اسی جنگل کے اندر ہے جہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہے،” بابا ظفر نے جواب دیا۔

قمر اور صدف نے بابا ظفر کی رہنمائی میں نورانی کتاب کی تلاش شروع کی۔ جنگل کے اندر ایک قدیم مندر کے آثار تھے، جہاں بابا ظفر نے بتایا کہ کتاب محفوظ ہو سکتی ہے۔

قمر، صدف، اور بابا ظفر نے نورانی کتاب کی تلاش کا فیصلہ کیا۔ بابا ظفر نے ان دونوں کو خبردار کیا کہ یہ کوئی عام کام نہیں ہوگا۔
“مندر کے قریب خطرناک سانپوں کا بسیرا ہے، جو اس جگہ کی رکھوالی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہاں ایک قدیم قبیلے کی باقیات اور ان کے بچھائے ہوئے جال بھی ہو سکتے ہیں۔ تمہیں بہت محتاط رہنا ہوگا،” بابا ظفر نے کہا۔


رات کے وقت وہ تینوں جنگل کے اندر گہرائی کی طرف روانہ ہوئے۔ بابا ظفر نے ایک خاص تعویذ دیا، جو انہیں شیطانی طاقتوں اور جادوئی اثرات سے محفوظ رکھ سکتا تھا۔
“یہ تعویذ تمہیں منفی طاقتوں سے بچائے گا، لیکن یاد رکھو، مندر کے قریب پہنچتے ہی یہ تعویذ اثر کھو سکتا ہے۔ وہاں تمہیں اپنے حوصلے پر بھروسہ کرنا ہوگا،” بابا ظفر نے تنبیہ کی۔

جنگل کے اندر بڑھتے ہوئے انہیں عجیب و غریب آوازیں سنائی دینے لگیں۔ جیسے ہی وہ مندر کے قریب پہنچے، ایک ٹھنڈی لہر اور عجیب سی خاموشی پورے علاقے پر چھا گئی۔

مندر کے دروازے کے پاس پہنچتے ہی قمر نے اپنی ٹارچ کی روشنی میں زمین پر حرکت محسوس کی۔
“یہ کیا ہے؟” صدف نے دھیرے سے پوچھا۔
قمر نے روشنی بڑھائی تو انہوں نے دیکھا کہ دروازے کے قریب سینکڑوں سانپ لہرا رہے تھے۔ یہ سانپ معمولی نہیں تھے۔ ان کے جسموں پر عجیب و غریب نشانات تھے، جو جادوئی معلوم ہوتے تھے۔
بابا ظفر نے ایک پاؤڈر نکالا اور سانپوں کی طرف پھینکتے ہوئے زیرلب کچھ پڑھا۔ کچھ لمحوں کے لیے سانپ پیچھے ہٹ گئے، اور وہ تینوں مندر کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

مندر کے اندر دیواروں پر قدیم قبیلے کی تصویریں اور نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ ان میں شیطانی رسومات، قربانیاں، اور ایک طاقتور کتاب کی تصویر نمایاں تھی۔
“یہی وہ کتاب ہے، نورانی کتاب، جو یہیں کہیں چھپی ہوئی ہے،” بابا ظفر نے کہا۔
قمر اور صدف نے دیواروں پر موجود نقشوں کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ ان میں ایک خفیہ کمرے کا ذکر تھا، جو مندر کے نیچے موجود تھا۔ کچھ دیر ڈھونڈنے کے بعد وہ خفیہ کمرے کے دروازے پر پہنچ چکے تھے

جیسے ہی وہ خفیہ کمرے کے دروازے کے قریب پہنچے، ایک خوفناک سایہ اچانک نمودار ہوا۔ وہ سایہ انسانی شکل کا تھا، لیکن اس کی آنکھیں سرخ انگارے کی طرح دہک رہی تھیں، اور اس کے ہاتھوں سے دھواں نکل رہا تھا۔
“تم یہاں کیا کر رہے ہو؟” سایہ گونجتی ہوئی آواز میں بولا۔
قمر نے ہمت جمع کرتے ہوئے کہا،
“ہم نورانی کتاب لینے آئے ہیں، تاکہ ان معصوم لوگوں کو بچا سکیں جنہیں تم جیسے شیطانوں نے قید کر رکھا ہے!”
سایہ زوردار قہقہہ لگا کر بولا،
“یہ کتاب تمہیں کبھی نہیں ملے گی۔ اگر تم نے کوشش کی، تو یہیں دفن ہو جاؤ گے!”


صدف نے جلدی سے بابا ظفر کو کہا،
“کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ ہم اس سایے کو روک سکیں؟”
بابا ظفر نے جواب دیا،
“یہ سایہ اس جگہ کی حفاظت پر مامور ہے۔ ہمیں ہمت و حوصلے سے اس کا سامنا کرنا ہوگا۔”
بابا ظفر نے جیب سے ایک قدیم پتھر نکالا، جس پر کچھ جادوئی الفاظ کندہ تھے۔ اس پتھر کو دیکھتے ہی سایہ پیچھے ہٹنے لگا۔
“یہ پتھر نورانی کتاب کی چابی ہے،” بابا ظفر نے کہا۔

پتھر کو خفیہ کمرے کے دروازے پر لگاتے ہی دروازہ آہستہ آہستہ کھلنے لگا۔ اندر ایک میز پر نورانی کتاب رکھی ہوئی تھی۔ کتاب کے اردگرد روشنی کا ہالہ تھا، جو اسے چھونے سے روکتا تھا۔
“یہ کتاب لینا آسان نہیں ہوگا،” بابا ظفر نے کہا۔
“ہمیں اس روشنی کو ختم کرنے کے لیے ایک خاص منتر پڑھنا ہوگا ۔ لیکن یاد رکھو، جیسے ہی روشنی ختم ہوگی، سایہ دوبارہ حملہ کرے گا۔”

قمر اور صدف نے بابا ظفر کا بتایا ہوا منتر پڑھنا شروع کیا۔ سایہ ان پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن بابا ظفر کے دئیے ہوئے تعویذ کی طاقت نے اسے روکے رکھا۔
منتر مکمل ہوتے ہی روشنی کا ہالہ ختم ہو گیا، اور قمر نے جلدی سے کتاب اٹھا لی۔
جیسے ہی انہوں نے کتاب اٹھائی، مندر لرزنے لگا، اور دیواروں سے پتھر گرنے لگے۔ سایہ ایک بار پھر نمودار ہوا، لیکن اس بار وہ اور بھی زیادہ طاقتور تھا۔
“یہاں سے بھاگو!” بابا ظفر نے چیخ کر کہا۔
قمر، صدف، اور بابا ظفر جلدی سے مندر سے باہر نکلے، لیکن سایہ ان کے پیچھے پیچھے تھا

جنگل سے نکلتے ہی سایہ رک گیا، جیسے وہ جنگل کی حدود سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔
“ہم نے کتاب حاصل کر لی ہے، لیکن یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ہمیں ان رسومات کو روکنے اور شاہ میر اور ہیر کو بچانے کے لیے کتاب کا استعمال کرنا ہوگا،” بابا ظفر نے کہا

نورانی کتاب کے ساتھ قمر، صدف، اور بابا ظفر ایک محفوظ مقام پر پہنچے۔ بابا ظفر نے کتاب کو احتیاط سے کھولا۔ اندر سنہری اور چمکتے ہوئے صفحات پر قدیم الفاظ درج تھے، جنہیں دیکھتے ہی بابا ظفر کا چہرہ سنجیدہ ہو گیا۔
کتاب کے ابتدائی صفحات پر درج تحریروں کو پڑھ کر بابا ظفر نے بتایا:
“یہ ایک شیطانی رسم ہے جسے مکمل کرنے کے لیے دو خاص روحوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ شاہ میر اور ہیر کو اسی مقصد کے لیے قید کیا گیا ہے۔ اگر یہ رسم مکمل ہو گئی، تو دنیا میں ایک نہایت طاقتور اور خوفناک شیطانی قوت آزاد ہو جائے گی۔ ہمیں فوراً رسومات کو روکنا ہوگا!”

قمر اور صدف کو یہ سن کر مزید بے چینی ہونے لگی۔
“لیکن یہ رسم کہاں اور کیسے ہو رہی ہے؟” صدف نے پوچھا۔
بابا ظفر نے کہا،
“کتاب کے مطابق، یہ رسم اسی جنگل کے ایک اور خفیہ مقام پر ہو رہی ہے، جو مندر کے پیچھے ایک پراسرار غار میں واقع ہے۔”

قمر اور صدف نے غار کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔ بابا ظفر نے انہیں خبردار کیا:
“غار میں شیطانی طاقتوں کے جال بچھے ہوں گے۔ ہمیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا

وہ تینوں دوبارہ جنگل میں روانہ ہوئے۔ اس بار ماحول پہلے سے بھی زیادہ خوفناک تھا۔ راستے میں انہیں عجیب و غریب آوازیں اور سایے محسوس ہو رہے تھے، لیکن بابا ظفر کے تعویذ نے انہیں بچائے رکھا۔
غار کے دروازے پر پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ وہاں دو قدیم ستون تھے، جن پر عجیب و غریب علامتیں بنی ہوئی تھیں۔ بابا ظفر نے کوئ منتر پڑھا جس سے دروازہ آہستہ آہستہ کھلنے لگا۔

غار کے اندر مکمل تاریکی تھی، لیکن ایک ہلکی سی روشنی دور کہیں نظر آ رہی تھی۔
“یہ روشنی اسی جگہ سے آ رہی ہے جہاں رسم ہو رہی ہے،” بابا ظفر نے کہا۔

غار کے اندر وہ ایک بڑے ہال میں پہنچے، جہاں جگہ جگہ جال بچھے ہوئے تھے۔ دیواروں پر خون سے بنے نقش و نگار تھے، اور زمین پر شیطانی علامتیں کھینچی ہوئی تھیں۔

آخر کار وہ اس مقام پر پہنچ گئے جہاں شیطانی رسم ہو رہی تھی۔ ایک بڑے پتھر کی میز پر ہیر بے ہوش حالت میں پڑی تھی
شاہ میر وہاں نظر نہیں آرہا تھا،
ہیر کے اردگرد شعلے جل رہے تھے، اور ایک سایہ نما ہستی کچھ الفاظ پڑھ رہی تھی۔
“یہی وہ ہے جو رسم مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے!” بابا ظفر نے کہا۔
سایہ ان پر حملہ کرنے کے لیے لپکا۔ قمر نے ایک مشعل اٹھا کر سایے کو روکنے کی کوشش کی، لیکن وہ اس کے قریب آ گیا۔
“بابا ظفر نے کچھ پڑھ کر پھونک ماری تو سایہ چیخنے لگا، اور شعلے دھیرے دھیرے کم ہونے لگے۔

بابا ظفر نے قمر اور صدف کو کہا کہ وہ میز کے قریب جائیں اور ہیر کو ہوش میں لانے کی کوشش کریں۔
صدف جلدی سے ہیر کی طرف بڑھی اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگی
وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ وہ ایک خطرناک جال میں پھنس چکے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی صدف نے ہیر کو ہوش میں لانے کی کوشش کی، بابا ظفر نے نورانی کتاب بند کر دی اور زور سے قہقہہ لگایا۔
“تم سب احمق! یہ سب میری چال تھی!” اس کی آواز گونجی، اور اس کا چہرہ ایک خوفناک شکل میں بدلنے لگا۔
وہ شیطانی عفریت زارلوس تھا
جو دھوکے سے صدف اور قمر کو یہاں لیکر آیا تھا
تاکہ شاہ میر اور ہیر کے جذبات کو بھڑکا کر اپنا فائدہ حاصل کر سکے
قمر اور صدف حیرت اور خوف سے گنگ ہو کر زارلوس کو دیکھ رہے تھے


کچھ ہی دیر بعد بازنتوش بھی وہاں پہنچ گیا
بازنتوش نے نورانی کتاب کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور کہا:
“یہ کتاب میرے لیے سب سے بڑی طاقت کا ذریعہ ہے۔ تم لوگوں کو یہاں لانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ تمہاری موجودگی میں رسم مکمل کی جا سکے۔ شاہ میر اور ہیر کی روحیں مجھے ناقابلِ شکست بنا دیں گی، اور اس دنیا پر میرا راج ہوگا!”

قمر نے جلدی سے صورتحال کو سمجھا اور صدف کو اشارہ کیا۔
“صدف، ہمیں کچھ کرنا ہوگا!” قمر نے دھیمی آواز میں کہا۔
صدف نے ہیر کو چھوڑ کر قمر کے قریب آ گئی۔ دونوں نے ایک منصوبہ بنایا۔

بازنتوش نے اپنی رسومات شروع کرنے کے لیے کتاب کھولی۔ وہ کچھ عجیب و غریب الفاظ پڑھنے لگا، اور کمرے میں اندھیرا چھا گیا۔
ابھی اسے اس رسم کی پوری طرح ادائیگی کیلئیے شاہ میر کی ضرورت تھی
کیونکہ ہیر اور شاہ میر دونوں کی روحوں کو ایک ساتھ قابو میں کر کے ہی وہ اپنی طاقت حاصل کر سکتا تھا
قمر نے مشعل اٹھا کر بازنتوش کی طرف پھینکی، لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔
“تم جیسے کمزور انسان میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے!” بازنتوش نے کہا۔

صدف نے جلدی سے ہیر کو ہوش میں لانے کی کوشش کی، اور آخرکار ہیر کی آنکھیں کھل گئیں۔
ہیر حیرت زدہ انداز میں قمر اور صدف کو دیکھ رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ میر مقدس شعلے کی طاقت سے بھرپور ہو کر پہاڑی سے نیچے اترا۔ اس کی روح میں ایک عجیب سے سکون اور طاقت کا امتزاج تھا۔
ادھر زارلوس اور بازنتوش کے الفاظ سن کر قمر نے ہمت جمع کرتے ہوئے کہا،
“ہم تمہیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے، چاہے اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑے!”

زارلوس ہنستے ہوئے بولا،
“تم لوگ میرے لیے محض کھلونے ہو۔ اب یہاں سے بچ نکلنا ناممکن ہے۔”

اسی لمحے ہیر کے وجود سے روشنی کی ہلکی سی لہر نکلنے لگی۔ زارلوس اور بازنتوش دونوں چونک گئے۔
ہیر نے کمزور مگر مضبوط آواز میں کہا،
“میری روح آزاد ہے، اور میری محبت کبھی بھی تمہارے ارادوں کو مکمل نہیں ہونے دے گی۔”
شاہ میر اور ہیر کی روحیں چونکہ جڑی ہوئ تھیں تو جو طاقت شاہ میر کے پاس تھی وہی اب ہیر کے اندر بھی موجود تھی

ہیر کے وجود سے نکلنے والی روشنی زارلوس کی طرف بڑھنے لگی، جس سے وہ پیچھے ہٹنے لگا۔ بازنتوش غصے سے آگے بڑھا اور کہا،
“یہ روشنی ہمیں نہیں روک سکتی!”

لیکن اسی وقت، شاہ میر نے غار کے داخلی دروازے پر نمودار ہو کر بلند آواز میں کہا،
“بازنتوش! تمہارا کھیل ختم ہو چکا ہے!”

شاہ میر کے ہاتھوں میں تلوار نظر آرہی تھی اور اس کی آنکھوں میں ایک نئی چمک اور چہرے پر عزم کی جھلک تھی۔
بازنتوش اور زارلوس دونوں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

زارلوس نے غصے سے کہا،
“شاہ میر، تمہاری محبت تمہیں برباد کرے گی! تم اس رسم کو روک نہیں سکتے۔”

شاہ میر نے پرسکون لہجے میں جواب دیا،
“میری محبت میرا ایمان ہے، اور ایمان کو شکست دینا ناممکن ہے۔”

بازنتوش نے غصے میں جھپٹنے کی کوشش کی، لیکن شاہ میر نے تلوار کو گھما کر اس پر وار کیا، جس سے وہ چنگھاڑتا ہوا پیچھے ہٹ گیا۔

زارلوس نے غصے سے چیخ کر کہا،
“تمہیں لگتا ہے کہ یہ تمہاری محبت اور ایمان کی طاقت مجھے روک سکتی ہے؟ میں اندھیروں کا شہنشاہ ہوں!”

شاہ میر نے کہا،
“اندھیرا ہمیشہ روشنی کے سامنے جھکتا ہے، اور تمہاری شیطانی طاقتوں کا انجام آ چکا ہے۔”
بازنتوش نے غضبناک ہو کر زمین پر زور سے مکا مارا، اور زمین پھٹنے لگی۔ اس کے ساتھ ہی کئی عفریت نمودار ہوئے، جو شاہ میر کی طرف لپکنے لگے۔

شاہ میر نے ایک پل کے لیے اپنی آنکھیں بند کیں اور اللہ سے مدد مانگی اور تلوار کی نوک سے اپنے گرد دائرہ کھینچا
مقدس شعلے کی روشنی اس کے گرد ہالہ بن کر جمع ہونے لگی۔ دائرے سے سفید روشنی نکل کر ان عفریتوں پر پڑی، اور وہ چنگھاڑتے ہوئے فنا ہو گئے۔

زارلوس اور بازنتوش نے مشترکہ حملہ کرنے کی کوشش کی، لیکن شاہ میر اور ہیر نے مل کر اپنی روحانی طاقتوں کو یکجا کیا۔ مقدس شعلے کی روشنی نے پورے غار کو جگمگا دیا،
شعلے نے زارلوس اور بازنتوش کو اپنے گھیرے میں لے لیا

بازنتوش غصے سے آگے بڑھا اور شاہ میر پر حملہ کرنے کی کوشش کی
ایک روشنی کی شدید لہر بازنتوش سے ٹکرائی، اور وہ چیختا ہوا زمین پر گر گیا اور مٹی میں تبدیل ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی زارلوس  بھی روشنی کی شدت برداشت نہ کر سکا اور ہوا میں تحلیل ہو گیا۔
بازنتوش اور زارلوس دونوں اس شیطان کی مورتی کے خاص خدمت گار تھے
جب وہ ختم ہوگئے تو اس مورتی کی طاقت بھی زائل ہو گئ جس سے وہ مورتی گر کر زمین بوس ہو گئ اور ٹوٹ کر بکھر گئ

قمر اور صدف نے سکون کا سانس لیا،
غار میں ایک گہری خاموشی چھا گئی، اور روشنی نے تاریکی کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔ شاہ میر، قمر، صدف، اور ہیر سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ہیر نے کمزور لہجے میں کہا،
“شاہ میر، تم نے یہ سب میرے لیے کیا۔”

شاہ میر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،
“محبت ہمیشہ جیتتی ہے، ہیر۔”
“یہ محبت، ایمان، اور اتحاد کی جیت ہے۔”

غار سے نکلتے ہوئے سب کیلئیے یہ ایک نئے آغاز کا وقت تھا
بازنتوش، زارلوس اور شیطانی مورتی کی تباہی کے بعد، شاہ میر اور ہیر اپنی محبت کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کرنے کے لیے تیار تھے، یہ جانتے ہوئے کہ ان کا ایمان اور محبت ہمیشہ انہیں ہر آزمائش میں کامیاب کریں گے۔

ختم شد
(اب اس سے آگے انکی محبت بھری داستان شروع ہوگی جس میں رومانس سسپنس اور مزاح بھرپور انداز میں پیش کیا جائے گا
بہت جلد اس ناول کا دوسرا سیزن شروع ہوگا)

Scroll to Top