ایک سمندر ڈوب گیا

ناول:اک سمندر ڈوب گیا
تحریر: ساحر سمیع
♤♧♤♧♤♧♤♧♤♧♤♧♤♧♤♧

وہ سمندر کی طرح گہرا تھا_
سمندر کی لہریں اسکی پیشانی پر ڈوبتی ابھرتیں۔۔
سمندر کا سکوت اس کے لبوں پر بولتا۔۔۔
سمندر کی ساکن سطح اس کی آنکھوں میں جھلملاتی۔۔
سمندر پر چلنے والی سبک رو ہوا ، اسکی سانسوں کے زیروبم میں الجھتی
خشک کنارہ اسکی ذات کا عکس لگتا
اور کنارے پر گھٹتا بڑھتا رش اس کے دل کے مکینوں کی طرح تھا۔۔۔

وہ ایک بند کتاب تھا۔۔
پینڈورا باکس تھا۔۔۔
ایک سیپ تھا
ایک پراسرار جزیرہ
ایک گمنام منزل،
لامکاں مسافر۔۔۔
طلسماتی دیومالائ کہانی کا کردار
یا ان چھوا،اچھوتا احساس۔۔۔
غرض وہ سب کچھ تھا اور کچھ بھی نہ تھا

وہ پہروں غائب ہوتا اور پراسرار طریقے سے خلاوں میں گھورتا رہتا
اسکی زندگی میں بہت سے لوگ تھے مگر اپنا کوئ بھی نہ تھا
سب دنیادار، اپنے آپ میں گم لوگ اس سے مختلف تھے
وہ سب میں ان فٹ تھا۔۔۔
اسکی اماں ھر وقت پاندان کھولے کتھے چونے کا کھیل کھیلتی رہتیں۔۔
ابا ھر وقت دوستوں کے ھمراہ شطرنج کی بازی جمائے رکھتے۔
اس کا بڑا بھائ بزنس اور بیوی بچوں میں مصروف رہتا۔۔
بہن کچن اور گھر کے بکھیڑوں میں خود بھی بکھری رہتی
چھوٹی بہن فون پر دوستوں سے گپ شپ میں مصروف رہتی یا پھر فیشن میگزین سامنے پھیلائے بغور نئے ڈیزائن نوٹ کرتی رہتی۔۔
اس کے کزنز جن کی محفلیں اکثر ھال کمرے میں جمتیں اور وہ خاموشی سے انہیں دیکھتا رہتا تھا
وہ خود میں گم رہتا
اپنی ذات میں مگن،
یا پھر پڑھائ میں مصروف

♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بات سنو
اس کے قدم اس آواز پر تھم سے گئے
لمحے ٹھہر گئے
وقت نے سانسیں روک لیں
“ھوں”۔۔
اس کی آواز ہوا نے اپنے پروں پر اٹھائ
کیا تم سودائ ھو؟
اس کے ابدر سے آواز آئ
اس سے پوچھا گیا تھا
سامنے کی دیوار اس پر ہنسنے لگی
دروازے، کھڑکیاں حیرت سے دیوار کو دیکھنے لگے

“نہیں”
“شاید ہاں”
سمندر کی لہریں پھر اس کی پیشانی پر بننے بگڑنے لگی تھیں
۔
مطلب؟
تنہائ حیران ہوئ
اسکے کمرے کی ساری چیزیں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں
بس تلاش ہوں، میں سکون ہوں،
میں راحت۔۔۔
تسکین۔۔۔
اصل منزل۔۔۔
سفر۔۔
تلاش ہوں
میں کھوج ہوں
جستجو ہوں
نجانے میں کیا ہوں
شاید کچھ بھی نہیں
کچھ بھی تو نہیں۔۔
وہ الجھ سا گیا تھا۔ کھوج اپنے کھوجی پر ہنسنے لگی، جستجو متجسس ہو گئ
سفر حیران ہو کر منزل ڈھونڈنے لگا تھا
سکون، راحت و تسکین سے سرگوشیاں کرنے لگا

تم۔۔۔!
تم الجھاو ہو۔
صرف الجھاو
ریشمی دھاگوں کا
تنہائ اس پر ہنسی
اسکے لبوں پر سکوت بولنے لگا
وہ آگے بڑھا اور کمرے سے نکل گیا
♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے کزنز ، بہن بھائ اسے مختلف ناموں سے یاد کرتے
سب اس کی شخصیت پر مناسب نام چسپاں کرنے میں ناکام رہے تھے
“خوابوں کا باسی”
نہیں “پراسرار جزیرہ”
نہیں “شیکسپئیر کا کردار ھے کوئ”
“وہ گمنام تحریر ھے”
“انشاء کی غزل کا سودائ ھے”
غلط “وہ جادوئ کتاب ھے”
“طلسماتی کھل جا سم سم”
قہقہے پڑتے
“وہ بس ایک سفر ھے جس کی کوئ منزل نہیں”
ھاں “لاحاصل سفر”
“میرے خیال میں وہ ایک جوگی ھے”
کھلکھلاہٹیں یہاں سے وہاں تک بکھریں۔۔

پھر اسکی چھوٹی بہن فلسفیانہ انداز میں بولی
“وہ بس ایک خواب ھے، ادھورا سا، حقیقت نہیں”
تالیاں بجنے لگیں

سب اس پر طرح طرح کے تبصرے کرتے
کیوں کہ وہ ان سب سے مختلف تھا
مگر کوئ بھی اسے صحیح طریقے سے بیان نہیں کر سکتا تھا
آخر میں سب اس بات پر متفق نظر آتے کہ
“وہ ایک سمندر ھے،
خاموش،
پرسکون اور گہرا سمندر
جو اپنے اندر کے طوفان اندر ہی چھپائے رکھتا ھے
یہ سب اس کے سامنے بھی کہا جاتا تھا
تبصرے اور بے لاگ تبصرے اس پر کئیے جاتے تھے
کیونکہ سب اپنی دانست میں یہ حق رکھتے تھے
سب اس کے انداز پر تشویش میں ڈوب جاتے تھے
وہ یہ سب دیکھتا تھا مگر کچھ نہ کہتا۔
اسے اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا تھا
♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب اس نے ایک وجود سے محبت کی تھی
اسے ٹوٹ کر چاہا تھا
اس کے کہنے پر اعتماد کیا
تو وہ جلد ہی اپنی محبت کا دامن اس سے چھڑا کر بھاگ گیا
وہ اس کے پیچھے لپکا تھا
آوازیں دیں مگر ہاتھ میں صرف مان کی ٹوٹی ہوئ کرچیاں
اپنے سینت سینت کر رکھے جزبوں کی بےقدری پر وہ ششدر رہ گیا تھا
تب اس کے اندر سے ایک سرگوشی ابھری
“وجود کی چاہ چھوڑو، ذات سے عشق کرو
اسے کھوجو”
سرگوشی چیخوں میں ڈھل گئ
سمندر میں کئ طوفان اٹھے
وہ ان آوازوں اور چیخوں کو دباتے دباتے نڈھاک ہو گیا
“تمہارا کام صرف عشق کرنا ھے
چاہے جانا، دیئے جانا ہے
اس بات سے غرض نہ رکھو کہ بدلے میں تمہیں کیا ملے گا
عشق کرو مانگو مت
دیئے جاو نفع نقصان کی پرواہ کیئے بغیر
مٹ جاو
اپنی لالچ ختم کر دو
حرص چھوڑ دو
ڈوب جاو اس سمندر میں اور امر ہو جاو
پیاس مت بنو، امرت بنو
سراپا سماعت بن جاو
عارضی،جھوٹے سہاروں کو چھوڑ دو
بس ایک آس لگاو
ایک جوت جگاو”
وہ سنتا رہا
کیسے کروں؟
اس کا دل ایک سوالیہ نشان بن گیا
“مجھ میں اتنی سکت نہیں ہے”
سمندر کا سکوت ٹوٹا اور بکھر گیا
“تم ارادہ تو کرو، سکت وہ ڈال دے گا”
سرگوشی نے اکسایا اور اس نے ارادہ کر لیا
مگر یہ کیا؟
دنیا اس کی طرف لپکی
آو…!
میں سکون ہوں
میں روشنی ہوں
تمہارا سفر،تمہاری منزل۔۔۔
وہ دامن بچا کر بھاگا
منزل یہ نہ تھی، سفر تو ابھی جاری تھا
پھر دولت نے اسے اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کی
“میں ضرورت ہوں
خواہش ہوں
خوبصورتی ہوں
آو میرا مزا چکھ لو
میرا مزا پالو گے تو پھر سب مزے بھول جاو گے
یہ سب لذتیں میرے ہی دم سے ہیں
میں عزت ہوں، شہرت ہوں
آو…!
آو…!
وہ اس سے بھی بھاگا
تیز،بہت تیز
نہیں۔۔۔
یہ عزت نہیں
یہ لذت نہیں
یہ خواہش نہیں
صرف مایا ھے،صرف دھوکا
خوبصورت سراب
زہر،ایک مصیبت
سمندر میں جیسے لہریں سی اٹھنے لگی تھیں
ہوا حیرانی سے اسے دیکھنے لگی
“کیا تمہیں اس کی ضرورت نہیں؟”

“مجھے ذات مل گئ تو سب کچھ مل گیا
آخر کار سمندر کا طوفان تھم سا گیا
سکوت ٹوٹا اور ہوا سبک روی سے چلنے لگی
۔۔
“تو نجات کب ملے گی؟”
ڈھلتے ہوئے سورج نے سوال کیا۔
۔۔
“جب میں تسکین کا مزا چکھ لوں گا”
سورج اس پاگل پر ہنسنے لگا
سمندر خاموش ہو چکا تھا
ہوا سانس روکے کھڑی رہی
ریت بکھرنے کو بے تاب ہوگئ تھی

♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا کالج میں بھی دل نہیں لگتا تھا
وہ اپنی ذات میں کچھ اور سمٹ گیا تھا

اچانک اس کے بڑے بھائ نے اسے بلایا
“ادھر آو”
بڑے بھائ کے پکارنے پر وہ چونکا تھا
پھر دھیمے چلتا ان کی طرف آ گیا
اس وقت اس کے سارے کزنز اور بہن بھائ ادھر ہی بیٹھے تھے
جی بھائ

کبھی یہاں بھی بیٹھ جایا کرو
ھمارے پاس
انھوں نے شکوہ کیا تو وہ روبوٹ کی طرح بیٹھ گیا
“کیا کر رہے ہو آج کل؟”
انھوں نے پوچھا

تلاش…!
وہ کھوئے کھوئے سے لہجے میں بولا

کس کی؟
کسی حسینہ کی؟

نہیں..!
منزل کی

“تمہیں کیسے بتاوں تم میری منزل ہو”
سب گانے لگے

کس چیز کی؟
کون سی منزل؟
اس کی بہن نے باقی لوگوں سے قطع نظر اس سے پوچھا
سکون کی منزل
تسکین کی منزل
اپنے اصل کی منزل
اپنی ابدی منزل
وہ سمندر بن گیا تھا
لہر در لہر سوچیں اس کی پیشانی پر ابھرنے لگی تھیں

کیا خبطی ہو گئے ہو؟
بہن نے حیرت سے پوچھا
وہ ہنس پڑا
کھل کر ہنس پڑا
وہ پہلی مرتبہ اتنا کھل کر ہنسا تھا
سب حیران رہ گئے
نہیں…!
میں بے نیاز بن جانا چاہتا ہوں
وہ کھو سا گیا
چلو اب تو پراسرار جزیرہ دریافت ہوگا
اس کے ایک کزن نے کہا

نہیں…!
کھو جائے گا ہمیشہ کیلیئے
اس نے کہا اور اٹھ کر وہاں سے چلا گیا
سب اس کے اس انداز سے ڈر گئے
سب ہی سوچ میں پڑ گئے تھے

♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢♢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تلاش میں گم تھا
صرف طلب باقی تھی باقی سارے جزبے ماند پڑ چکے تھے
وہ صبح سے گھر سے غائب ہوتا اور رات گئے تک آتا
تھکا ہوا
سست سست سا
کھویا ہوا
سب اس کے اس روئیے سے پریشان ہو جاتے
سب اسے برا بھلا کہتے اور چڑ کر چلے جاتے
اس کے کزنز آپس میں سرگوشیاں کرتے
“مجھے تو اس سے وحشت ہوتی ہے
او گاڈ…!
عجیب لڑکا ھے
خوابوں جیسا”
اس کی ایک کزن کہتی
غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔۔
●○●○●○●○●○●○●○●○●○●○●
اس دن وہ ساحل کے کنارے کھڑا تھا
ڈوبتے سورج کو دیکھ رہا تھا

تلاش ختم ہوئ؟
سمندر سے اٹھتی ہوئ ایک موج نے سوال کیا
ھاں
ختم ہوئ
اس کی آنکھوں کی ساکن سطح میں سمندر کی طرح موجیں ابھرنے لگی تھیں
اور ایسے میں اس کی گہری آنکھوں سے ایک جگمگاتا سا موتی نکلا اور ساحل کی ریت میں جا دفن ہوا
اسے اپنی آنکھیں نم محسوس ہوئیں

ھمیں بتاو گے۔۔؟
یہ تلاش کیسے ختم ہوئ؟
ہوا نے پوچھا

بس ہوگئ…!
اس نے جواب دیا
مبارک ہو
ڈھلتے سورج نے کہا
پھر ہوا اسے گدگدانے لگی

اب زندگی کا مقصد؟
سرگوشی پھر ہوئ
بس اب زندگی بھی ختم ہونے والی ھے
وہ بولا
ہوا خوفزدہ ہو گئ

موت سے ڈر نہیں لگتا؟
جستجو نے حیرانی سے پوچھا
نہیں
اب موت سے قطعی ڈر نہیں لگتا
کیونکہ موت کے بعد ہی اصل زندگی ھے
آرام دہ، پر سکون
ہر قسم کی پریشانی سے آزاد
وہ مطمئن اور پرسکون تھا
پھر اس کی آنکھوں میں تاریکی سی چھانے لگی تھی
دماغ میں اندھیرا چھا گیا
وہ لڑکھڑایا اور اس بے جان جسم سمندر میں جا گرا اور بڑی بڑی موجیں اسے اپنے ساتھ لے جانے لگیں
آخرکار ایک سمندر دوسرے سمندر میں دریا بن کر گر گیا تھا
بہہ گیا تھا
ڈوب گیا تھا
سورج نے حیرت و افسوس سے اسے الوداع کہا
ہوا ساکن رہ گئ
دمبخود لہریں سر پٹخنے لگیں
جستجو معدوم ہو گئ
سفر تمام ہوا
تسکین اپنے پروں کو سمیٹنے کے بعد کہیں اور محوپرواز ہو گئ
ایک جوگی…!
ایک سودائ اپنی منزل پا گیا
شام ڈھل گئ
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بیس سال گزر گئے تھے
اس جوگی کو سب نے ہر جگہ ڈھونڈا
وہ جو ایک سودائ تھا
جس کے ہونے نہ ہونے سے کسی کو کوئ فرق نہیں پڑتا تھا
مگر اب فرق پڑ رہا تھا
سب اسے تلاش کر رہے تھے
اماں بی اب چپ رہنے لگی تھیں
ابا نے شطرنج کھیلنا چھوڑ دیا تھا
بھائ بہن اور کزنز اسے یاد کرتے اور آنسو بہاتے
سب اداس رہنے لگے تھے
وہ خوابوں کا شہزادہ۔۔۔
شاید پراسرار جزیرے کی طرف سفر کر گیا تھا
سب افسردہ ہو گئے تھے
سب کے کانوں میں اس کے الفاظ گونجتے
جب ایک کزن نے کہا تھا کہ چلو اب ایک پراسرار جزیرہ دریافت ہوگا
تو اس نے کہا تھا کہ نہیں۔۔۔
کھو جائے گا
ہمیشہ کیلیئے
اس کے جواب پر سب ڈر گئے تھے
خاموش ہو گئے تھے
آج وہ واقعی کھو گیا تھا
سفر میں
جستجو میں
اصل میں
منزل میں
سکون میں
اور سب کچھ پا گیا تھا
بیس برس گزرنے کہ باوجود اس کی یادیں ابھی تازہ تھیں
اس سودائ کا کمرہ آج بھی تنہا ہے
کمرے کے درودیوار سے اس کی آوازیں آتی ہیں
یہ کمرہ آج بھی ایسا ہی پراسرار اور غمگین ھے
اپنے مکین کی طرح اسے کوئ نہ آباد کر سکا
سب کو معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کہاں ہے
کہاں گیا
کیا اسے سب کچھ مل گیا؟
یا وہ خالی ہاتھ رہا
کوئ نہیں جانتا
وہ سط کچھ پا گیا تھا
سب کچھ
اور پھر گم ہو گیا
کسی انجان دیس میں
کسی گمنام خاموش جزیرے کی طرف
سفر کر گیا
امر ہوگیا
وہ سمندر تھا۔ وہ اپنے ہی جیسے سمندر میں ڈوب گیا تھا
بہہ گیا تھا

》》》 ختم شد《《《

SahirKiDiary

ساحرکیڈائری

اس طرح کی تحریریں یوٹیوب پر پڑھنے اور سننے کیلئیے ہمارا یوٹیوب چینل Sahir Ki Diary سبسکرائب کر لیں

شکریہ

فیس بک لنکس 👇👇

https://www.facebook.com/novels.magic.world

https://facebook.com/groups/476636183015815

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top