Soul Mates Episode 03

Soul Mates
By Sahir Sami
Episode 03

Soul Mates By Sahir Sami

مس مایا اپنی لیب میں آرام دہ کرسی پر ٹیک لگائے بیٹھی تھی، اس کی نظریں سامنے میز پر رکھی فائلوں پر جمی تھیں۔ سالار، اس کے مقابل کرسی پر بیٹھا تھا
مس مایا نے ایک سرد نظر اس پر ڈالتے ہوئے سوال کیا، “سالار، تم نے اپنا کام ٹھیک سے انجام دیا نا؟”

سالار نے کچھ دیر خاموش رہ کر مایا کی آنکھوں میں دیکھا، پھر سر ہلایا۔ “ہاں، میں نے کام کر دیا ہے۔ مسٹر جیکسن اب اس دنیا میں نہیں رہے۔”

مایا کے لبوں پر ایک دھیمی سی مسکراہٹ آئی، لیکن وہ جلدی سے سنجیدہ ہو گئی۔ “بہت اچھا، لیکن تمہیں معلوم ہے نا کہ یہ معاملہ کتنا حساس ہے؟ اگر کسی کو ہمارے اس پلان کی بھنک بھی پڑ گئی، تو نہ صرف تمہاری بلکہ میری بھی جان خطرے میں ہوگی۔”

سالار نے گہری سانس لی اور بولا، “مایا، میں نے ہر چیز بہت سوچ سمجھ کر کی ہے۔ کوئی ثبوت نہیں بچا، اور میں نے ہر قدم احتیاط سے اٹھایا۔”

مایا نے کرسی سے اٹھتے ہوئے میز پر رکھی ایک فائل اس کی طرف بڑھائ۔ “یہ اگلا قدم ہے، سالار۔ مسٹر جیکسن کے ساتھ کام کرنے والے لوگ اب ہمارے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہم ان سب کو ختم کریں گے، لیکن بغیر کوئی سراغ چھوڑے۔”

سالار نے فائل کو کھولا اور اس کے اندر موجود تصاویر اور معلومات کو غور سے دیکھنے لگا۔ مایا نے اپنی آواز کو تھوڑا سخت کرتے ہوئے کہا، “سالار، تمہیں سمجھنا ہوگا، یہ جنگ صرف مسٹر جیکسن کے ساتھ نہیں تھی۔ یہ ان سب لوگوں کے خلاف ہے جن کی وجہ سے ہمارے والدین ہمارے بہن بھائ سب لوگ مارے گئے ہیں اور جب تک اس میں شامل تمام لوگ ختم نہیں ہونگے ہم سکون سے نہیں رہ سکتے
اگر ہم انہیں نہیں ماریں گے تو وہ ہمیں مار دیں گے
شکار ہونے سے بہتر ہے شکار کیا جائے۔”

سالار نے فائل بند کی اور مایا کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا، “مایا، تم نے مجھے اس راستے پر لایا ہے، اور اب میں پیچھے ہٹنے والا نہیں ہوں۔ جو بھی ہوگا، ہم اسے انجام تک پہنچائیں گے۔”

مایا کی آنکھوں میں ایک خطرناک چمک تھی۔ “یہی بات سننا چاہتی تھی، سالار۔ اب تمہیں اور زیادہ محتاط رہنا ہوگا۔ ہمارا مشن ابھی ختم نہیں ہوا۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مایا سالار کی چچا زاد کزن تھی اور کچھ عرصہ قبل انڈرورلڈ کے لوگ کسی بنا پر انکے خاندان کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے اور پورے خاندان کو چن چن کر ختم کر دیا گیا تھا جبکہ سالار اور مایا بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے گئے ہوئے تھے تو وہ وقتی طور پر بچ گئے تھے
تب سے مایا نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے قتل کا بھیانک انتقام لے گی اور اس میں ملوث تمام لوگوں کی زندگی اجیرن کر دے گی اور انہیں تڑپا تڑپا کر مارے گی
مایا نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے پناہ مہارت حاصل کی تھی جبکہ اس نے سالار کو اس انداز میں تربیت دی تھی کہ سالار جنگی مہارت اور جسمانی قوت میں بے مثال بن چکا تھا
فولاد کا سینہ رکھنے والا سالار جنون کی حد تک اپنی چچا زاد مایا کو چاہتا تھا اور اوپر سے ان کے خاندان پر جو قیامت گزری تھی اس کے بعد وہ بے حد قریب ہوچکے تھے
ان کا ٹارگٹ انڈرورلڈ کا بے تاج بادشاہ رئیس سلطان مرزا تھا مگر وہ ان کی پہنچ سے بہت دور تھا تو وہ آہستہ آہستہ اس کے قریبی ساتھیوں کو ختم کرنے کا پلان بنا چکے تھے
وہ سلطان مرزا کو اس قدر مجبور کر دینا چاہتے تھے کہ وہ ان کے سامنے آ جائے اور اس کے لئیے مایا نے بہت ذہانت ہوشیاری اور محنت کے بل بوتے پر انڈرورلڈ میں رسائ حاصل کی تھی مگر اسکی شناخت ابھی پوشیدہ تھی
وہ گھوسٹ لیڈی کے کردار میں سامنے آتی تھی اور ایسے ایسے کارنامے سرانجام دئیے تھے جس سے پورے انڈرورلڈ پر اسکی دھاک بیٹھ گئ تھی
اس کے مقصد سے کوئ واقف نہیں تھا نا اسکی رہائش نا اسکا چہرہ سامنے آیا تھا
وہ مختلف روپ میں کوئ انوکھا کارنامہ دکھا کر ایسے غائب ہو جاتی کہ اس کا سراغ تک نا ملتا
ایسے میں ایک پراسرار نقاب پوش نا جانے کہاں سے نمودار ہوا تھا جو اسکے بارے میں کافی خطرناک حد تک جانکاری رکھتا تھا اور اس کے مقصد کو بھی جان چکا تھا
یہ بات مایا کیلئیے بہت ہی تفتیش ناک تھی مگر اس نے ابھی اس کا ذکر سالار سے نہیں کیا تھا
سالار کو بہت سوچ سمجھ کر اس نے اپنے مقصد اور پلان کا حصہ بنایا تھا اور خاندان کے نام پر بس وہی ایک ہی تھا اس کے پاس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے انڈرورلڈ میں خوف اور بے یقینی کی لہر دوڑ چکی تھی۔ جیکسن، جو انڈرورلڈ میں ایک نمایاں کردار تھا اور انٹرنیشنل لیول پر سلطان مرزا کا رائیٹ ہینڈ تھا، اس کی موت نے سب کے ہوش اڑا دیے تھے۔ جیکسن کو کوئی بھی کھلے عام چیلنج کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا، لیکن اس کا کلب سے واپسی پر قتل ہونا واضح کرتا تھا کہ قاتل کوئ عام شخص نہیں تھا۔
جیکسن کی موت کے بعد انڈرورلڈ کے بڑے سرغنہ ایک خفیہ جگہ پر جمع ہوئے تھے۔
ایک وسیع اور ساؤنڈ پروف ہال میں سکندر مرزا کی سربراہی میں ایک کانفرنس رکھی گئی تھی جس میں دنیا بھر سے مختلف گروہوں کے سربراہ بیٹھے تھے۔

“یہ حملہ ہم سب کے لیے ایک پیغام ہے!” ایک بھاری بھرکم آواز گونجی۔ یہ ڈان ویگا کی آواز تھی، جو یورپ کے سب سے بڑے انڈرورلڈ نیٹ ورک کا سربراہ تھا۔
“اگر جیکسن جیسا شخص محفوظ نہیں، تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ یہ کون ہے!”

ایک اور آواز نے جواب دیا: “یہ کام کوئی نیا کھلاڑی نہیں کر سکتا۔ یہ کوئی ایسا ہے، جو ہمارے ہی اندر سے ہے یا ہماری طاقت کو چیلنج کرنا چاہتا ہے۔”

سکندر مرزا، جو ہال کے بیچوں بیچ اپنی مخصوص کرسی پر براجمان تھا، کچھ دیر خاموش رہا۔ اس کی گہری آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ اس مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہو۔ کمرے میں موجود ہر شخص جانتا تھا کہ سکندر مرزا کی خاموشی اس کے غصے سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔

آخر کار، اس نے اپنی بھاری مگر پرسکون آواز میں کہا، “یہ حملہ ہمارے نظام پر ایک وار ہے۔ یہ ہمارے اصولوں، ہمارے اتحاد، اور ہماری طاقت کو چیلنج کرنے کی کوشش ہے۔”

ڈان ویگا نے مرزا کی طرف جھکتے ہوئے کہا، “لیکن سوال یہ ہے، مرزا، یہ دشمن کون ہے؟ اور ہمیں اس سے کیسے نمٹنا ہوگا؟”

مرزا نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر اپنے قریب بیٹھے ایک شخص کی طرف دیکھا۔ وہ اس کا ایک اور قریبی ساتھی، طاہر بلوچ تھا، جو انڈرورلڈ کے خطرناک قاتلوں میں سے ایک تھا۔ “طاہر، ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ یہ کس نے کیا۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی تمام طاقت استعمال کرو اور یہ معلوم کرو کہ اس کے پیچھے کون ہے۔”

طاہر نے سر ہلاتے ہوئے کہا، “جیسا آپ کہیں، مرزا صاحب۔ لیکن ایک بات طے ہے، یہ کوئی عام شخص نہیں ہے۔ جیکسن کو مارنا اور وہ بھی اس طرح، کوئی آسان کام نہیں۔ یہ ایک منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔”

اسی دوران، ایک اور شخصیت، ڈان مارکو، جو جنوبی امریکہ کے کارٹلز کا سربراہ تھا، بول پڑا۔ “مرزا، اگر ہم نے جلدی کوئی قدم نہ اٹھایا تو یہ قاتل ہم سب کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ ہم ایک کے بعد ایک شکار ہو جائیں گے۔”

مرزا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ مارکو کی طرف دیکھا، لیکن اس کی مسکراہٹ میں خوف کے بجائے یقین تھا۔ “خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، مارکو۔ جو بھی یہ کھیل کھیل رہا ہے، اسے ہم خود شکار بنائیں گے۔”

اچانک، ہال کا دروازہ کھلا اور ایک شخص اندر آیا۔ وہ مرزا کے ذاتی گارڈز میں سے ایک تھا۔ اس نے مرزا کے کان میں جھکتے ہوئے کہا، “مرزا صاحب، ہمیں ایک اور خطرناک خبر ملی ہے۔”

مرزا نے سخت لہجے میں پوچھا، “کیا خبر ہے؟”

گارڈ نے سرگوشی میں جواب دیا، “ایک پیغام آیا ہے… گھوسٹ لیڈی کی طرف سے۔”

یہ سن کر مرزا کا چہرہ سخت ہو گیا۔ ہال میں موجود دوسرے لوگوں نے مرزا کے تاثرات کو محسوس کیا، لیکن کسی کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ گارڈ نے کیا کہا تھا۔

مرزا نے گارڈ کو اشارہ دیا کہ وہ خاموش ہو جائے، پھر اپنی کرسی پر جھک کر گہری آواز میں کہا، “یہ کانفرنس ختم ہوئی۔ اب مجھے کچھ وقت چاہیے۔”

سب لوگ مرزا کے حکم کے تحت خاموشی سے اٹھنے لگے، لیکن ان کے ذہنوں میں بے شمار سوالات اور خوف جاگزین تھے۔ جیکسن کی موت، گھوسٹ لیڈی کا ذکر، اور مرزا کے تاثرات سب کچھ انڈرورلڈ میں ایک نئے طوفان کا اشارہ دے رہے تھے۔
جاری ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top