Soul Mates
By Sahir Sami
Episode 05
عائشے گل اس وقت ترکی کے مشہور علاقے کیپادوکیا Cappadocia میں گھڑ سواری کر رہی تھی۔ سورج غروب ہونے کو تھا، اور آسمان پر سرخ، نارنجی اور سنہری رنگ بکھر رہے تھے۔ اردگرد عجیب و غریب چٹانی ستون (جنہیں پریوں کی چمنیاں کہا جاتا ہے) لمبے سائے ڈال رہے تھے۔
ہوا میں ہلکی سی ٹھنڈک تھی، اور گھوڑے کے قدموں کی آواز نرم مٹی پر مدھم دھڑکن کی طرح گونج رہی تھی۔ وہ آگے بڑھتی رہی، جب اچانک ایک پہاڑی موڑ پر آ کر رک گئی۔ نیچے گوریمے وادی کے چھوٹے گھروں کی روشنی جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہی تھی، اور کچھ فاصلے پر گرم ہوا کے غبارے آسمان میں بلند ہو رہے تھے، جیسے خوابوں کا کوئی قافلہ۔
یہ علاقہ غروبِ آفتاب کے بعد مزید حسین ہو جاتا ہے۔
کیپا ڈو کیا اپنی منفرد چٹانی ساخت زیر زمین شہروں اور گرم ہوا کے غباروں سے مشہور ہے
زیر زمین شہر (Underground Cities)
قدیم زمانے میں دشمنوں سے بچنے کیلئے تعمیر کئیے گئے تھے جو اب اس علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں
اس کے علاوہ جا بجا گرم ہوا سے پھولے غبارے نظر آتے ہیں کو بہت دلفریب نظارہ پیش کرتے ہیں
خوبصورت اور منفرد انداز میں بنے ستون جو پریوں کی چمنیوں (Fairy Chimneys) کے نام سے جانے جاتے ہیں ان کے اوپر بے شمار ہوا کے غبارے اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ نظارہ دل کو موہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے
عائشے گل فطرت سے لگاؤ رکھنے والی لڑکی تھی جوپچھلے کافی عرصے سے کیپادوکیا میں رہائش پذیر تھی اور اسے اس جگہ سے ایک عجیب سی انسیت ہو چکی تھی۔ دن کے وقت وہ اکثر پریوں کی چمنیوں کے درمیان گھڑ سواری کرتی یا گوریمے کے قدیم غاروں اور زیرِ زمین شہروں کی کھوج میں نکل جاتی۔ شام کے وقت وہ اپنے چھوٹے سے پتھریلے مکان کی چھت پر بیٹھ کر سورج کے ڈوبنے کا منظر دیکھتی، جب گرم ہوا کے غبارے آسمان میں تیرتے نظر آتے اور پورا علاقہ کسی پرستان کی طرح لگنے لگتا۔
عائشے گل کو پاکستان سے یہاں آئے ہوئے بارہ سال گزر چکے تھے۔ وقت جیسے پر لگا کر گزر گیا تھا، لیکن کیپادوکیا کی چٹانی وادیاں، قدیم کھنڈرات اور سنہری غروبِ آفتاب اس کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے
شروع میں، جب وہ یہاں آئی تھی، تو یہ جگہ اس کے لیے اجنبی تھی۔ وہ صرف چند مہینوں کے لیے ایک تحقیقی منصوبے پر آئی تھی—قدیم تہذیبوں پر کام کرنے کے لیے۔ لیکن کیپادوکیا کے پراسرار ماحول، یہاں کے زیرِ زمین شہر، پریوں کی چمنیاں، اور پرانی ترک روایات نے اسے جکڑ لیا۔ کچھ ایسا تھا اس ہوا میں، جو اسے باندھ کر رکھے ہوئے تھا۔
پہلے پہل وہ صرف ایک محقق تھی، مگر آہستہ آہستہ اس نے یہاں اپنا ایک چھوٹا سا کیفے بنا لیا، جہاں سیاح آتے، قصے سنتے اور پرانی کہانیاں اس کی زبان سے سننے کے خواہشمند ہوتے۔ “
عائشے گل جو اس وقت گھڑ سواری کرنے کے بعد واپسی کیلئے پلٹ رہی تھی اچانک اس کے دل کو دھچکا سا لگا کوئ عجیب سا وسوسہ اس کے دل و دماغ پر چھانے لگا تھا جیسے کوئ انہونی ہوچکی ہو یا ہونے والی ہو
اس نے جلدی سے گھوڑے کو ایڑ لگائ اور وہ اپنی رہائش گاہ پہنچی، تھکے قدموں سے نیچے اتری اور گھوڑے دوفین کو اصطبل میں باندھنے لگی۔ مگر ذہن کہیں اور الجھا ہوا تھا۔ ہاتھ خود بخود چل رہے تھے، لیکن دماغ کہیں کھویا ہوا تھا
اسے اپنی بے چینی کی سمجھ نہیں آ رہی تھی
اصطبل کی خاموشی میں گھوڑے کی مدھم ہنہناہٹ ابھری، جیسے دوفین بھی بے چین ہو۔ وہ گھوڑے کی پشت تھپتھپا کر باہر نکلی اور سرد ہوا میں ایک گہرا سانس لیا۔
“یہ جگہ… یہ وادیاں… ہمیشہ سے پراسرار تھیں، لیکن آج کچھ مختلف ہے۔ کچھ ایسا جو پہلے کبھی محسوس نہیں ہوا۔”
وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر اپنے چھوٹے سے مکان میں داخل ہوئی، جو پتھروں سے تراشا گیا تھا اور ایک پہاڑی کی ڈھلوان میں بنا ہوا تھا۔ اندر نیم تاریکی تھی۔ ایک طرف دیوار میں بنا پرانا چراغ رکھا تھا، جس کی مدھم روشنی کمرے میں لرزتے سائے بکھیر رہی تھی۔
وہ صوفے پر بیٹھ گئی، لیکن اس کی نظریں دور کہیں خلا میں جمی رہیں۔ دل کی بے چینی بڑھ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے گھپ اندھیرے میں ایک جیپ تیز رفتاری سے کچے راستے پر آگے بڑھ رہی تھی۔ اس کے ہیڈلائٹس پتھریلی زمین پر روشنی پھینک رہے تھے، لیکن چاروں طرف پھیلی گھپ تاریکی میں وہ روشنی بھی کسی حد تک بے بس لگ رہی تھی۔
جیپ میں چار لوگ سوار تھے—دو لڑکیاں اور دو لڑکے۔
ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا باقر بے حد محتاط انداز میں جیپ چلا رہا تھا، لیکن اس کے چہرے پر اضطراب نمایاں تھا۔ برابر کی نشست پر بیٹھی ایزل کی نظریں مسلسل اپنے موبائل کی اسکرین پر جمی تھیں، جیسے کسی سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہو، لیکن یہاں دور تک کوئی سگنل نہیں تھا۔
پیچھے کی نشست پر موجود علی اور زینب خاموشی سے باہر تاریکی میں گھور رہے تھے۔ ان کے چہرے پر الجھن کے آثار تھے،
وہ راستہ بھٹک چکے تھے اور اس ویران علاقے میں آنکلے تھے
“باقر، رفتار کم کرو، یہ راستہ کافی خطرناک ہے،” زینب نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
“ہمیں جلدی یہاں سے نکلنا ہے،” باقر نے نظریں راستے پر جمائے جواب دیا۔
ایزل نے بےچینی سے گردن گھمائی، “رات کے وقت یہاں کوئ خطرہ تو پیش نہیں آسکتا ؟”
وہ ویران جگہوں سے بہت گھبراتی تھی اوپر سے یہ گھپ اندھیرا اس کی جان لینے کے درپے تھا
اس وقت رات کے دو بج رہے تھے
میرے خیال میں ہمیں صبح کا انتظار کر لینا چاہیئے دن کی روشنی میں آسانی سے راستہ مل جائے گا ہمیں
اس وقت تو دور دور تک کھنڈرات اور ویرانہ ہی نظر آرہا ہے
باقر نے کہا تو ایزل نے گھبرا کر باقر کی طرف دیکھا، جیسے یہ تصدیق کرنا چاہ رہی ہو کہ باقر سچ میں یہاں رکنے کا ارادہ کر چکا ہے
“باقر صحیح کہہ رہا ہے۔۔ علی نے کہا
اس اندھیرے میں ہم ایسے ہی بھٹکتے رہ جائیں گے”
اور پھر جیپ، دھیرے سے رُک گئی
وہ چاروں جیپ سے باہر کھلے آسمان کے نیچے نکل آئے
اچانک انہیں محسوس ہوا جیسے کوئ ہلکی سی آواز آئی ہو
کوئ ہلکا سا کھٹکا محسوس ہوا
وہ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھنے لگے
کچھ دیر تک پھر ایسے محسوس ہوا
باقر نے ٹارچ نکالی اور آواز کی سمت لائیٹ مارنے لگا
کچھ فاصلے پر بڑے بڑے پتھر موجود تھے جہاں سے آواز آ رہی تھی
وہ آہستہ سے چلتا ہوا ادھر جانے لگا
باقر دھیان سے
ایزل گھبرا ئ ہوئ آواز میں بولی
علی بھی باقر کے پیچھے پیچھے چلنے لگا
پتھروں کے درمیان چھوٹا سا گڑھا بنا ہوا تھا جس میں گھنی جھاڑیاں نظر آرہی تھیں
اچانک زور سے کھٹکا ہوا اور جھاڑیاں اپنی جگہ سے اوپر کو ہلنے لگیں اور پھر چپ ہو گئ
ایک وزنی پتھر جھاڑیوں کے بالکل درمیان پڑا ہوا تھا اور شاید اس کے نیچے کچھ دبا ہوا تھا
وہ دونوں احتیاط سے گڑھے میں اتر گئے اور پتھر کو اوپر کھینچنے لگے
ایسے میں باقر کے جوگر کسی ٹھوس سی چیز سے ٹکرائے اور ابھرنے والی آواز سے ایسے لگا جیسے نیچے کوئ لوہے کی چیز ہو
پتھر ہٹا کر وہ جھاڑیاں ادھر ادھر کرنے لگے تو نیچے ایک چھوٹا سا دروازہ نظر آنے لگا جیسے کوئ تہہ خانہ بنا ہوا ہو
ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک کان پھاڑ دینے والا دھماکہ ہوا
زمین اس قدر زور سے لرزی کے وہ اچھل کر کمر کے بل زمین پر آ گرے
لڑکیاں ہیبت زدہ ہو کر چیخنے لگیں
انہیں وہاں سے کچھ فاصلے پر مٹی کے ایک بڑے سے ٹیلے سے آگ کے شعلے نکلتے محسوس ہوئے اور ساتھ ہی ریت اڑتی ہوئی ان پر گرنے لگی
باقر اور علی سنبھل کر بیٹھ گئے جب کہ نیچے موجود دروازہ اکھڑ کر نیچے کی طرف لٹکا ہوا تھا
وہ احتیاط سے اس دروازے کو اوپر کی طرف کھینچنے لگے
دروازے کے نیچے کوئ دبا ہوا پڑا تھا جو شاید کچھ دیر پہلے وہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا اور دروازے پر پڑے وزنی پتھر کی وجہ سے دروازہ کھول نہیں پا رہا تھا
باقر جلدی سے نیچے اتر گیا اور اس شخص کا جائزہ لینے لگا
یہ کوئ سرنگ نما راستہ تھا
وہ شخص بےسدھ پڑا ہوا تھا
باقر نے اسکی نبض چیک کی اور پھر زور سے چلایا
فرسٹ ایڈ باکس لاؤ
اور خود اسے گڑھے سے باہر نکالنے لگا
علی دوڑتا ہوا جیپ تک گیا اور فرسٹ ایڈ باکس نکالنے لگا جبکہ ایزل اور زینب سراسیمگی سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھیں
باقر نے اس شخص کا چہرے پر نقاب دیکھا تو اسے اتارنے لگا جبکہ علی فرسٹ ایڈ باکس لیکر اس کے قریب آ پہنچا
یہاں کوئی explosion ہوا ہے جس کی وجہ ابھی نہیں معلوم اور یہ نیچے ملبے میں دبا ہوا تھا
باقر ایزل اور زینب کو تسلی دینے کے انداز میں بولا
شکر ہے ابھی زندہ ہے اور explosion کے مقام سے کافی فاصلے پر ہونے کی وجہ سے اسے زیادہ گہری چوٹ نہیں آئ
ہم وقت پر پہنچ گئے تھے تو ہی اسے بچا پائے ہیں اب یہ جلدی ٹھیک ہو جائے گا
اس کی مرہم پٹی کرتے ہوئے باقر مسلسل بول رہا تھا
وہ اس بارے میں کافی تجربہ رکھتا تھا اس لئیے اس زخمی شخص کی حالت دیکھ کر اسکی تشویش کچھ کم ہو گئ تھی
اچانک اس زخمی شخص کے کراہنے کی آواز ابھری
ہیر۔۔! ہیر۔۔!
ٹوٹے پھوٹے الفاظ اس کے لبوں پر تھے اور چند لمحوں بعد وہ آنکھیں کھول چکا تھا
جاری ہے