Soul Mates Episode 20

Soul Mates
Sahir Sami
Episode 20

سالار اور مایا کے پاس اب کوئی ٹھکانہ ایسا نہیں بچا تھا جو دشمن سے اوجھل ہو۔ واحد وہی جگہ تھی جہاں ساحر اپنے والدین کے ساتھ رہ رہا تھا، اور عائشے گل بھی ان کے پاس رہ رہی تھی۔

اس وقت ساحر، سالار، اور مایا گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے بات کر رہے تھے جب اچانک سارہ بیگم اندر آئیں اور نرمی سے بولیں، “مایا بیٹا، میں تم سے کچھ ضروری بات کرنا چاہتی ہوں۔”

مایا نے چونک کر انہیں دیکھا، پھر سر ہلاتے ہوئے بولی، “جی چچی، کہیے۔”

سارہ بیگم مسکرائیں اور بیٹھتے ہوئے بولیں، “بیٹا، میں تمہیں ایک ذمہ داری دینا چاہتی ہوں… عائشے گل کے بارے میں۔”

مایا نے حیرانی سے سالار اور ساحر کی طرف دیکھا، جو خود بھی متجسس تھے۔

“کیا مطلب چچی؟”

سارہ بیگم نے اس کے کان میں آہستہ سے کہا، “بیٹا، ہم عائشے گل کو اپنی بہو بنانا چاہتے ہیں… اور میں چاہتی ہوں کہ تم اس سے بات کرو۔”

مایا چند لمحے خاموش رہی، پھر مسکرا کر بولی، “یہ تو بہت اچھی خبر ہے، چچی! میں ابھی اس سے بات کرتی ہوں۔”

مایا سیدھا عائشے گل کے پاس پہنچ گئی، وہ صحن میں کرسی پر بیٹھی کوئ کتاب پڑھنے میں مصروف تھی۔

“عائشے گل، مجھے تم سے کچھ خاص بات کرنی ہے۔” مایا نے مسکراتے ہوئے کہا۔

عائشے گل نے چونک کر سر اٹھایا، “جی؟ کیا ہوا؟”

مایا نے ایک لمحے کے لیے توقف کیا، پھر نرمی سے بولی، “ساحر کے والدین تمہیں اپنی بہو بنانا چاہتے ہیں۔”

عائشے گل کے چہرے پر فوراً گلابی رنگ دوڑ گیا، اور اس کی آنکھیں حیرانی سے پھیل گئیں۔

“مم… میں؟” وہ گھبرا کر بولی۔

مایا نے ہنستے ہوئے کہا، “ہاں، تم! اور مجھے لگتا ہے کہ تمہارے دل میں بھی کچھ خاص ہے، ہے نا؟”

عائشے گل نے فوراً نظریں جھکا لیں اور شرم سے مسکرا دی۔ مگر تبھی ساحر ادھر آ پہنچا۔

“کیا بات ہو رہی ہے؟” وہ حیرت سے بولا۔

عائشے گل نے ایک لمحے کے لیے ساحر کو دیکھا، پھر شرم سے سرخ ہوتے ہوئے فوراً اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی!

“یہ کیا تھا؟” ساحر نے چونک کر مایا کو دیکھا۔

مایا نے قہقہہ لگایا، “فی الحال تمہیں نہیں بتایا جا سکتا
ساحر نے الجھن سے مایا کو دیکھا، “کیا مطلب؟ مجھے تو لگتا ہے، یہاں میرے ہی بارے میں کوئی سازش ہو رہی ہے!”

مایا نے شرارت سے آنکھ ماری، “بالکل! اور تمہیں جلد ہی سب پتا چل جائے گا، بس تھوڑا صبر کرو۔”

ساحر نے گہری سانس لی، “ٹھیک ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ عائشے گل کچھ زیادہ ہی گھبرا گئی ہے۔”

مایا نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکائے، “یہی تو محبت کا حسن ہے، جناب!”

ساحر نے مایا کو گھورا، مگر تبھی سالار بھی وہاں آدھمکا۔

“کیا ہو رہا ہے یہاں؟ میں نے عائشے گل کو بھاگتے دیکھا، وہ کافی پریشان لگ رہی تھی۔”

مایا نے ہنستے ہوئے کہا، “کچھ نہیں، بس تمہارے دوست کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہے!”

سالار نے حیرت سے ساحر کو دیکھا، “سچ میں؟ پھر تو پارٹی بنتی ہے!”

ساحر نے زچ ہو کر کہا، “کیا تم دونوں مجھے کچھ بتاؤ گے یا میں خود ہی اندازے لگاتا رہوں؟”

مایا نے پرجوش انداز میں کہا، “چلو، پھر عائشے گل سے خود ہی پوچھ لو!”

ساحر نے ایک نظر مایا اور سالار پر ڈالی، جو اب اسے چھیڑنے کے موڈ میں تھے۔ وہ گہری سانس لے کر عائشے گل کے کمرے کی طرف بڑھا۔

عائشے گل اپنے کمرے میں بیٹھی پریشان سی اپنے ہاتھ مروڑ رہی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکن بے قابو ہو چکی تھی۔

“یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا واقعی ساحر…؟” وہ زیرلب بڑبڑائی، مگر تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔

“کون؟” اس نے جلدی سے سنبھلتے ہوئے پوچھا۔

“میں ہوں، ساحر!”

عائشے گل کا دل ایک لمحے کے لیے رک سا گیا۔

“مم… میں… میں ابھی مصروف ہوں!” وہ گھبرا کر بولی۔

“مصروف؟ یا مجھ سے نظریں چرانا چاہتی ہو؟” ساحر نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

عائشے گل نے آنکھیں بند کر کے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی، پھر گہری سانس لے کر دروازہ کھول دیا۔

ساحر دروازے کے باہر کھڑا تھا، اس کی نظروں میں ایک عجیب سی سنجیدگی تھی۔

“مایا نے مجھے سب بتا دیا ہے۔” ساحر نے دھیمے لہجے میں کہا۔

عائشے گل نے فوراً نظریں جھکا لیں۔

“تو… تم کیا سوچتی ہو؟” ساحر نے نرمی سے پوچھا۔

عائشے گل نے بمشکل خود کو سنبھالا اور آہستہ سے بولی، “یہ… یہ سب بہت اچانک ہے۔ میں… میں نہیں جانتی کہ کیا کہنا چاہیے۔”

ساحر نے مسکراتے ہوئے کہا، “تمہارے چہرے کے رنگ بتا رہے ہیں کہ تم سب جانتی ہو، بس کہنے کی ہمت نہیں کر پا رہیں۔”

عائشے گل نے گھبرا کر ایک قدم پیچھے لیا، “ساحر، پلیز!”

ساحر نے اس کی طرف دیکھا اور نرمی سے بولا، “میں کوئی دباؤ نہیں ڈال رہا، بس اتنا کہہ رہا ہوں کہ تم جو بھی فیصلہ کرو، وہ اپنے دل سے کرنا۔ میں انتظار کروں گا، جتنا چاہو!”

عائشے گل نے حیرت سے اسے دیکھا، اور پھر ہلکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر آ گئی۔



دوسری طرف، مایا اور سالار دروازے کے پیچھے کھڑے چھپ کر سب کچھ سن رہے تھے۔

سالار نے مایا کی طرف دیکھا اور ہنستے ہوئے بولا، “یہ دونوں تو کافی دلچسپ نکلے!”

مایا نے شرارت سے کہا، “محبت ایسے ہی دھیرے دھیرے پروان چڑھتی ہے!”

سالار نے گہری سانس لی، “ویسے، اب ہمیں اپنے اصل مسئلے پر بھی دھیان دینا ہوگا۔ دشمن کسی بھی وقت ہم پر وار کر سکتا ہے!”

مایا کی مسکراہٹ ایک دم غائب ہو گئی، اور اس کی آنکھوں میں ایک سنجیدگی ابھر آئی۔

“ہاں، ہمیں تیار رہنا ہوگا… کیونکہ اس بار، دشمن کی چال بہت خطرناک ہو سکتی ہے!”
۔۔۔۔۔۔۔
ساحر اور عائشے گل دونوں شرمانے میں کوئ کسر نہیں چھوڑ رہے تھے اور بات آگے چل نہیں رہی تھی تو سالار اور مایا نے فیصلہ کیا کہ یہ محبت یونہی دھیرے دھیرے پروان چڑھنے کے بجائے، راکٹ کی رفتار سے آگے بڑھنی چاہیے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ عائشے گل اور ساحر کے بیچ کوئی فلمی سین تخلیق کیا جائے!

مایا نے سالار کی طرف دیکھا، “کوئی ایسا آئیڈیا جس سے عائشے گل کے دل کی گھنٹی زور سے بجے؟”

سالار نے آنکھیں موند کر دانشورانہ انداز میں سوچا، پھر اچانک انگلی اٹھائی، “ایک دم فلمی انداز میں، ایسا کرتے ہیں کہ عائشے گل پھسل کر ساحر کی بانہوں میں گر جائے!”

مایا نے قہقہہ لگایا، “واہ! تمہارے اندر کا ڈرامہ رائٹر آج جاگ اٹھا ہے!”

سالار نے فخریہ سر ہلایا، “بالکل! اب بس ہمیں ایک گیلا فرش چاہیے!”

مایا نے فوراً ایک چالاکی بھری مسکراہٹ کے ساتھ پانی کی بوتل نکالی اور فرش پر چھڑک دی۔

“یہ لو، اب جب عائشے گل گزرے گی، تو دھڑام!” مایا نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا۔

اب دونوں چھپ کر عائشے گل کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔

عائشے گل کچن سے چائے بنا کر آ رہی تھی، اور جیسے ہی وہ گیلی جگہ پہنچی، ایک لمحے میں سب کچھ سلو موشن میں تبدیل ہو گیا!

اس کے پیر پھسلے، چائے کا کپ ہوا میں اچھلا، اور وہ چیختے ہوئے زمین کی طرف آئی… مگر ساحر کی بانہوں میں نہیں، بلکہ سیدھا سالار کے اوپر جا گری!

سالار کے منہ سے ایک زوردار “اوئے مااااااااا!” نکلا، اور وہ دھڑام سے زمین پر گر گیا، جبکہ چائے اس کے پورے چہرے پر گر چکی تھی۔

مایا نے منہ پر ہاتھ رکھ کر مشکل سے قہقہہ روکا، جبکہ عائشے گل نے گھبرا کر جلدی سے اٹھنے کی کوشش کی، “اوہ خدایا! سالار، تم ٹھیک ہو؟”

سالار نے آنکھیں کھولیں، اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا—شاید غصے سے یا پھر شاید گرم چائے سے!

“میں ٹھیک ہوں، بس میرا وقار اور ناک دونوں زخمی ہو چکے ہیں!” سالار نے کراہتے ہوئے کہا۔

ساحر جو ابھی ابھی کمرے میں آیا تھا، نے یہ سب دیکھا اور حیرت سے بولا، “یہ کیا ہو رہا ہے؟”

مایا نے فوراً معصومیت سے کہا، “کچھ نہیں، بس سالار محبت کی راہ میں قربانی دے رہا ہے!”

سالار نے زچ ہو کر مایا کو گھورا، “یہ محبت نہیں تھی، یہ حملہ تھا!”

عائشے گل نے شرمندگی سے سر جھکا لیا، “مجھے نہیں پتا تھا کہ میں کسی پر گرنے والی ہوں۔”

مایا نے ہنستے ہوئے کہا، “پلان تو یہ تھا کہ تم ساحر کی بانہوں میں گرتیں، مگر قسمت نے سالار کو چن لیا!”

سالار نے کراہتے ہوئے کہا، “قسمت کو بتاؤ کہ میں کوئی ایئر بیگ نہیں ہوں!”

مایا اور ساحر زور سے ہنسنے لگے، جبکہ عائشے گل اب بھی سرخ چہرہ لیے کھڑی تھی۔

سالار نے جھنجھلا کر کہا، “یہ محبت پروان چڑھانے کا جو طریقہ تھا، اس سے تو میں سیدھا اسپتال پہنچ جاؤں گا!”

مایا نے ہنستے ہوئے کندھے اچکائے، “تو پھر اگلا پلان کچھ زیادہ احتیاط سے کرنا پڑے گا!”

ساحر نے حیرانی سے کہا، “تم لوگ واقعی میرے اور عائشے گل کے لیے کوئی پلان بنا رہے ہو؟”

مایا نے شرارت سے کہا، “بالکل! اور جب تک تم دونوں ایک دوسرے کو قبول نہیں کر لیتے، ہم باز نہیں آئیں گے!”

سالار نے سر پکڑ لیا، “اور میں تب تک ہیلمٹ پہن کر گھوموں گا!”

سب ایک ساتھ ہنسنے لگے، اور اس مزاحیہ صورتحال نے ماحول میں ہلکی پھلکی خوشی بھر دی۔ مگر انہیں نہیں پتا تھا کہ ان ہنسی مذاق کے لمحوں کے پیچھے، ایک خطرہ ان کی طرف بڑھ رہا تھا…

جاری ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top