خوابوں کی کرچیاں

خوابوں کی کرچیاں
مکمل ناولٹ
تحریر: ساحر سمیع

میرے کمرے کی کھڑکی سے آنے والی دھوپ میرے بستر پر پڑی جھریوں والی چادر پر سنہری دھاریاں بکھیر رہی تھی۔ میں نے سستی سے آنکھیں کھولیں تو کمرے میں ایک سنّاٹا چھایا ہوا تھا۔ وقت کی سوئیاں دن چڑھنے کا پتہ دے رہی تھیں مگر میری زندگی کی گھڑی اب بھی وہیں رکی تھی جہاں سے پندرہ سال پہلے بند ہو گئی تھی — رشتہ نہ ہونے کی منزل پر۔

میرا نام فرحین ہے، اور میری عمر اب 35 سال ہو چکی ہے۔ بچپن سے لے کر آج تک، ہر رات ایک ہی خواب آنکھوں میں بسا رہا — سفید جوڑے میں لپٹی، سجی سنوری دلہن، اور ساتھ کھڑا وہ شخص جو میرا مقدر ہوتا، میرا محرم، میرا ساتھی۔ لیکن ہر بار، خواب بکھر جاتا، اور حقیقت کی سلگتی زمین پر میں تنہا جا گرتی۔

“فرحین بیٹا! چائے رکھ دی ہے، ٹھنڈی ہونے سے پہلے پی لینا۔” اماں کی آواز آنگن سے آئی۔

چائے؟ صبح؟ کس کے لیے؟ میری تنہائی کے لیے؟ یا ان خوابوں کے لیے جو اب آنکھوں کے بجائے دل کے کونے میں دفن ہو چکے ہیں؟

ابا آج بھی حسبِ معمول اخبار میں کھوئے ہوں گے، اور بھائی اپنے اپنے موبائلوں میں مصروف۔ کسی کو یہ دیکھنے کی فرصت نہیں کہ گھر کی سب سے بڑی بیٹی کی زندگی رک چکی ہے۔ ابا ہمیشہ فخر سے کہتے ہیں:
“ہماری سات پشتیں خاندان سے باہر رشتہ نہیں کرتی، عزت کا سوال ہے!”

میں نے کتنی بار دل کی آواز کو حلق سے نکالنے کی کوشش کی۔ کتنی ہی راتیں اماں کے سرہانے بیٹھ کر روئی، گڑگڑائی، لیکن وہ کہتی تھیں:
“بیٹا، صبر کرو، اللہ بہتر کرے گا۔”

صبر؟ میں نے کیا کم صبر کیا؟ 35 سال کی عمر میں اب صبر، دعا، اور امید کا مفہوم ایک جیسا محسوس ہونے لگا ہے — سب بے معنی۔

کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ اماں ابا کے سامنے چیخوں، روؤں، ان سے سوال کروں کہ کیا خاندان کی عزت میری زندگی سے بڑھ کر ہے؟ کیا خاندان کے رسم و رواج میری خوشیوں سے زیادہ قیمتی ہیں؟

لیکن پھر حیاء، ادب اور وہ پرانی روایات میرے ہونٹ سی دیتی ہیں۔

محلے کی لڑکیاں، جو کبھی میری ہم عمر تھیں، اب ماں بن چکی ہیں۔ ان کے بچے اب اسکول جانے لگے ہیں، اور میں؟ میں آج بھی وہی ہوں — بغیر کسی نام کے، بغیر کسی نسبت کے۔

کل رات پھر ایک خواب دیکھا — میں بھاگ گئی تھی، ایک انجان شخص کے ساتھ، جس کی آنکھوں میں اپنائیت تھی۔ خواب میں میں ہنس رہی تھی، آزاد تھی — لیکن جاگنے کے بعد صرف نم آنکھیں تھیں، اور دل میں ایک اور خراش۔

کیا میرے لیے بھی کوئی فاروقِ اعظم جیسا حکمران آئے گا جو میرے دکھ کی آواز سن سکے؟ کیا کوئی مولوی صاحب کبھی خطبے میں میرا ذکر کرے گا؟ یا میں یونہی زندگی کی شام تک “پھر کبھی” کے وعدے پر زندہ رہوں گی؟

میرے کمرے کی دیوار پر ایک کیل ہے، جس پر کبھی شادی کا جوڑا ٹنگنے کا خواب تھا، اب صرف ایک خالی دوپٹہ ہے — سفید، جیسے میری تقدیر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پندرہ سال پہلے کی بات ہے، میں بیس برس کی تھی۔ وہ عمر جب دل میں نئے خواب پنپتے ہیں، جب ہر لڑکی آئینے میں اپنے چہرے میں دلہن کا عکس تلاش کرتی ہے۔ میں بھی انہی سپنوں میں گم ایک عام سی لڑکی تھی — سادہ، شرمیلی، مگر دل میں محبت کا جذبہ لیے۔

اماں نے ایک دن بڑے اشتیاق سے مجھے پکارا:
“فرحین! تیار ہو جاؤ، کچھ لوگ تمہیں دیکھنے آ رہے ہیں۔”

میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ دل میں خوشی اور گھبراہٹ کا ایک طوفان تھا۔ میں نے اپنا بہترین جوڑا نکالا، ہلکا سا میک اپ کیا، اور پہلی بار زندگی میں ایسا لگا جیسے کچھ نیا ہونے والا ہے۔ اماں نے میرے بالوں میں گجرا سجایا اور کہا:
“دیکھنا، بات بن گئی تو یہ پہلا رشتہ ہی تمہاری تقدیر بن جائے گا۔”

مہمان آئے، لڑکے والے، شریف، پردے دار، لیکن خاندان سے باہر۔

وہ لڑکا انجینئر تھا، باہر کی کمپنی میں ملازمت کرتا تھا، مہذب گفتگو کرتا، آنکھوں میں عزت تھی۔ جب میں چائے لے کر گئی تو اماں کے ہاتھ کانپ رہے تھے، ابا خاموش تھے، اور میری نظریں جھکی ہوئی تھیں۔

کافی دن بعد اماں کے چہرے پر وہ خوشی نظر آئی تھی جو ایک ماں کو اپنی بیٹی کا نصیب بنتے دیکھ کر محسوس ہوتی ہے۔

لیکن اس خوشی کو ایک لمحے میں کچل دیا گیا۔ ابا نے دوٹوک لہجے میں کہا:
“خاندان سے باہر کا رشتہ؟ ہرگز نہیں! ہم نے کبھی ایسا نہیں کیا، نہ کریں گے۔”

اماں نے رو رو کر سمجھایا، میں نے چپ چاپ سن لیا۔ ایک لفظ زبان سے نہ نکالا۔ نہ احتجاج، نہ سوال۔ صرف ایک صدمہ دل میں دفن کر لیا۔

وہ لڑکا اور اس کے گھر والے عزت سے واپس چلے گئے، اور میں نے پہلی بار دل میں وہ درد محسوس کیا جو زندگی بھر کا ساتھی بننے والا تھا۔

وقت گزرتا گیا، کئی ایسے ہی رشتے آئے، ہر بار اماں کی آنکھوں میں امید جاگتی، اور ابا کے ایک جملے پر بجھ جاتی:

“نہیں، خاندان سے باہر رشتہ نہیں ہوگا۔”

اس دن کے بعد آئینے سے دوستی کم ہو گئی، خوابوں کا رنگ مدھم پڑ گیا، اور دل میں ایک تلخی جم گئی۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں، کاش وہ رشتہ ہو جاتا تو آج میری گود میں میرا بچہ ہوتا، میرے شوہر کے ساتھ افطار کرتی، جیسے باقی سب کرتی ہیں۔

لیکن نہیں… میں تو ایک رسم کی قربانی بن گئی — زندہ، مگر مرجھائی ہوئی۔

آج، پندرہ سال بعد بھی وہ دن یاد آتا ہے، اور دل میں ایک سوال اب بھی زندہ ہے:

“کیا میں صرف ایک خاندان کی عزت بچانے کے لیے پیدا کی گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔
دس سال پہلے کی بات ہے — میری بچپن کی سہیلی عالیہ کی شادی تھی۔ وہی عالیہ جو اسکول کے دنوں میں میرے ساتھ ایک ہی بینچ پر بیٹھا کرتی تھی، جس کے خواب میرے خوابوں سے ملتے جلتے تھے، جس کے ہاتھوں میں مہندی لگنے کا تصور کبھی اپنے ہاتھوں سے جوڑ کر کرتی تھی۔

وہ دن آیا — عالیہ دلہن بنی، سرخ جوڑا، کسے ہوئے سنہرے زیور، اور ہونٹوں پر ایک خاص مسکراہٹ جو صرف دلہنوں کے حصے میں آتی ہے۔ میں بھی شادی میں شریک تھی — ایک بکھرتے دل، اور جھوٹے چہرے کے ساتھ۔

“فرحین! تُو کب دلہن بنے گی؟”
ایک رشتہ دار نے مسکرا کر سوال کیا۔

میں نے ہنسی میں اڑا دیا، لیکن دل کے کسی کونے میں وہ سوال زخم بن کر چبھ گیا۔ دل تو کیا، جیسے سانس بھی رک گئی ہو۔ میری نظریں عالیہ پر تھیں — اور دل میں یہ خلش کہ وہی عالیہ جو کبھی مجھ سے کم صورت، کم ذہین سمجھی جاتی تھی، آج اپنی منزل پر پہنچ چکی ہے، اور میں اب بھی دروازے پر بیٹھی ایک دستک کی منتظر ہوں۔

شادی کی رات، سب خوشیاں مناتے رہے، اور میں چھپ کر عالیہ کے کمرے میں جا بیٹھی۔ اس کا سفید دوپٹہ پلنگ پر رکھا تھا، اور میں نے نرمی سے اسے چھو کر اپنی آنکھوں سے لگا لیا۔

“یہ دوپٹہ ایک خواب ہے، جو شاید میرے حصے میں کبھی نہ آئے۔”

اسی لمحے ایک دیے کی لو دوپٹے کے کنارے سے لگی، اور ایک گوشہ جل گیا۔

میں گھبرا کر پیچھے ہٹی، آنسو خودبخود چھلک پڑے — جیسے تقدیر نے بھی کہہ دیا ہو:

“تمہارا دوپٹہ ہمیشہ ادھورا ہی رہے گا۔”

شادی سے واپسی پر اماں نے آہستگی سے کہا:
“بیٹی، اب تو عالیہ بھی چلی گئی، تُو بھی دعا کر کہ تیرا وقت آ جائے۔”

میں خاموش رہی — کیا بتاتی کہ میں برسوں سے یہی دعا مانگ رہی ہوں؟ کیا ماں کو بتاتی کہ اللہ کی طرف سے وقت آیا بھی، کئی بار آیا، لیکن ابا کی رسموں نے اسے واپس لوٹا دیا۔

وہ رات میں نے جاگتے گزار دی۔ کمرے کے کونے میں بیٹھی رہی، پردے کی اوٹ سے چاند کو دیکھتی رہی۔ چاند تو ہر رات آتا ہے، لیکن میری زندگی میں وہ ایک چاند کبھی نہ آیا جو میرے ماتھے کا نصیب ہوتا۔

اب جب بھی عالیہ ملتی ہے، اس کی گود میں دو معصوم بچے ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہے:

“فرحین، اب تیری باری ہے، بس اللہ سے امید رکھ۔”

لیکن اب دل کہتا ہے:

“امید؟ وہ بھی تو آخر ایک دن مر جاتی ہے۔”
۔۔۔۔۔۔۔
میں اب پچّیس کی ہو چکی تھی۔
عالیہ کے بعد صائمہ، ثمینہ، رُبی، ایک ایک کر کے سب بیاہتی گئیں۔ واٹس ایپ گروپ کی پروفائلز میں “Mrs.” کا اضافہ ہونے لگا، اور میرے نام کے ساتھ صرف “Available” رہ گیا — جس کا مطلب سب کی نظر میں “Reject” بن گیا تھا۔

خاندان کے کسی کونے سے آواز آتی:
“فرحین کو کیا ہو گیا ہے؟ پہلے تو بڑی چہکتی تھی، اب تو بس خاموش رہتی ہے!”
کاش کوئی یہ سمجھتا کہ چپ ہو جانا بھی ایک چیخ ہوتی ہے — جو صرف وہی سنتا ہے جسے دل کا درد ہو۔

اور ابا؟ وہ اب بھی ویسے ہی تھے۔

“رشتہ آیا ہے، مگر خاندان سے باہر ہے؟ نہیں چاہیے!”
یہ الفاظ ابا کے ہونٹوں سے نکلتے اور میرے سینے پر گرز بن کر برستے۔

پھر ایک دن میں نے وہ سوچا، جو کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔
رات کے سناٹے میں کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے میں نے خود سے کہا:

“بس بہت ہو گیا، اب یا تو میں زندہ رہوں گی یا یہ رسمیں۔”

میرا ذہن بغاوت کے دہانے پر آ کھڑا ہوا تھا۔
میں نے اپنی ایک جاننے والی سے رابطہ کیا، جو کئی سال پہلے خاندان سے باہر شادی کر کے شہر چھوڑ چکی تھی۔ وہ میری بات سنتی گئی، اور آہ بھر کر بولی:

“فرحین، اگر تُو واقعی یہ قدم اٹھانا چاہتی ہے، تو تیار رہ — ساری دنیا تجھے بدکردار کہے گی، تیرے کردار پہ انگلیاں اٹھیں گی، لیکن کوئی یہ نہیں پوچھے گا کہ تجھے اس موڑ پر لایا کون؟”

اُس کی بات نے میرے اندر کے طوفان کو تھپک دیا، جیسے کسی نے میرے زخم پہ نمک نہیں، مرہم رکھا ہو۔

اُسی رات میں نے ایک خط لکھا — ابا کے نام۔
الفاظ آنکھوں سے نہیں، دل سے نکل رہے تھے:

“ابا! میں گناہ نہیں کرنا چاہتی، لیکن میں تمہاری ضد کے ہاتھوں تباہ ہو رہی ہوں۔ مجھے نکاح چاہیے، گناہ سے بچنے کے لیے، زندگی گزارنے کے لیے، ماں بننے کے لیے، عزت سے جینے کے لیے۔
اگر اب بھی تم نے میری بات نہ سنی، تو میں جانتی ہوں، اس معاشرے میں میرے پاس صرف دو راستے بچیں گے — یا تو بغاوت، یا بربادی۔
اب فیصلہ تم کرو۔”

میں نے خط تکئیے کے نیچے رکھا، اور آدھی رات تک روتی رہی۔

اور اگلی صبح…
کچھ بھی نہ بدلا۔

ابا ویسے ہی ناشتے پر بیٹھے تھے، اماں خاموشی سے چائے رکھ کر چلی گئیں، اور میرے خط کا کوئی ذکر نہ ہوا۔ نہ ڈانٹ، نہ سوال، نہ تسلیم۔

بس ایک اور دن گزرا — اور ایک اور خواب دفن ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک عام سا دن تھا — سورج ہمیشہ کی طرح نکلا، اور زندگی ہمیشہ کی طرح بے رنگ تھی۔

میں اپنے کمرے میں بیٹھی سلائی کر رہی تھی، کہ فون پر واٹس ایپ کا نوٹیفکیشن آیا۔
میری سہیلی ثناء کا میسج تھا، جو کراچی میں کسی NGO میں کام کرتی تھی۔

“فرحین، تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔”
“کیا ہوا؟”
“بس دل چھوٹا نہ کرنا، ایک دوست ہے، کافی نیک دل انسان ہے۔ وہ نکاح کے لیے ایک باحیا، سلیقہ مند لڑکی کی تلاش میں ہے۔ میں نے تمہارا ذکر کیا، تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔”

میرے ہاتھ لرزنے لگے۔

نکاح؟ میرے ساتھ؟ اتنے سالوں کے بعد؟ کوئی ہے جو مجھے عزت سے اپنانا چاہتا ہے؟

میرے اندر سے کئی آوازیں آئیں:
“نہیں! ابا کبھی نہیں مانیں گے۔”
“اگر وہ بھی ایسا نکلا جیسے لوگ ہوتے ہیں تو؟”
“یا شاید اللہ نے سن لی ہو؟”

ثناء نے اس اجنبی کا تعارف کرایا:
نام: فراز احمد
عمر: 38 سال
نوکری: اسلام آباد میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازم
شادی شدہ نہیں
ماں باپ کا انتقال ہو چکا
دین سے جُڑا ہوا، سادہ مزاج
بس نکاح کرنا چاہتا ہے — عزت سے، شرعی طریقے سے

میری سانسیں تیز ہو گئیں۔ فراز کا پیغام پڑھا:

“السلام علیکم فرحین ، میں گناہ کے دور میں نکاح کے ذریعے ایک پاکیزہ رشتہ قائم کرنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ اور آپ کے گھر والے اجازت دیں، تو میں رشتہ بھیجنے کو تیار ہوں۔”
“مجھے حسن نہیں، حیا چاہیے، سج دھج نہیں، سچ چاہیے۔”

میرے اندر کہیں کچھ ٹوٹنے لگا… اور کہیں کچھ جُڑنے بھی لگا۔

میں نے ہمت کی، اور اماں سے بات کی۔
اماں نے سنا، خاموش رہیں… لیکن ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی آئی — وہی چمک جو شاید برسوں بعد جگمگائی تھی۔

لیکن ابا؟
جب بات اُن تک پہنچی، تو کمرے میں خاموشی طاری ہو گئی۔

ابا نے کچھ دیر میری طرف دیکھا، اور صرف ایک جملہ کہا:

“یہ خاندان سے باہر ہے۔ بات ختم!”

بات ختم؟
نہیں ابا، بات اب شروع ہوئی ہے!

رات کو میں نے تہجد میں سجدے میں جا کر کہا:

“اے اللہ، اب فیصلہ تیرے ہاتھ ہے، یا تُو میرے باپ کا دل بدل دے… یا میری تقدیر کا راستہ خود بنا دے۔”

اور اگلے دن — دروازے پر دستک ہوئی۔
ثناء آئی تھی، اور ساتھ تھی فراز کی خالہ، رشتہ لے کر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فراز کی خالہ بہت سلجھی ہوئی، باوقار عورت تھیں۔
ثناء نے ان کا ہاتھ پکڑ کر مجھے کہا:
“فرحین، یہ کوئی عام رشتہ نہیں، یہ تمہارے لیے اللہ کا تحفہ ہے۔”

خالہ نے مجھے پیار سے دیکھا اور بولیں:
“بیٹا، تمہاری سادگی، تمہاری آنکھوں کی خاموشی، سب کچھ کہہ دیتی ہے۔ میرا بھانجا دل کا بہت صاف ہے۔ وہ تمہیں عزت دے گا۔ اگر تم راضی ہو، تو میں بات آگے بڑھاؤں۔”

میرے دل میں جیسے بادل برسنے کو تیار تھے۔ آنکھوں میں نمی تھی، اور ہونٹوں پر لرزتی ہوئی خاموشی۔
میں نے صرف اتنا کہا:
“جی… اگر اماں ابا مان جائیں تو۔”

اور وہی بات… وہی دیوار… ابا۔

جب اماں نے اُنہیں بتایا کہ رشتہ والے آئے ہیں، اور لڑکا نیک، نمازی، سلجھا ہوا ہے — تو ابا نے جیسے کان ہی بند کر لیے۔

“کیا تم سب بھول گئے ہو؟ کیا خاندان کی عزت، ہماری روایات، بس ریت کی دیواریں ہیں جو تم توڑنا چاہتے ہو؟ خاندان سے باہر؟ مر جاؤں گا، لیکن بیٹی کو غیر خاندان میں نہیں دوں گا!”

میں چپ رہی۔

لیکن اس بار اماں چپ نہیں رہیں۔
اماں نے پہلی بار ہمت کی۔

“سن لو، یہ بیٹی جوانی گزار چکی، تمہارے انتظار میں۔
اور تمہاری ضد نے اسے آدھی راتوں میں سسکنا سکھایا ہے۔
اب اگر تم نے اس رشتے کو روکا، تو میں خود نکاح کراؤں گی۔ یہ گناہ کا زمانہ ہے، حلال رشتے نہ ملے تو حرام قدم بڑھتے ہیں۔”

ابا کو جیسے کسی نے تھپڑ مارا ہو۔
ان کی آنکھوں میں لرزہ تھا، وہ اماں کی آنکھوں میں دیکھ نہ سکے۔ اور وہ خاموشی… ایک گہرا طوفان تھی۔

اُس رات میں نے پہلی بار دل سے دُعا کی:

“اے میرے رب، یہ آخری بار ہے، اگر اب بھی کچھ نہ ہوا… تو شاید میرا دل ہمیشہ کے لیے مر جائے گا۔”

صبح آئی، سورج نکلا، پرندے چہچہائے…
اور ابا نے ناشتہ کرتے ہوئے کہا:

“فراز کو بلالو، آ کر خود بات کرے، میں سننا چاہتا ہوں کہ وہ کیسا انسان ہے۔”

مجھے لگا جیسے رب نے میرے دل کی دھڑکنوں میں اپنا ہاتھ رکھ دیا ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتوار کا دن تھا۔
گھر میں خاموشی تھی، لیکن ہر کمرہ گویا سانسیں روک کر منتظر تھا — جیسے دیواروں کو بھی خبر ہو کہ آج فیصلہ ہونا ہے۔
میں نے دوپٹہ سنبھالا، خود کو آئینے میں دیکھا… اور پہلی بار محسوس کیا، میری آنکھوں میں کچھ امید ہے۔

فراز وقت پر آیا۔

سفید قمیص، نیلی ویسٹ کوٹ، ماتھے پر ہلکی سی محراب کی لکیر…
کچھ خاص نہیں، لیکن خاص سا لگا۔ وہ مکمل مرد لگا — جو کسی کی بیٹی کو عزت دینے آیا ہو، خواب بیچنے نہیں۔

ابا نے سختی سے کہا:
“بیٹھو، بات کرو، لیکن یاد رکھو… ہم خاندان سے باہر رشتہ نہیں کرتے۔”

فراز نے نظریں جھکائیں، آہستہ لہجے میں بولا:

“انکل، میں صرف ایک بات کہنے آیا ہوں۔
میں نکاح کرنا چاہتا ہوں، محبت کے لالچ میں نہیں، بلکہ گناہ سے بچنے کے لیے۔
مجھے فرحین کے بارے میں جو سننے کو ملا، وہ میرے دل کو لگا۔
میں اسے قید نہیں دینا چاہتا، آزادی دینا چاہتا ہوں — عزت کے ساتھ۔”

ابا کچھ دیر خاموش رہے۔

پھر وہ لمحہ آیا — جب اماں نے دھیمی آواز میں کہا:

“فرحین، بیٹا، تم آجاؤ۔”

میری سانسیں جیسے رک گئیں۔ دل ایسے دھڑکا جیسے برسوں کا بوجھ اٹھائے جا رہا ہو۔
میں آہستہ آہستہ اندر آئی۔ فراز نے نظریں نیچی کرلیں۔
ابا نے کہا:
“بیٹھو، تم دونوں کچھ بات کرلو۔ ہم کمرے سے جا رہے ہیں۔”

وہ لمحہ… گویا دنیا تھم گئی تھی۔

میں نے نظریں اٹھائیں، وہ نظریں جو برسوں سے خاموش تھیں، آج پہلی بار کسی اجنبی کو دیکھ رہی تھیں۔

فراز نے ہولے سے کہا:
“السلام علیکم، مجھے زیادہ باتیں بنانا نہیں آتی۔
بس اتنا جانتا ہوں کہ اگر آپ ہاں کریں… تو زندگی کا ہر قدم آپ کے ساتھ وفا سے چلوں گا۔
اگر آپ کو میرے اندر سچائی دکھتی ہے، تو بولیے گا… ورنہ میں چپ چاپ لوٹ جاؤں گا۔”

میں خاموش رہی…
پھر میں نے صرف اتنا کہا:

“آپ نے میری آنکھوں کی زبان سنی… کیا یہی کافی نہیں؟”

فراز کے لبوں پر ایک ہلکی مسکراہٹ آئی، جیسے اُس نے اپنی منزل کا پہلا نشان پا لیا ہو۔

ابا کمرے میں واپس آئے، نظریں میری آنکھوں پر ڈالیں…
اور شاید برسوں بعد اُن کی گردن تھوڑی سی جھکی —
“اگر تم راضی ہو… تو میں ہاں کہتا ہوں۔”
۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں ہلچل سی تھی، جیسے کسی مرجھائے باغ میں یکایک بہار آ گئی ہو۔

اماں نے میرے لیے سرخ جوڑا نکالا جو کئی برسوں سے دبے صندوق میں رکھا تھا،
یہ سوچ کر کہ شاید کبھی بیٹی کے نصیب جاگ جائیں۔
آج وہی جوڑا میری گواہی دے رہا تھا — کہ انتظار کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے۔

رشتے داروں کو بُلایا گیا، کچھ آئے، کچھ ناراض رہے۔
کچھ بڑوں نے کہا،
“یہ تو خاندان کے اصولوں کے خلاف ہے، اس کی سزا بھی بھگتنا پڑے گی!”

لیکن ابا… ابا خاموش تھے۔
یہ خاموشی شرمندگی کی تھی یا نرمی کی؟ میں نہیں جانتی،
بس اتنا جانتی ہوں کہ وہ پہلی بار میری خوشی کے راستے میں نہیں کھڑے تھے۔

فراز نے سادگی سے نکاح کا بندھن باندھنے کی خواہش کی۔
نہ کوئی بینڈ باجا، نہ لائٹوں کا شور۔
بس مسجد، مولوی، چند گواہ، اور میرے آنسوؤں سے بھیگی آنکھیں۔

نکاح کے وقت جب قاضی نے مجھ سے پوچھا:

“بیٹی، تمہیں فراز ولد حارث کے ساتھ نکاح قبول ہے؟”

تو میری زبان نے وہ جملہ بولا، جس کے لیے میری روح نے برسوں دعائیں کی تھیں:

“قبول ہے…”

یہ لفظ نہیں تھے،
یہ برسوں کی خاموش چیخیں، ٹوٹی امیدیں، اور کچلے خوابوں کی فتح کا اعلان تھا۔

اماں کی گود میں سر رکھ کر میں روئی…
“اماں، کیا واقعی اب میری بھی زندگی شروع ہوگی؟”

وہ بولیں:
“نہیں بیٹی، تمہاری زندگی تو اُس دن شروع ہوئی تھی جب تم نے اپنی انا کو صبر سے بدل دیا تھا۔ آج بس تمہاری قسمت نے اسے تسلیم کر لیا ہے۔”

رات کو، جب سب سو گئے،
تو فراز نے بس اتنا کہا:
“میں نے تمہیں گھر کی چار دیواری میں قید نہیں کرنا، تمہارا دل چاہے تو پڑھو، لکھو، یا کچھ بھی کرو —
بس اتنا یاد رکھنا، میں تمہاری محبت کے ساتھ ساتھ تمہارا احترام بھی چاہتا ہوں۔”

میرے اندر برسوں سے جو خالی پن تھا، آج پہلی بار کسی کے لفظوں نے اُسے بھرنے کی کوشش کی۔

میں نے دل میں سوچا…
“اگر کسی کو وقت پہ اپنا حق نہ ملے، تو اللہ اُسے دیر سے ضرور دیتا ہے — لیکن مکمل دیتا ہے۔”
۔۔۔۔۔۔
نکاح کے اگلے روز میں فراز کے ساتھ اُس گھر میں آئی جو اب میرا سسرال کہلاتا تھا۔
لیکن قدم رکھنے سے پہلے ہی ایک جملہ سنائی دیا:
“یہی ملی تھی بیوی بنانے کو؟ عمر تو دیکھو…!”

ایک عورت تھی — فراز کی بڑی بہن۔
آنکھوں میں طنز، لہجے میں زہر۔

فراز نے میری طرف دیکھا،
میرے ہاتھ دبائے، اور آہستہ کہا:
“مت گھبرانا، میرے ہوتے تمہیں کسی بات کا جواب دینے کی ضرورت نہیں۔”

میں چپ رہی۔
میں جانتی تھی کہ شادی کے ساتھ صرف شوہر نہیں، ایک نیا خاندان بھی ملتا ہے —
اور ہر خاندان میں کچھ زخم دینے والے لوگ ضرور ہوتے ہیں۔

فراز میرا بہت خیال رکھتا۔
صبح کی چائے میرے ساتھ، رات کی نیند میرے لیے ادھوری کرتا۔
لیکن دن بھر جب وہ کام پر ہوتا،
تو ساس اور نندیں گویا تلواریں لے کر پیچھے پڑ جاتیں۔

“عمر نکل گئی اور اب بہو بننے آئی ہے۔”

“پتہ نہیں کون سا جادو کیا ہوگا فراز پر۔”

“اب تو اولاد کی امید بھی کم ہی ہوگی اس سے۔”

میرا دل ان جملوں سے چھلنی ہو جاتا۔
میں آئینے میں خود کو دیکھتی اور سوچتی:
“کیا واقعی میں اتنی بوڑھی لگتی ہوں؟ کیا میری عمر میری سب خوبیوں کو کھا گئی؟”

ایک دن فراز نے مجھے روتے دیکھا۔
پوچھا:
“فرحین، کیا ہوا؟”

میں نے پہلی بار شکایت کی:
“فراز، میں نے شادی کے لیے سالوں انتظار کیا۔
سوچا تھا کہ اس رشتے سے سکھ ملے گا۔
لیکن یہاں تو زبانوں کے نشتر ہی میرا استقبال کر رہے ہیں۔”

فراز نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:

“تمہارے آنسو میری کمزوری ہیں، اور میں کسی کو اجازت نہیں دوں گا کہ وہ میری کمزوری کو روندے۔
بس ایک وعدہ کرو، تم میرے ساتھ رہو، میرے خلاف مت ہونا۔
باقی سب کچھ میں سنبھال لوں گا۔”

میں نے آہستہ سے کہا:
“تم ہی تو وہ دعا ہو جسے میں نے برسوں اپنے آنسوؤں میں پکارا تھا۔ کیسے تم سے جدا ہو سکتی ہوں؟”

اس دن پہلی بار، سسرال کی دیواروں میں ایک ہلکی سی دراڑ آئی۔
اور اُس دراڑ سے محبت کی روشنی اندر آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔
میں اب 37 سال کی ہوں۔
دو سال گزر چکے ہیں میرے نکاح کو۔
شاید کوئی یہ کہے کہ “اب کیا بچا ہے لکھنے کو؟”
لیکن جو اندر کا دکھ ہوتا ہے، وہ صرف شادی سے ختم نہیں ہوتا…
وہ صرف تب ختم ہوتا ہے، جب کوئی اُسے سمجھنے والا مل جائے۔

فراز نے مجھے وہی دیا۔
سمجھ، عزت، اور سب سے بڑھ کر وہ سکون جو برسوں میرے مقدر سے دور رہا۔

لیکن کیا میرے دل کا وہ دکھ ختم ہو گیا؟
نہیں…
وہ لڑکی، جو ہر تقریب میں پیچھے کھڑی ہوکر خوشی کے شور میں اپنا درد چھپاتی تھی…
وہ آج بھی میرے اندر کہیں زندہ ہے۔

جب میں اپنی جیسی کسی اور لڑکی کو دیکھتی ہوں —
جو عمر کی دھوپ میں جھلس رہی ہو،
تو دل سے ایک ہی دعا نکلتی ہے:

“یا اللہ، کسی بیٹی کے نصیب کو اس کے خاندان کی رسموں کا قیدی نہ بنانا۔”

میرا ابا اب بدل چکا ہے۔
اس کی آنکھوں میں پچھتاوے کے آنسو ہوتے ہیں۔
اکثر وہ تسبیح گھماتے ہوئے کہتا ہے:

“ہم نے دیر کر دی، اگر وقت پہ سوچ لیتے، تو بیٹی کے بالوں میں چاندی نہ آتی۔”

میں ہنستی ہوں، لیکن وہ ہنسی بھیگی ہوتی ہے۔

لوگ کہتے ہیں میں خوش نصیب ہوں۔
میں کہتی ہوں، میں وہ خوش نصیب ہوں جس کا نصیب کئی بار ٹھکرایا گیا، مگر پھر بھی اللہ نے تھام لیا۔

اب جب کبھی کوئی مجھ سے پوچھتا ہے:

“فرحین، تم آج کی لڑکیوں کو کیا مشورہ دو گی؟”

تو میں صرف اتنا کہتی ہوں:

“ہمت مت ہارنا۔
نہ والدین کی ضد سے،
نہ معاشرے کی رسموں سے،
نہ اپنے اندر کے خالی پن سے۔
کیونکہ اللہ تمہیں اُس وقت تھامتا ہے جب تمہاری ہمت ختم ہونے کو ہو۔”

اور اگر کوئی ماں باپ یہ پڑھ رہے ہیں،
تو اُن سے میری ہاتھ جوڑ کر ایک گزارش ہے:

“بیٹی کو ضد اور رواجوں کے شکنجے میں نہ جکڑیں،
کیونکہ جب بیٹی کی سسکیاں دعاؤں میں بدل جاتی ہیں،
تو وہ دعائیں عرش ہلا دیتی ہیں —
اور بعض اوقات…
ماں باپ کے رشتے کو بھی۔”
ختم شد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top