روحوں کا ملن قسط نمبر 03

روحوں کا ملن
قسط نمبر 03

زندگی اچھی بھلی گزر رہی تھی۔
دنیا کی الجھنوں سے وہ لا ابالی سی لڑکی محبت کے جذبات سے نا آشنا تھی۔
اس نے ابھی ابھی ہی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھے تھے
اسے دل میں اتھل پتھل ہوتے جذبات کی ابھی کوئ خبر نہیں تھی
اپنے لازوال حسن سے بے خبر اپنی نادانگی میں اس نے ہزاروں دلوں کی دھڑکنیں بے ترتیب کی تھیں
ہزاروں نگاہیں اسے دیکھتے ہی جھپکنا بھول جاتی تھیں
اسکی شوخ رنگ اداؤں سے قوس قزح سی زمین پر اتر آتی تھی
انٹرمیڈیٹ کے بعد اس نے شہر کی ایک مشہور یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا
پہلی بار وہ کو ایجوکیشن کا تجربہ کر رہی تھی
اپنی ذات میں سمٹی ہیر کو اب دنیا کو جاننے کا موقع ملا تھا
اسے پتہ نہیں تھا دنیا کیسی ہے لوگ کیسے ہیں
اس کا اب تک کا سارا وقت بس گھر اور گرلز کالج تک محدود رہا تھا
اپنی فیلوز سے وہ عشق محبت کی کہانیاں ضرور سنتی آئ تھی مگر اسے ان باتوں میں کبھی دلچسپی محسوس ہی نہیں ہوئ تھی
اب جب کہ ماحول بدل گیا تھا
یونیورسٹی کی رنگین دنیا میں اس نے قدم جما لئیے تھے مگر وہ ابھی تک محبت کی چاشنی سے انجان تھی
لیکن اس دن جب اس نے شاہ میر (مومن) کو دیکھا تھا وہ شاید اپنے احساسات میں تبدیلی کو سمجھ نہیں پائ تھی
کچھ تھا جو اس کے دل میں مچل رہا تھا
اس کی پر سکون زندگی میں طوفان اٹھنے لگا تھا
وہ بچپن سے کسی انوکھے احساس کا شکار رہی تھی
اسے لگتا تھا اس سے کچھ کھو گیا ہو
شاید اس کا وجود
جو کبھی مکمل نہیں تھا
ایک ادھورا پن سا تھا
اور شاہ میر کو دیکھنے کے بعد اسے کچھ اور طرح کے احساسات سے دوچار ہونا پڑا تھا
وہ ان احساسات کو کوئ نام دینے سے قاصر تھی
اسے شاہ میر کی ذات پراسرار سی لگتی تھی
ایک سحر سا تھا۔ ایک کشش تھی
جو صرف ہیر محسوس کر سکتی تھی
ساری دنیا کیلیے وہ صرف عام سا لڑکا۔۔ ہیر کی ذات کا محور بننے لگا تھا
قسمت کے ستارے اپنی جگہ بدلنے لگے تھے
کائنات کی ساری طاقتیں ان کو ملانے کے درپے ہو رہی تھیں
اور ایسے میں ایک شیطانی چکر ان کو اپنے جال میں پھانسنے کیلیے تیار ہو چکا تھا
انکی زندگی بھانک تجربات کی نذر ہونے والی تھی
شیطان کا پجاری بازنتوش جادوگر اپنی مہم پر نکل چکا تھا
اسے ان دو چہروں کی تلاش تھی جنہیں وہ جانتا نہیں تھا
اسے ہر حال میں ان تک پہنچنا تھا
اس کیلئے وہ اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کو تیار تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنگل بہت ہی گھنا تھا۔
اتنا گھنا کہ سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچ سکتی تھی
درختوں کی شاخیں آپس میں اس طرح الجھی ہوئی تھیں کے برستی بارش کا پانی بھی ان سے گزر کر زمین تک پہنچنے میں وقت لگ جاتا تھا
جس جنگل میں دن کے وقت بھی کوئ آنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا وہاں رات کے اس وقت وہ بوڑھا ہاتھ میں لاٹھی لیئے آہستہ آہستہ آگے جا رہا تھا
اس وقت جنگل میں مہیب سناٹا چھایا ہوا تھا
کسی کسی وقت دور سے کسی جنگلی جانور کے غرانے کی آواز آتی تھی
یہ بوڑھا بازنتوش جادوگر تھا
ارد گرد سے بےنیاز وہ بس اپنی منزل کی طرف گامزن تھا
اس گھپ اندھیرے میں وہ دن کے اجالے کی طرح دیکھ سکتا تھا اور اسے اپنی راہ پر چلنے میں کوئ دقت نہیں ہو رہی تھی
اس کی جادوئ طاقتوں نے موذی جانوروں کو اس سے دور رکھا ہوا تھا
کافی دور تک پیدل چلتے رہنے کے بعد وہ ایک درخت کے پاس رکا
چند لمحے ادھر ادھر دیکھتا رہا اور پھر بائیں طرف مڑ کر چند قدم آگے گیا
یہاں پر جنگل کا اختتام ہو رہا تھا اور آگے میدانی علاقہ تھا
میدانی علاقے سے کچھ فاصلے پر پہاڑی سلسلہ شروع ہو رہا تھا
بازنتوش چلتا ہوا پہاڑی علاقے میں پہنچ گیا
وہاں وہ چند لمحے رک کر ادھر ادھر دیکھنے لگا
پھر ایک طرف ابھری ہوئ ایک چھوٹی سی چٹان کی طرف بڑھا
چٹان کے قریب پہنچنے پر ایک شگاف سا نظر آنے لگا جس سے نیچے سیڑھیاں جاتی نظر آ رہی تھیں
بازنتوش سیڑھیاں اترنے لگا اور کچھ ہی دیر میں وہ زیر زمین ایک کافی وسیع علاقے میں موجود تھا
یہاں ایک الگ ہی دنیا آباد تھی
ہر طرف بونے قد کے لوگ آ جا رہے تھے
بازنتوش کو دیکھتے ہی سب تعظیماً جھک کر مہاراج کی جے ہو کرنے لگے
بازنتوش گردن اکڑا کر چلتا ہوا ایک خیمے کی طرف بڑھ گیا
یہ بونے لوگوں کی دنیا تھی
ایک عرصے سے وہ یہاں پر رہتے آئے تھے پھر یہ جگہ بازنتوش کی نظر میں آ گئی تھی
اس نے اپنے شیطانی حربوں اور جادوگری سے یہاں کے لوگوں پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا
وہ اپنے مختلف کام لینے کیلیے ان لوگوں کو استعمال کرتا تھا
بونے لوگوں کے مکان بھی چھوٹے چھوٹے تھے اس وجہ سے بازنتوش نے اپنے لئیے ایک خیمہ لگوا لیا تھا
وہ کافی عرصہ باہر ہی بھٹکتا رہتا یا شیطان کے مندر میں رہتا
یہاں صرف وہ تب آتا جب کوئ بہت ہی ضروری کام پڑ جاتا جو اس کی دانست میں یہ لوگ زیادہ بہتر سرانجام دے سکتے تھے
اور اب بھی اسے ایک ایسی ہی ضرورت آن پڑی تھی جو اسے یہاں کھینچ لائ تھی
جاری ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top