روحوں کا ملن
از قلم ساحر سمیع
قسط نمبر 06
وہ رہا۔۔ پکڑو اسے بھاگنے نہ پائے
قمر کی آواز سنتے اس کے سارے ساتھی چوکنا ہو گئے اور اپنے شکار پر فوکس ہوگئے
وہ ایک ہپی ٹائپ کا لڑکا تھا جو رات کے اس پہر آوارہ گردی کے بعد ہاسٹل واپس جا رہا تھا
اپنے اوپر منڈلاتے خطرے سے بے خبر وہ بس اپنی دھن میں ہوا میں سگریٹ کا دھواں چھوڑتے کانوں میں ہینڈ فری لگائے کسی میوزک کی لے پر سر ہلاتے چلا جا رہا تھا
ہاسٹل ابھی کافی فاصلے پر تھا اور اس کے راستے میں نقاب پہنے قمر ڈنڈوں سے لیس کچھ لڑکوں کے ہمراہ درختوں کی اوڑ میں اسکی تاک میں بیٹھا تھا
جیسے ہی وہ قریب پہنچا ارد گرد سے ڈنڈے بردار نمودار ہو کر اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے لگے
ان کو دیکھ کر وہ سٹپٹا سا گیا
ایسے میں ایک بھاری جسامت والے لڑکے نے اس کے منہ پر پیچھے سے کپڑا ڈالتے ہوئے اس کا منہ اس زور سے دبا دیا کہ وہ چاہ کر بھی چیخ نہ سکے
پھر اسے وہ گھسیٹ کر وہاں سے دور ویران سی جگہ پر لے جانے لگے جہاں انہوں نے اس کی درگت بنانے کیلئے مکمل انتظام کر رکھا تھا
یہ جگہ جھاڑ جھنکار سے بھری ہوئ تھی اور آبادی سے کافی دور تھی
یہ ممکن ہی نہیں تھا کوئ اس طرف کو آنکلے اس لئیے وہ پوری طرح سے مطمئن ہو کر اپنا کام سر انجام دے رہے تھے
وہ لڑکا اپنے آپ کو چھڑانے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا
وہ اسے گھسیٹ کر لے آئے تھے اب اس کے ہاتھ پاؤں باندھے جا رہے تھے
وہ گھگھیا رہا تھا مجھے چھوڑ دو کیا قصور ہے میرا کون لوگ ہو تم
کیوں لے آئے مجھے
قمر اس کے قریب آگیا اور اس کو بالوں سے پکڑ کر اس کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے گویا ہوا
بڑا شوق ہے نا تمہیں لوگوں کے راستے میں ٹانگ اڑانے کا
آج تمہاری ٹانگیں سلامت نہیں رہیں گی
اس کے سرد لہجے کو محسوس کرتے وہ لڑکا مزید خوفزدہ ہوچکا تھا
کک کک کیا مطلب
وہ بری طرح سے ہکلانے لگا تھا
ابھی جب تمہیں تمہارا چھٹی کا دودھ یاد دلائیں گے تب تمہیں ساری سمجھ آ جائے گی کہ تم نے کیا کیا ہے ۔۔ !
ایک لڑکا شیر ہو کر سامنے آیا اور اس پر حقارت سے تھوکتے ہوئے بولا
پھر جیسے بھونچال سا آ گیا ہو
سارے ڈنڈا بردار اس پر پل پڑے تھے اور اس پر وحشیانہ انداز میں ڈنڈے برسا رہے تھے
اسکے حلق سے فلک شگاف چیخیں نکل رہی تھیں مگر اس کی مدد کو آنے والا کوئ نہ تھا
اچھی طرح اس کی پٹائ کر لینے کے بعد جب وہ اذیت سے بیہوش ہوگیا تو وہ رک گئے
اس کے جسم کے مختلف حصوں سے خون رسنے لگا تھا
امید تھی چار پانچ ماہ کیلئے وہ بستر سے نہیں اٹھ پائے گا
یہ لڑکا وکی تھا۔ وقاص عرف وکی
آوارہ گردی۔۔ سگریٹ، شیشہ اسموکنگ اسکی فطرت تھی
بلاوجہ لوگوں کو تنگ کرنا اسکی عادت تھی اور اس وجہ سے کافی بار اسکا نام یونیورسٹی میں بلیک لسٹ کیا گیا تھا مگر اس پر کوئ اثر نہیں پڑتا تھا
کھاتے پیتے گھرانے سے اس کا تعلق تھا اچھے اثر رسوخ کی بنا پر وہ ہمیشہ بچ جاتا تھا۔
کیفیٹیریا میں اس نے جو قبیح حرکت کی تھی اس کا قمر عینی شاہد تھا
اس کے بعد جو ہوا اس پر وہ بہت حیران بھی تھا
یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ چوٹ ایک انسان کو لگے درد دوسرے کو محسوس ہو
یہ تو بس فلموں کی حد تک ہی ممکن لگ رہا تھا
لیکن یہ حقیقت اس پر آشکار ہو چکی تھی
وہ اپنے دوست شاہ میر سے بچپن سے واقف تھا
اس کے احساسات کو کافی حد تک سمجھتا تھا اور کبھی کبھار اس کا مذاق بھی اڑایا کرتا تھا لیکن اب جب یہ واقعہ پیش آیا تو معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں اسے کوئ دیر نہیں لگی تھی
وہ سب کچھ سمجھ گیا تھا
صدف کے ساتھ مل کر اس نے اپنے جگری دوست شاہ میر کو اور ہیر کو سنبھالا تھا ان کی حالت ٹھیک ہونے تک وہ اس لڑکے کو سبق سکھانے کا پختہ ارادہ کر چکا تھا اور شاہ میر کو آگاہ کئیے بنا ہی اس نے پوری تیاری بھی کر لی تھی
اس نے چپکے سے وکی کا اتا پتہ معلوم کرایا تھا اور اس کے معمولات جاننے کے بعد پوری پلاننگ کر لی تھی
اب مسئلہ تھا وکی کو ہاسپٹل پہنچانے کا۔۔
وہ خود سے تو جانے سے رہا اور یہ لوگ اس کو اکیلے مرنے کیلیے بھی نہیں چھوڑ سکتے تھے
قمر اپنے دو چار ساتھیوں کے ذمے لگا کر خود واپس چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصف شب کا وقت تھا۔ شاہ میر اپنے کمرے میں لیٹا گہری نیند سو رہا تھا۔
اچانک ہی اسے محسوس ہوا اس کا دم گھٹ رہا ہے
کوئی غیر مرئ طاقت اس کا گلا دبا رہی ہے
اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر بے سود
اس کا ذہن مکمل طور پر بیدار ہو چکا تھا مگر وہ نہ آنکھیں کھول پا رہا تھا نہ ہی جسم کو حرکت دے پا رہا تھا
سانس بند ہو رہا تھا۔۔ اس نے چیخنے کی کوشش کی مگر کوئ آواز اس کے منہ سے نہیں نکل پا رہی تھی
اس کے حلق میں کانٹے سے چبھنے لگے تھے
وہ اپنا پورا زور لگا رہا تھا مگر ذرا سی جنبش بھی نہیں کر پا رہا تھا
ایسے میں اس کے روم کا دروازہ کھلا اور اس کا روم میٹ قمر جو ابھی باہر کہیں سے آ رہا تھا اس نے شاہ میر کی بگڑتی حالت کو محسوس کر لیا
وہ جلدی سے چاہ میر کے پاس آیا اور اسے کندھے سے پکڑ کر زور سے ہلایا ساتھ پکارنے لگا
شاہ میر۔۔۔ ! شاہ میر کیا ہو گیا ہے تمہیں
ایک جھٹکے سے شاہ میر کی آنکھیں کھلیں اور وہ تیز تیز سانس لیتا دوہرا ہونے لگا
اسے صاف محسوس ہوا تھا کوئ اس کے سینے پر سوار ہو کر اس کا گلا دبا رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیر گہرے گہرے سانس لے رہی تھی
اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیا ہوا تھا
چند لمحے پہلے کی بات تھی اسے سانس نہیں آ رہا تھا۔
وہ چلا رہی تھی مگر آواز نہیں نکل رہی تھی
اٹھنا چاہتی تھی مگر اس کا جسم جیسےمفلوج ہو چکا تھا
صرف چند لمحوں کا عذاب تھا اور پھر سب نارمل ہونے لگا تھا
کچھ ہی دیر بعد وہ آنکھیں کھول چکی تھی مگر گھور اندھیرا تھا
وہ اٹھنے لگی تو اسے لگا وہ کسی پتھریلی یخ بستہ زمین پر لیٹی تھی
اس کے حواس بحال ہو رہے تھے مگر اس کے ساتھ ہی خوف و حراس اس کی رگوں میں دوڑ رہا تھا
اسے محسوس ہو چکا تھا وہ اپنے بستر پر موجود نہیں تھی
کہاں نرم و گرم بستر کہاں یہ سخت پتھریلی ٹھنڈی زمین
اوپر سے گھور اندھیرا جبکہ اس کی تو عادت تھی ساری لائیٹس جلا کر سونے کی
اس کا دل خوف کی شدت سے دھک دھک کرنے لگا تھا
جاری ہے
