روحوں کا ملن
از قلم ساحر سمیع
قسط نمبر 07

پوری یونیورسٹی میں سنسنی پھیلی ہوئی تھی
سائیکولوجی ڈپارٹمنٹ کی ایک سٹوڈنٹ ہیر رات کسی پہر یونیورسٹی کے ہاسٹل سے لاپتہ ہوئ تھی
ہاسٹل کا گارڈ لاعلمی کا اظہار کر رہا تھا جس سے تفتیش کی جارہی تھی
یونیورسٹی انتظامیہ نے معاملے کو چھپانے کی کوشش کی تھی مگر بات اب بڑھ چکی تھی
دوسرے جانب بوائز ہاسٹل سے بھی وکی نامی ایک لڑکا غائب تھا مگر وہ زخمی حالت میں سٹی ہسپتال سے مل چکا تھا
ہیر کی گمشدگی معمہ بنی ہوئی تھی
کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہوئ اور ہیر ہاسٹل سے لاپتہ ہو گئ تھی
ہیر کے گھر اطلاع کر دی گئی تھی
ہیر کی تلاش شروع کر دی گئی تھی
اس کی فیملی کو جب معلوم ہوا تو ان کیلیے یہ بات کسی دھماکے سے کم نہیں تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیر سمجھ چکی تھی کہ یہ اس کا ہاسٹل روم نہیں کوئی اور جگہ ہے
کوئ نہایت ہی ٹھوس اور پتھریلی جگہ
پھر اس کو آہستہ آہستہ سب یاد آنے لگا
وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اطراف کا جائزہ لینے کی کوشش کرنے لگی
اندھیرے میں کچھ سجھائ نہیں دے رہا تھا
وہ آہستہ آہستہ چلنے لگی
یہ کوئ پہاڑ کے اندر کھودی گئ سرنگ جیسا لگ رہا تھا
ہیر گھبرائ ہوئ تھی اور اس کا جسم پسینے سے شرابور ہو رہا تھا
وہ چلتے چلتے ایک غار کے دہانے پر آ کھڑی ہوئ
غار کے اندر سے روشنی کی جھلک نظر آ رہی تھی
لرزتے قدموں اور دھک دھک کرتے دل کے ساتھ ہیر ہمت باندھے آہستہ سے دبے قدموں غار کے اندر داخل ہو گئ
چاروں طرف چراغ روشن تھے اور درمیان میں ایک بہت بڑی شیطانی مورتی نصب تھی
اس مورتی کی سرخ آنکھیں اور لمبے دانتوں کے درمیان سے نکلی لمبی سرخ زبان اسے ہیبت ناک بنا رہی تھیں
ہیر کو جھرجھری سی آ گئ اور وہ گھبرا کر الٹے قدموں پیچھے ہٹنے لگی
ایسے میں وہ کسی سے ٹکرائ اور نیچے گر گئ
اس نے اٹھ کر پیچھے کی جانب دیکھا تو اس کا وجود جیسے سن ہو کر رہ گیا ہو
وہ کوئ بوڑھا پنڈت لگ رہا تھا جس نے گلے میں انسانی کھوپڑیوں کی مالا پہن رکھی تھی اور ماتھے پر لمبا سرخ رنگ کا تلک لگایا ہوا تھا
اس کی آنکھوں سے وحشت اور چہرے سے نحوست برس رہی تھی
ہیر کی طرف دیکھتے ہوئے وہ فاتحانہ انداز میں مسکرا رہا تھا
اس کی مسکراہٹ میں تمسخر تھا۔۔ طنز تھا۔۔ شیطانیت تھی
آخر ڈھونڈ ہی لیا میں نے تمہیں
میری تپسیہ رنگ لائ آخر
ہیر اس کی باتیں سن کر سکتے میں رہ گئ تھی
اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کسی خطرناک چکر میں پھنس چکی ہے
کیا پتہ یہاں اس کے ساتھ کیا پیش آنے والا تھا
آنے والے وقت کا سوچ کر اس کا دل دہل رہا تھا۔۔ اور پھر وہ تیورا کر گری اور بیہوش ہوگئی
sahirkidiary #sahirsami #ساحرکیڈائری
شاہ میر کی محبت جو ابھی ٹھیک سے شروع بھی نہیں ہو سکی تھی اس سے اچانک بچھڑ گئ تھی
ہیر کی ذات ابھی تک اسرار کی دھند میں لپٹی ہوئ تھی
اتنا تو وہ جان چکا تھا کہ وہ ہیر ہی تھی جسے وہ بچپن سے محسوس کرتا آیا تھا
اور شاید ہیر بھی یہ حقیقت جان چکی تھی مگر وہ ایسے اچانک کہاں کھو گئی تھی
ابھی جب کہ انکی چاہت کا آغاز ہونے کو تھا وہاں بچھڑنا کیوں مقدر ٹھہرا تھا
شاہ میر دیوانہ ہو چکا تھا
وہ پہلے ہی کم گو تھا مگر اب تو اسے جیسے چپ سی لگ گئ تھی
اس نے اپنی طرف سے بھی بھر پور کوشش کی تھی کہ ہیر کا کچھ پتہ چل سکے
ایسے وقت میں ایک قمر ہی تھا جس نے اسے سنبھال رکھا تھا
ہیر کے گھر میں تو جسے ماتم کا سماں تھا
ہیر کو لاپتہ ہوئے دو ہفتے ہو چکے تھے اور اسکی تلاش بھی اب ٹھنڈی پڑ چکی تھی مگر ایک چنگاری تھی جو اس کے قریبی لوگوں کا جی جلائے جا رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شام فضا میں کچھ زیادہ ہی خنکی تھی
شاہ میر شہر سے کچھ فاصلے پر اپنی بائیک لیکر آیا ہوا تھا اور کھلے آسمان تلے ایک بینچ پر بیٹھا کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا جب وہ بڑھیا سر پر کوئ گٹھڑی اٹھائے لاٹھی کے سہارے چلتی ہوئ اس کے قریب آ پہنچی
وزن کچھ زیادہ تھا شاید جس کی وجہ سے بوڑھیا کو چلنے میں کافی دقت ہو رہی تھی
شاہ میر کے قریب پہنچ کر اس کے سر سے وہ گٹھڑی گر پڑی جسے وہ اٹھانے کی کوشش کرنے لگی
اس کا سانس پھول رہا تھا اور گٹھڑی اس سے نہیں اٹھائ جا رہی تھی
شاہ میر اٹھا اور اس کی مدد کرنے کیلئے آگے بڑھا
وہ رکی اور ہانپتے کانپتے اس سے مخاطب ہوئ
بیٹا میرا سامان تھوڑی دور میرے گھر تک پہنچانے میں میری مدد کرو گے
میں بہت تھک گئی ہوں اور گھٹنوں میں بھی تکلیف ہے اور اب یہ وزن اٹھا کر چلنا میرے لئیے محال ہو گیا ہے
شاہ میر کچھ لمحے سوچتا رہا پھر اس بوڑھیا کے ساتھ چلنے کیلیے حامی بھر لی
قریب ہی اس کی بائیک موجود تھی جسے اس نے کک مار کر سٹارٹ کیا اور بوڑھی عورت کا سامان لاد کر اسے بھی سوار کرا لیا اور اس کے بتائے راستے پر چل پڑا
فاصلہ اس کی توقع سے کچھ زیادہ ہی لگ رہا تھا اور شہر کی رونق سے نکل کر وہ ویران علاقے میں آ پہنچے تھے
اس کے دل میں کوئ بات کھٹکنے لگی تھی
بوڑھیا اتنا سفر پیدل تو طے کرنے سے رہی اس کا اس ویرانے میں گھر ہونا بھی عجیب لگ رہا تھا
شاہ میر سوچنے لگا کہ اسے کیا کرنا چاہیئے
بوڑھیا کو اتار دے یا اس کے ساتھ چلے
اور یہ کوئ جال نہ ہو جس میں وہ پھنس جائے
مختلف خیالات اس کے دماغ پر حملہ آور ہونے لگے
دور دور تک آبادی کا نام و نشان نہیں لگ رہا تھا
اس نے بائیک روک دی اور مڑ کر بوڑھیا کی طرف دیکھنے لگا مگر بوڑھیا موجود ہوتی تو نظر آتی
اسے محسوس بھی نہیں ہوا تھا اور بوڑھیا چلتی بائیک پر سے غائب بھی ہو گئی تھی
وہ سر پکڑ کر رہ گیا
پہلے وہ سمجھ رہا تھا کہ یہ بوڑھیا چور ڈکیتوں کی آلہ کار نہ ہو کہ شاید وہ لوگوں کو گمراہ کر کے اس ویرانے میں لوٹ لیتے ہونگے مگر اب جو ہوا تھا وہ زیادہ حیران کن تھا
اب اسے معاملہ کچھ پراسرار سا لگ رہا تھا
شاید کوئی آسیب کا چکر
مگر وہ آسیب پر یقین نہیں رکھتا تھا
وہ چکرا کر رہ گیا تھا
جاری ہے