روحوں کا ملن
از قلم ساحر سمیع
قسط نمبر 09

کچھ ہی دیر میں بازنتوش کے چیلے جمع ہونے لگے
بازنتوش، شاہ میر اور ہیر کے گرد چکر کاٹنے لگا اور ساتھ ساتھ کسی منتر کا جاپ کرنے لگا اور باقی سارے چیلے ایک طرح کے رقص کے سے انداز میں جھومنے لگے
شاہ میر اور ہیر حیرت اور خوف سے انکی عجیب و غریب رسمیں پوری ہوتے دیکھ رہے تھے
پھر سب رک گئے۔۔ اب وقت ہو چکا تھا قربانی کا
بازنتوش چلتا ہوا پہلے شاہ میر کے پاس رکا اور اس کے ماتھے پر کسی طرح کی راکھ ملنے لگا
پھر یہی عمل اس نے ہیر کے ساتھ کیا اور پھر
تیز تیز منتر دوہرانے لگا
کچھ ہی دیر میں شیطانی مورتی میں حرکت پیدا ہونے لگی اور اسکی آنکھوں سے شعلے سے نکلنے لگے
مورتی اب کسی بھیانک شیطان کا روپ لے چکی تھی جو لمبے لمبے نوکیلے دانتوں کے ساتھ ہیر کی طرف بڑھنے لگا تھا
ہیر کے جسم میں کپکپی طاری ہونے لگی تھی
بازنتوش کے منتر جاری تھے اور وہ عقیدت کے ساتھ شیطان کے آگے سر جھکائے ہوئے تھا
شیطان ہیر کے چہرے کی طرف پہنچا اور جھک کر اسکی گردن میں اپنے لمبے دانت چبھونے لگا
شاہ میر تڑپ رہا تھا تکلیف محسوس کر رہا تھا
ہیر پھٹی پھٹی آنکھوں سے بے بسی کے ساتھ یہ سب دیکھ رہی تھی
اس کی گردن میں نوکیلے دانت چبھ رہے تھے جب شاہ میر زور سے چلایا
اللہ لا الہ الا ہو الحی القیوم۔ اسکی زبان پر آیت الکرسی کا ورد جاری تھا
شیطان ایک جھٹکے سے مڑا اور چیختا چلاتا ہوا ایک طرف کو دوڑا
اس کی ساری شیطانیت ایک مرد مومن کے ایمان کے آگے دھری کی دھری رہ گئ تھی
پھر جیسے بھونچال سا آ گیا ہو
ایک زلزلے کی سی کیفیت تھی
زور دار دھماکے ہونے لگے اور بازنتوش کی طلسماتی دنیا کے سارے حصار ٹوٹنے لگے
اس کا طلسم ختم ہونے لگا
اس کے چیلے بھاگ اٹھے
شیطان اندھا ہو کے دیواروں سے ٹکراتا پھر رہا تھا
سب بد حواس ہو چکے تھے
ایسے میں شاہ میر نے محسوس کیا اسکی بندش کھل چکی ہے
وہ اٹھ بیٹھا اور ہیر کی طرف دیکھا
وہ پہلے ہی بے ہوش ہو چکی تھی
شاہ میر جلدی سے اس کی طرف بڑھا اور اس کو اٹھا کر اپنے کندھے پر لاد لیا اور باہر کی طرف بڑھا
بازنتوش جلدی سے اسکی طرف آیا تاکہ اسے جانے سے روک سکے
شاہ میر کی ایک لات کھا کر وہ اچھل کر زمین بوس ہو گیا
اس کے دوبارہ اٹھنے سے پہلے ہی شاہ میر ہیر کو لئیے وہاں سے نکل چکا تھا۔
اس غار سے باہر نکل کر وہ کھلے میدان میں آ پہنچا دور تک چلتا رہا
اس کے پیچھے ابھی تک کوئ نہیں آیا تھا
ایک جگہ پر وہ رک گیا اور ہیر کو نیچے لٹا کر ہوش میں لانے لگا
چند لمحوں بعد ہیر آنکھیں مسلتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی
شاہ میر پر نظر پڑتے ہی وہ اس سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
اس کے آنسو کا ہر قطرہ شاہ میر کے دل پر گر رہا تھا
حالت اضطراب میں وہ ہیر کو سنبھالنے میں لگا ہوا تھا اس کا ماتھے پر چوم رہا تھا اس کے گال تھپتھپا رہا تھا مگر ہیر کے ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا تھا
وہ جی بھر کے رو چکی تو پھر اسے احساس ہوا اور وہ شاہ میر کے سینے سے الگ ہو گئ
شاہ میر اسے تسلیاں دیتے ہوئے کہنے لگا کہ ادھر سے چلنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ کسی اور مصیبت میں پڑ جائیں
کیونکہ یہ علاقہ شیطان کے قبضے میں تھا اور شیطان سنبھل کر دوبارہ ان پر حملہ آور ہو سکتا تھا
ابھی تک بازنتوش یا اس کے چیلوں نے بوکھلاہٹ میں ان کا پیچھا نہیں کیا تھا ورنہ اب تک دوبارہ انکو قبضے میں لے چکے ہوتے
ہیر اور شاہ میر وہاں سے دور ہونے لگے
وہاں سے نکلنے کا واحد راستہ وہی جنگل تھا اور رات بہت گہری ہو چکی تھی
ایسے میں موذی جانوروں سے مڈبھیڑ ہونا لازمی بات تھی
اگے کنواں پیچھے کھائ والی مثال ان پر صادق آتی تھی
وہ چلتے رہے چلتے رہے
ہیر تھک کر رک گئ اور گہرے گہرے سانس لینے لگی
اب مجھ سے نہیں چلا جا رہا شاہ میر
ہیر پھولی ہوئ سانسوں سے بولی
جنگل ابھی کچھ فاصلے پر تھا
ان دونوں نے رکنے کا فیصلہ کیا
اس بات سے بے خبر کہ ابھی ایک اور قیامت انکی تاک میں تھی
ابھی موت ٹلی نہیں تھی
ہیر کو تھکاوٹ کی وجہ سے نیند آنے لگی
وہ زمین پر ہی سو گئ جب شاہ میر نے اسکا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور ہلکا ہلکا ہاتھ اس کے بالوں میں پھیرنے لگا
اس موم سی گڑیا پر اسے بہت پیار آرہا تھا
جانے کس پل وہ بھی اونگھنے لگا تھا جبکہ موت ان کے سر پر پہنچ چکی تھی
جاری ہے