روحوں کا ملن
از قلم
قسط نمبر 12
بازنتوش منہ ہی منہ میں کچھ بڑانے لگا
وہ کوئ منتر پڑھ رہا تھا اور وہاں تیز طوفانی ہوائیں چلنا شروع ہو گئیں
شاہ میر نے زمین پر پڑا پتھر اٹھا کر پوری قوت سے بازنتوش کو دے مارا
بازنتوش پتھر کی ضرب کھا کر کراہا اور شعلہ بار نظروں سے شاہ میر کی طرف دیکھتے ہوئے ایک ریچھ کی شکل میں بدلنے لگا
بازنتوش ریچھ کی شکل میں شاہ میر پر حملہ آور ہوا جس سے شاہ میر نے بچنے کی کوشش کی مگر کافی حد تک وہ زخمی ہو گیا
اسی دوران زارلوس نے ان دونوں کی لڑائ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک عفریت کا روپ دھار لیا اور ہیر کو اٹھا کر غائب ہو گیا
شاہ میر چونکہ اس افتاد کیلئیے تیار نہیں تھا وہ بوکھلا سا گیا اور ہیر ہیر پکارنے لگا
اس کے زخموں سے خون رسنے لگا تھا جبکہ بازنتوش ایک بار پھر حملہ کرنے کیلئیے تیار تھا
وہ جونہی شاہ میر پر جھپٹا ایک طرف سے سفید رنگ کی لہریں اس پر پڑیں اور وہ چنگھاڑتا ہوا زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگا اور پھر غائب ہو گیا
شاہ میر کراہتے ہوئے اس طرف دیکھنے لگا جہاں سے سفید روشنی کی لہریں آرہی تھیں
شاہ میر نے کراہتے ہوئے اس طرف دیکھا جہاں سے سفید روشنی کی لہریں آ رہی تھیں۔ وہ روشنی اتنی شدید تھی کہ چند لمحوں کے لیے شاہ میر کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ جیسے ہی روشنی دھیمی ہوئی، ایک نورانی شخصیت نمودار ہوئی۔
بزرگ نے شاہ میر کی طرف دیکھا اور کہا،
“نوجوان، تمہارے ایمان نے مجھے یہاں آنے پر مجبور کیا۔ یہ جنگ تم تنہا نہیں لڑ سکتے، مگر یاد رکھو، تمہاری روح کی طاقت تمہارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔”
شاہ میر نے زخمی اور تھکے ہوئے لہجے میں کہا،
“ہیر کو زارلوس لے گیا ہے! مجھے اسے بچانا ہے، مگر میں کمزور ہوں۔”
بزرگ مسکرائے اور اپنی چھڑی کو بلند کیا۔ سفید روشنی کی ایک اور لہر شاہ میر کے زخموں پر پڑی، اور چند لمحوں میں وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا۔
“تمہارے جسم کے زخم بھر گئے ہیں، لیکن روح کی آزمائش ابھی باقی ہے۔ ہیر کو بچانے کے لیے تمہیں اپنی روحانی طاقتوں کو مزید مضبوط کرنا ہوگا۔ زارلوس اور بازنتوش تمہیں آسانی سے جیتنے نہیں دیں گے۔”
دوسری طرف، زارلوس ہیر کو ایک تاریک اور سرد قید خانے میں لے آیا تھا۔ یہ جگہ کسی اور جہان میں تھی، جہاں وقت اور حقیقت کا کوئی وجود نہیں تھا۔ قید خانے کی دیواروں پر جادوئی نقوش اور تعویذات بنے ہوئے تھے، جو ہیر کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے کافی تھے۔
زارلوس نے ہیر کی طرف مکروہ ہنسی کے ساتھ دیکھا اور کہا،
“تم شاہ میر کی کمزوری ہو، اور میں اسی کمزوری کو اس کے خلاف استعمال کروں گا۔ اس کی محبت ہی اسے برباد کرے گی۔”
ہیر نے مضبوطی سے جواب دیا،
“میری محبت میری طاقت ہے، اور تم کبھی اسے شکست نہیں دے سکتے۔”
زارلوس ہنسا اور بولا،
“دیکھتے ہیں، تمہاری یہ طاقت کب تک چلتی ہے۔”
بزرگ نے شاہ میر کو ایک مخصوص مقام پر جانے کا کہا، جہاں وہ اپنی روحانی طاقتوں کو مزید مضبوط کر سکتا تھا۔ یہ مقام ایک پراسرار پہاڑی پر تھا، جو کئی صدیوں سے محفوظ تھی اور وہاں صرف وہی پہنچ سکتا تھا جس کے دل میں ایمان کی روشنی ہو۔
شاہ میر نے پہاڑی کی طرف سفر شروع کیا۔ راستہ انتہائی خطرناک اور کٹھن تھا۔ ہر قدم پر اسے اپنے اندرونی خوف اور وسوسوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک موقع پر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے زارلوس کی آواز اس کے کانوں میں گونج رہی ہو،
“تم ناکام ہو جاؤ گے، شاہ میر! تم اپنی محبت کو بچا نہیں پاؤ گے۔”
مگر شاہ میر نے اپنے دل میں اللہ کا ذکر جاری رکھا اور اپنے قدموں کو لڑکھڑانے نہیں دیا۔
پہاڑی نہ صرف ایک جسمانی آزمائش تھی بلکہ روحانی اور نفسیاتی مشکلات کا گہرا امتزاج بھی تھی۔ ہر قدم پر اسے ایسی آزمائشوں کا سامنا تھا جو اس کے ایمان، ہمت، اور محبت کی گہرائیوں کو جانچ رہی تھیں۔
شاہ میر جب پہاڑی کے دامن پر پہنچا تو اسے وہاں پر ایک بھاری دھند نے گھیر لیا۔ اس دھند میں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا، اور ہر طرف سے وسوسوں کی سرگوشیاں سنائی دینے لگیں:
“تم ناکام ہو جاؤ گے، شاہ میر۔ تم ہیر کو بچا نہیں سکتے۔”
یہ سرگوشیاں شاہ میر کے دل میں خوف اور بے بسی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
شاہ میر نے اللہ کا ذکر بلند آواز میں شروع کیا اور دھند کے بیچوں بیچ اپنا راستہ تلاش کرنے لگا۔ جیسے ہی وہ ذکر کرتا، دھند تھوڑی تھوڑی چھٹنے لگتی۔ لیکن راستے میں بڑے بڑے پتھر اس کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ ان پتھروں کو عبور کرنے کے دوران اس کے ہاتھ زخمی ہو گئے، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔
پہاڑی کے وسط میں پہنچتے ہی شام ہو گئی، اور ہر طرف گہرا اندھیرا چھا گیا۔ یہ اندھیرا صرف نظر کا دھوکہ نہیں تھا بلکہ اس میں ایک عجیب سی سرد لہر بھی شامل تھی۔ شاہ میر کے سامنے راستہ غائب ہو گیا، اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کسی گہرے خلا میں کھڑا ہو۔
تبھی، ایک آواز نے اندھیرے میں گونجنا شروع کیا:
“شاہ میر، پیچھے مڑ جاؤ۔ یہ راستہ تمہارے لیے نہیں ہے۔”
شاہ میر نے اپنے دل کو مضبوط کیا اور کہا،
“میری راہ اللہ نے متعین کی ہے، اور میں اسی پر چلوں گا!”
اس کے ساتھ ہی اس نے زمین پر ہاتھ رکھا اور دعائیہ انداز میں اللہ سے مدد مانگی ۔ زمین میں روشنی کی ایک لکیر نمودار ہوئی، جو اس کے لیے راستہ بناتی گئی۔
اندھیرے سے نکلنے کے بعد شاہ میر کا سامنا اپنے سب سے بڑے خوف سے ہوا۔ ایک سایہ نمودار ہوا، جو شاہ میر کی شکل کا تھا، لیکن اس کی آنکھیں شعلوں کی طرح جل رہی تھیں۔ اس نے کہا:
“شاہ میر، تم کمزور ہو۔ تمہاری محبت صرف ایک بوجھ ہے، جو تمہیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ ہیر کو بچانے کی کوشش ترک کر دو، ورنہ تم خود کو کھو دو گے۔”
شاہ میر نے سایے کی باتوں کو سن کر ایک لمحے کیلئیے سوچا پھر سارے وسوسوں کو جھٹکتے ہوئے فوراً ہی اس نے اللہ کا نام لیا اور کہا:
“میری محبت کمزوری نہیں، میری طاقت ہے۔ میرا ایمان مجھے کبھی گمراہ نہیں ہونے دے گا!”
سایہ دھیرے دھیرے مٹنے لگا، اور شاہ میر کا دل پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گیا
وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک قدیم عبادت گاہ دیکھی، جو روشنی سے جگمگا رہی تھی۔ بزرگ نے اسے بتایا تھا کہ یہاں ایک مقدس شعلہ ہے، جو اس کی روحانی طاقت کو ناقابل شکست بنا دے گا۔
جیسے ہی شاہ میر شعلے کے پاس پہنچا ، اس کے سامنے ایک عجیب منظر تھا وہاں ایک عجیب طرح کا بونا نمودار ہوا اور بولا:
رک جاؤ آدم زاد
“اگر تم مقدس شعلہ چاہتے ہو، تو اپنی سب سے قیمتی چیز قربان کرنی ہوگی۔”
اور شعلے کے بنا واپس جانا چاہو گے تو راکھ بن کر ختم ہو جاؤ گے
شاہ میر نے حیرانی سے پوچھا،
“کیا چیز قربان کرنی ہوگی؟”
بونے نے جواب دیا،
“تمہاری محبت۔ اگر تم اپنی محبت کو چھوڑنے پر راضی ہو، تو تمہیں شعلہ مل سکتا ہے۔”
شاہ میر عجیب سے شش و پنج میں پڑ گیا
اسے اپنی یا ہیر میں سے کسی ایک کی زندگی قربان کرنی تھی
پھر وہ فیصلہ کن لہجے میں بولا
میں ہیر سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتا
وہ میری محبت ہے اور مجھے ہر حال میں اسے بچانا ہے
یہ کہتے ہوئے وہ بونے کی طرف لپکا
بونا ایک دم سے غائب ہو گیا
شاہ میر اس عجیب سے امتحان میں پاس ہو چکا تھا
آزمائشوں میں کامیاب ہونے کے بعد، شاہ میر کو مقدس شعلہ مل گیا۔
یہ شعلہ ایک آگ میں تبدیل ہو کر شاہ میر کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا اور اس کی روح میں اتر گیا اور اس کی آنکھوں میں ایک نئی روشنی نمودار ہوئی۔
شعلہ حاصل کرنے کے بعد شاہ میر نے پہاڑی سے نیچے اترتے ہوئے کہا،
“زارلوس، میں آ رہا ہوں! ہیر کو تمہارے چنگل سے آزاد کر کے رہوں گا۔”
جاری ہے
