Soul Mates Episode 10

Soul Mates

By Sahir Sami

Episode 10

ایان مرزا اس وقت نشے میں دھت گاؤں کی لڑکی رانی سے شغل لگانے کی کوشش کر رہا تھا

رانی جو کہ کسی غریب ریڑھی والے کی بیٹی تھی اسے دن دیہاڑے اغوا کر کے ایان مرزا کی جھولی میں ڈال دیا گیا تھا

وہ لڑکی خوف کے مارے تھر تھر کانپ رہی تھی

ایان مرزا کی خصلت تھی جو چیز اسے ایک بار پسند آ جاتی وہ اسے حاصل کرکے دم لیتا تھا

رانی کو اس نے پہلی نظر میں پسند کر لیا تھا اور اسے پیسوں کا لالچ دینے کی کوشش کی گئ مگر رانی کیلئیے اپنی عزت آبرو سے زیادہ کسی چیز کی اہمیت نہیں تھی

انکار اور مسلسل انکار کے بعد اسے اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور آخر کار وہ ایان مرزا کے بیڈروم میں کسی بےبس چڑیا کی طرح پھڑپھڑا رہی تھی

ایان مرزا کے لبوں پر شیطانی مسکراہٹ تھی، جیسے کوئی شکاری اپنے شکار کے تڑپنے سے لطف اندوز ہو رہا ہو۔

“رانی… تم تو بہت نخرے دکھا رہی ہو، ہاں؟” اس نے ہلکا سا قہقہہ لگایا، گلاس میز پر رکھا اور اٹھ کر اس کی طرف بڑھا۔

رانی نے خوفزدہ نظروں سے دروازے کی طرف دیکھا، جیسے امید ہو کہ کوئی آ کر اسے اس جہنم سے نکال لے گا، مگر یہاں تو اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔

“مت آؤ میرے قریب! خدا کے لیے، مجھے جانے دو!” اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا، مگر ایان مرزا کے چہرے پر کوئی اثر نہ ہوا۔

“تمہیں پسند کر لیا ہے میں نے، اور جو چیز ایک بار پسند آ جائے، وہ مجھے مل کر ہی رہتی ہے!” اس کے لہجے میں وحشت تھی۔

رانی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اسے یاد آیا جب چند دن پہلے اس کا سامنا ایان مرزا سے ہوا تھا۔
ایان مرزا اپنے اوباش دوستوں کے ساتھ رانی کے سامنے آیا تھا اور پہلی ہی نظر میں وہ جیسے اس پر فریفتہ ہو چکا تھا۔
اس نے رانی کو پیسوں اور دولت کا لالچ دیا تھا۔ مگر اس نے نفرت سے انکار کر دیا تھا۔ پھر دھمکیاں دی گئیں، مگر وہ پیچھے نہیں ہٹی۔ اور آج، وہ یہاں تھی، اغوا کر کے اس درندے کے سامنے پھینک دی گئی تھی۔

ایان مرزا آگے بڑھا اور جھک کر رانی کی ٹھوڑی پکڑ لی۔ اس کی گرفت سخت تھی، اور نشے کی بو رانی کی سانسیں روک رہی تھی۔

“تمہیں یہ ضد بہت مہنگی پڑے گی، رانی!” اس کی آنکھوں میں خباثت تھی۔

رانی نے جھٹکے سے اپنا چہرہ موڑا، مگر ایان نے اس کی کلائی پکڑ لی اور اسے کھینچ کر اپنے قریب کر لیا۔

“چھوڑ دو مجھے!” وہ چلائی، مگر اس کی آواز چار دیواری میں ہی دب کر رہ گئی۔

ایان نے زبردستی اسے بیڈ پر دھکیل دیا، مگر جیسے ہی وہ آگے بڑھا، رانی نے ایک دم طاقت مجتمع کی اور پاس پڑی ٹیبل پر رکھا گلدان اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا۔

ایان مرزا نشے میں تھا، گلدان کی چوٹ نے اسے ایک لمحے کے لیے چکرا دیا۔ یہی موقع تھا!

رانی تیزی سے اٹھی اور دروازے کی طرف بھاگی، مگر دروازہ باہر سے بند تھا۔ اس کے ہاتھ دیواریں پیٹ رہے تھے، وہ چیخ رہی تھی، مگر باہر مکمل سناٹا تھا۔

ایان نے سر جھٹکا اور ایک دھاڑ مار کر اس کی طرف بڑھا۔

ٹھیک اسی وقت زور زور سے کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا

اس نے غصے میں دروازہ کھولا

باہر ایک نوکر ڈر کے مارے کانپ رہا تھا اور گھگیاتے ہوئے بول رہا تھا

بب۔۔ بڑے مالک مصیبت میں ہیں

مصیبت میں۔۔؟

کیا ہوا ہے انہیں

وہ وہ وہ۔۔۔ گھوسٹ لیڈی نے انہیں قید کر رکھا ہے

یہ سنتے ہی ایان مرزا کا نشہ ہرن ہو گیا

گھوسٹ لیڈی کا نام سن کر اس نے جبڑے بھینچے اور جلدی سے گاڑی کی طرف لپکا

طیش کے عالم میں اس کے چہرے کا رنگ سرخ ہو چکا تھا اور آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے تھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عائشے گل بہت عرصے بعد اپنی بیسٹ فرینڈ صدف سے ملی تھی۔ دونوں سہیلیاں ساتھ بیٹھی خوشی سے چہک رہی تھیں۔ یونیورسٹی کے بعد ان کے راستے الگ الگ ہوگئے تھے اور آج اتنا عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا تو جیسے ایک دم بہار سی آ گئ تھی۔

پچھلے واقعات یاد کر کر وہ دونوں ہنس رہی تھیں

صدف کا شوہر قمر جو کہ ساحر کا بیسٹ فرینڈ رہا تھا جب عائشے گل کو اپنی فیملی سے ملوانے لے آیا تو جیسے بہار سی آگئ تھی

ہیر تم سے بس یہی شکوہ ہے تم میری شادی پر نہیں آئ

صدف نے شکایتی انداز میں عائشے گل سے کہا

یونیورسٹی میں عائشے گل کو سب ہیر کے نام سے جانتے تھے جبکہ ساحر “شاہ میر” کے نام سے جانا جاتا تھا

صدف میں آنا چاہتی تھی مگر۔۔

عائشے گل آنکھیں چرانے لگی

اسے وہ وقت یاد آیا جب ساحر سے معمولی سی بات پر جھگڑا ہوا تھا اور کچھ قریبی دوستوں نے ان میں غلط فہمی کو ہوا دیتے ہوئے انہیں الگ کر دیا تھا

اس دن کے بعد سے عائشے گل سب سے لاتعلق سی ہو کر رہ گئ تھی حتیٰ کہ اپنی بیسٹ فرینڈ سے بھی دور ہو گئ تھی اور آج اتنا عرصہ بعد جب وہ ملی تھیں تو دلوں کے غبار دھل رہے تھے

ابھی وہ باتیں کر ہی رہی تھیں جب قمر بوکھلایا ہوا اندر داخل ہوا

جلدی کرو ہیر۔۔ ہمیں چلنا ہے

ساحر کا پتہ چل چکا ہے

صدف اور عائشے گل اسے بوکھلایا ہوا دیکھ کر پریشان ہو گئ تھیں

کہاں ہے ساحر..؟

سب ٹھیک تو ہے نا..؟

ہیر کے لہجے سے پریشانی عیاں ہو رہی تھی

باتوں کا وقت نہیں ہے ہیر

جلدی کرو

اور پھر کچھ ہی دیر میں ہیر ، صدف اور قمر تینوں گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو چکے تھے

جاری ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top