Soul Mates Episode 11

Soul Mates
By Sahir Sami
Episode 11

سلطان مرزا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اپنے ارد گرد دیکھ رہا تھا۔ ایک معمولی نظر آنے والی لیڈی گھوسٹ نے کتنی آسانی سے اس پر قابو پا کر قید کر لیا تھا
ایک انڈرورلڈ ڈان کی اس سے زیادہ توہین اور کیا ہو سکتی تھی
اس کا جسم ایک کرسی پر رسیوں سے بندھا ہوا تھا
کچھ ہی دیر میں مایا چلتی ہوئ اس کے سامنے آ گئ
کیسا لگ رہا ہے سلطان مرزا
کیسی لگی ہماری مہمان نوازی
اس کے لہجے میں تمسخر تھا
کون ہو تم۔۔؟ کیا چاہتی ہو
اگر تمہارا خیال ہے مجھے مار کر انڈرورلڈ ڈان بن جاؤ گی تو تمہاری بھول ہے
تم نے جو حرکت کی ہے تو اب پاتال میں بھی چلی جاؤ تمہاری دردناک موت طے ہے
سلطان مرزا نے مایا پر رعب ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا مگر مایا بھلا کہاں پرواہ کرنے والی تھی
سلطان مرزا موت تو تمہاری طے ہے اس وقت موت کی دہلیز پر ہو کر کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو
یاد کرو وہ وقت جب تم۔ نے میرے بے گناہ والدین کو ایک چھوٹی سی بات پر قتل کر دیا تھا
میری فیملی مجھ سے چھین لی تھی
سلطان مرزا حیرانگی سے اس کی طرف دیکھنے لگا
اس نے اس پہلو پر تو سوچا ہی نہیں تھا کہ یہ کوئ انتقامی کاروائی بھی ہو سکتی ہے
اتنی سی دیر میں سالار ہاتھ میں ایک انجکشن لئے وہاں آ پہنچا
مایا جوں جوں تفصیل بتاتی جا رہی تھی سلطان مرزا کا چہرہ زرد ہوتا جا رہا تھا
سالار انجکشن تیار کر کے سلطان مرزا کے قریب پہنچا
الوداع سلطان مرزا
مایا نے نفرت سے بھر پور لہجے میں کہا
سلطان مرزا کی آنکھیں خوف سے پھٹی رہ گئ تھیں
کتنا بھی مضبوط حوصلے والا انسان ہو موت سے ڈرتا ہے
وہ پوری کوشش کر رہا تھا کہ کسی طرح مایا اپنا ارادہ بدل دے مگر مایا کے چہرے پر چٹانوں کی سی سختی تھی
سالار انجکشن اس کے بازو میں لگا چکا تھا اور بس چند لمحے
صرف چند لمحے لگے اور سلطان مرزا کے جسم میں جیسے بارود بھر گیا ہو
اس کی اذیت ناک چیخیں گونجنے لگیں
ٹھیک اسی وقت فضا گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھی
مایا اور سالار بوکھلا سے گئے
باہر سے اچانک ایان مرزا اپنے لوگوں کے ساتھ پوری قوت سے حملہ آور ہو چکا تھا
اس کے انداز میں طوفان کی سی شدت تھی اور وہ جیسے ہر چیز کو تہہ و بالا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا
ایک دھماکے کی آواز کے ساتھ ہی کمرے کا دروازہ ٹوٹ کر اندر آ گرا اور پھر یکے بعد دیگرے ایان مرزا اور اس کے ساتھے دندناتے ہوئے کمرے میں گھسنے لگے
مایا اور سالار اس وقت اپارٹمنٹ کے سیف زون میں تھے جہاں آسانی سے رسائ حاصل کرنا ممکن نہیں تھا مگر ساحر سیف زون سے باہر ہی تھا جب اچانک سے ایان مرزا نے حملہ کیا تھا
وہ بمشکل خود کو بچاتے ہوئے سیف زون کی طرف پہنچنے کی کوشش کرنے لگا مگر اندھا دھند فائرنگ شروع ہو چکی تھی
وہ لوہے کی ٹیبل کے پیچھے خود کو بچاتے ہوئے ایان مرزا اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ رہا تھا جب ایان مرزا کی نظر اس پر پڑی
اس کے ساتھ ہی بندوقوں کا رخ ساحر کی طرف ہو چکا تھا
کہاں چھپا کر رکھا ہے بابا جان کو
ایان مرزا دھاڑتے ہوئے بولا
ساحر اپنی جگہ پر ساکت ہو چکا تھا جیسے ہلا تو کوئ قیامت آ جائے گی
بولو۔۔ ! کہاں ہیں میرے بابا جان
ایان مرزا طیش ددہ انداز میں پوچھ رہا تھا جب اچانک وہاں دھواں سا اٹھنے لگا
مایا اپنا کھیل شروع کر چکی تھی
گیس کی بو محسوس کرتے ہی ایان مرزا نے جلدی سے سانس روک لی جبکہ اس کے ساتھی آڑے ترچھے زمین پر گرنے لگے
وہ بھی بیہوش ہونے کا ناٹک کرتے ہوئے زمین پر گر گیا مگر اس نے سانس روک کر بے ہوش کر دینے والی گیس کو اپنے پھیپھڑوں میں جانے سے روک رکھا تھا
چند لمحوں میں گیس کا اثر ختم ہوتے ہی اس نے گہری سانس لی مگر بدستور اسی طریقے سے بے حس و حرکت لیٹا رہا اور نیم وا انکھیوں سے دیکھتا رہا
اسے ساحر میز کی آڑ سے نکلتے ہوئے دکھائ دے رہا تھا
کچھ ہی دیر بعد ساحر فرش پر جھکا قالین کو ذرا سا ہٹا کر کچھ ٹٹولنے لگا۔
اس کے ساتھ ہی ہلکی سی کھٹک کی آواز آئ اور سیف زون کا دروازہ  ہٹ چکا تھا اور نیچے تہہ خانے کی طرف سیڑھیاں جاتی نظر آرہی تھیں
وہ سیڑھیاں اترنے ہی لگا تھا جب ایان مرزا نے گن ہاتھ میں لی اور پھرتی سے چھلانگ لگائ اور ساحر کو لیتا ہوا نیچے تہہ خانے میں گرنے لگا
وہ دونوں سیڑھیوں سے لڑھکتے ہوئے سیف زون میں پہنچ چکے تھے جہاں مایا اور سالار حیرت سے انہیں دیکھ رہے تھے جب کہ سلطان مرزا تڑپتے ہو ئے اپنی آخری ہچکیاں لے رہا تھا
اس کی سرخ ہوتی آنکھیں ایان مرزا پر پڑیں اور پھر اس کا وجود ساکت ہو گیا
ایان مرزا اپنے باپ کو دیکھتے ہی زور سے دھاڑا اور ہاتھ میں پکڑی گن کا رخ مایا کی طرف کر کے ٹریگر دبا دیا
ساحر جو اپنی جگہ سے اٹھ کر سنبھل رہا تھا تیزی سے چھلانگ لگاتے ہوئے مایا کی طرف بڑھا
اس کا وجود مایا سے ٹکرایا اور مایا اچھل کر پیچھے جا گری جبکہ سالار ایان مرزا کو دبوچ چکا تھا
ایان مرزا صدمے سے نڈھال اس سے خود کو چھڑوانے کی تگ و دو میں تھا جب سالار کا بھاری ہاتھ اس کی کنپٹی پر پڑا اور پھر وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گیا
البتہ مایا نے جب اٹھ کر ساحر کی طرف دیکھا تو اس کی سٹی گم ہو گئ
ساحر کے چہرے پر تکلیف کے آثار تھے اور اسکی شرٹ خون سے لال ہو رہی تھی
مایا پر چلائ گئ گولی ساحر کے وجود میں گھس چکی تھی اور وہ ہاتھ سے خون کو دبانے کی کوشش میں نڈھال ہو رہا تھا
مایا جیسے ہی ساحر کے قریب پہنچی، اس کی چیخ پورے کمرے میں گونج اٹھی۔

“ساحر!!!”

ساحر کا چہرہ زرد ہو چکا تھا، ہونٹوں پر خون کی لکیر تھی، اور سانسیں بھاری ہو رہی تھیں۔ وہ مایا کی آنکھوں میں دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا، جیسے کہہ رہا ہو، “میں نے تمہیں بچا لیا، اب تمہاری باری ہے؟”

مایا نے کانپتے ہاتھوں سے اس کے زخم پر دباؤ ڈالا، مگر خون رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ سالار نے ایک جھٹکے میں اپنی شرٹ پھاڑ کر اس کے زخم پر باندھ دی، مگر یہ عارضی حل تھا۔

“ہمیں اسے فوراً یہاں سے لے جانا ہوگا!” سالار نے کہا، مگر مایا جیسے دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو چکی تھی۔

“ساحر! آنکھیں بند مت کرنا! پلیز! تمہیں کچھ نہیں ہوگا!”

ساحر نے بمشکل سر ہلایا، مگر اس کی آنکھیں بوجھل ہونے لگی تھیں۔

دوسری طرف، ایان مرزا کا وجود ہلنے لگا۔ وہ نیم بے ہوشی میں تھا، مگر جیسے ہی اس کی نظر اپنے مردہ باپ پر پڑی، اس کے چہرے پر غصے اور جنون کے سائے لہرانے لگے۔

“گھوسٹ لیڈی! تم نے میرے بابا کو مارا ہے!!! میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا!”

سالار نے اسے دیکھتے ہی گن اٹھائی، مگر ایان مرزا کی پھرتی زیادہ تھی۔ اس نے قریب پڑے ہتھیار پر جھپٹا مارا اور گولی چلانے ہی والا تھا جب زور دار دھماکہ ہوا

مایا کے ہاتھ میں گن تھی، اور اس کے سامنے ایان مرزا کا وجود زمین پر گرتا جا رہا تھا۔ اس کے سینے سے خون بہہ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت تھی، جیسے یقین نہ آ رہا ہو کہ وہ مایا کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔

مایا کی آنکھیں شدت جذبات سے سرخ تھیں اور  چہرے پر برف کی سی سرد مہری، اور ایان کی آنکھوں میں زندگی کی آخری چمک بجھ گئی۔
سالار نے گھڑی دیکھی، وہ لوگ زیادہ دیر تک یہاں نہیں رک سکتے تھے۔ باہر پولیس یا ایان مرزا کے باقی لوگ آ سکتے تھے۔
البتہ اوپر کمرے میں پڑے بیہوش لوگ چار گھنٹے سے پہلے نہیں اٹھ سکتے تھے
مایا نے تیزی سے فیصلہ کیا، “ہمیں ساحر کو اسپتال لے جانا ہوگا!”
سالار نے ساحر کو اپنے بازوؤں میں اٹھایا، جبکہ مایا نے آخری بار اس خونی کمرے کو دیکھا جہاں انتقام کی آگ نے سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا تھا۔
(جاری ہے)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top