Soul Mates
از قلم: ساحر سمیع
قسط نمبر 12
ہسپتال کے کوریڈور میں قدموں کی بے ترتیب چاپ گونج رہی تھی۔ ہر طرف ایمرجنسی کی سرخ روشنیاں جل بجھ رہی تھیں، مگر سب سے زیادہ تڑپ پیدا کرنے والی آواز وہ تھی جو مایا کے دل میں گونج رہی تھی—ساحر کی آخری سرگوشی، اس کی زخمی مسکراہٹ، اس کا خون میں لت پت جسم، اور اس کے بجھتے ہوئے آنکھوں کے دیپ۔
سالار نے جیسے ہی گاڑی اسپتال کے دروازے پر روکی، مایا دروازہ کھول کر باہر کود پڑی۔ اس کے کپڑوں پر خون کے دھبے تھے، ہاتھ کانپ رہے تھے، اور سانسیں بے ترتیب تھیں، مگر اس وقت اسے اپنی حالت سے زیادہ اس شخص کی پرواہ تھی جس کی زندگی ہاتھ سے پھسلتی جا رہی تھی۔
“ڈاکٹر! کوئی ڈاکٹر بلاؤ! پلیز! ساحر کو کچھ ہو نہ جائے!”
مایا کی چیخ سن کر ہسپتال کے عملے کے دو تین افراد دوڑتے ہوئے آئے۔ سالار نے زخمی ساحر کو بانہوں میں اٹھا کر اسٹریچر پر لٹایا، اور اسے فوراً ایمرجنسی روم میں لے جایا گیا۔
مایا اور سالار کے چہرے پریشانی کی مورت بنے ہوئے تھے۔ مایا کے ہاتھ خون سے بھرے تھے، یہ خون ساحر کا تھا، اور اس کی ہتھیلیاں اس کے سینے پر جمے ہوئے زخم کے پاس جانے کی ضد کر رہی تھیں، جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو کہ وہ سانس لیتا وجود اب بے جان ہوتا جا رہا ہے۔
“مایا…” سالار نے اسے آواز دی، مگر وہ جیسے سُن ہو چکی تھی۔
“مایا، بیٹھو۔”
“نہیں!” وہ غصے سے بولی، آنکھوں میں آنسو لیے۔ “میں کیسے بیٹھ جاؤں؟ کیسے سکون کر لوں جب ساحر زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے؟”
“مایا، وہ مضبوط ہے۔ وہ ہار نہیں مانے گا!” سالار نے خود بھی اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔
مایا نے اپنے خون آلود ہاتھوں کی طرف دیکھا، اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ “یہ سب میری وجہ سے ہوا… اگر میں اسے اپنی جنگ میں نہ گھسیٹتی تو وہ آج یوں موت کے دہانے پر نہ ہوتا!”
سالار نے مایا کے کندھے پر ہاتھ رکھا، “مایا، اس نے تمہیں بچانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالی، کیونکہ تم اس کے لیے اہم ہو… شاید اس سے بھی زیادہ جتنا تم سوچ سکتی ہو۔”
مایا کی آنکھیں حیرانی سے پھیل گئیں۔ وہ کچھ بولنے ہی والی تھی کہ اچانک ہسپتال کے دروازے کے قریب ایک شور مچ گیا۔
ایک بھاری مردانہ آواز گونجی
ساحر کہاں ہے
قمر ہسپتال کے اندر بھاگتے ہوئے داخل ہوا۔ اس کی آنکھوں میں خوف تھا، چہرہ پسینے سے تر تھا، اور ساتھ ہی صدف اور ہیر (عائشے گل) بھی تھی، جو پریشانی سے ارد گرد دیکھ رہی تھی۔
ایک نرس نے انہیں روکنے کی کوشش کی، مگر قمر نے سختی سے کہا، “میں پولیس آفیسر ہوں، مجھے اندر جانے دو!”
مایا نے جیسے ہی قمر کو دیکھا، وہ ایک پل کے لیے سکتے میں آ گئی۔ “تم… تم کون ہو؟”
قمر نے کوئی جواب نہیں دیا، بس ایک نظر سالار پر ڈالی، پھر اسٹریچر کی طرف جہاں ڈاکٹروں نے ساحر کو آپریشن تھیٹر میں منتقل کر دیا تھا۔
“ساحر زندہ ہے نا؟” ہیر نے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا، اور اس کی آنکھیں نمی سے لبریز ہو گئیں۔
مایا نے نظریں جھکا لیں۔ “وہ لڑ رہا ہے…”
ہیر نے بے اختیار صدف کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کے دل میں خوف کا ایک طوفان برپا تھا۔ برسوں کی دوری، جدائی، اور غصے کے باوجود، آج وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتی تھی کہ ساحر کی زندگی اس کے لیے بہت زیادہ اہم تھی۔
“مس… تمہارے ہاتھوں پر خون کیوں لگا ہے؟” قمر نے مایا کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا، جس پر مایا نے اپنی مٹھیاں سختی سے بھینچ لیں۔
“یہ خون… ساحر کا ہے۔”
یہ سن کر ہیر کی ٹانگوں میں جیسے جان نہ رہی، وہ کرسی پر بیٹھ گئی اور چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔ “نہیں… نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا… ساحر کو کچھ نہیں ہونا چاہیے!”
—
آپریشن تھیٹر کی سرخ لائٹ اب بھی روشن تھی، اور ہر گزرتا لمحہ ایک اذیت سے کم نہیں تھا۔
مایا، سالار، قمر، صدف اور ہیر سب اپنی اپنی جگہ دم سادھے کھڑے تھے۔
مایا نے زندگی میں کبھی کسی سے اتنی شدت سے دعا نہیں مانگی تھی جتنی وہ آج مانگ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں نم تھیں، دل بے چین تھا، اور ہاتھ کپکپا رہے تھے۔
“ساحر… تمہیں ٹھیک ہونا ہوگا۔ تمہیں بچنا ہوگا۔ میں نے زندگی میں بہت کچھ کھویا ہے، مگر میں تمہیں کھونا افورڈ نہیں کر سکتی!”
—
کچھ گھنٹوں بعد، دروازہ کھلا، اور ڈاکٹر باہر آیا۔
مایا، ہیر، سالار، صدف اور قمر سب خوفزدہ نظروں سے ڈاکٹر کو دیکھنے لگے۔
سب تیزی سے اس کی طرف بڑھے۔
“ڈاکٹر! کیسا ہے میرا دوست؟” قمر نے بے چینی سے پوچھا۔
ڈاکٹر نے ایک گہری سانس لی، ” ساحر کی زندگی اب خطرے سے باہر ہے
سب نے سکون کا سانس لیا
ڈاکٹر نے ایک پل کے لیے خاموشی اختیار کی، پھر کہا،
“اسے ہوش آنے میں وقت لگے گا…!”
اس کے بعد آپ لوگ اس سے مل سکیں گے۔
ہسپتال کے ویران کوریڈور میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ سب تھکے ہوئے، مضطرب اور بے چین تھے، مگر ایک لمحے کے لیے بھی کسی نے آنکھ نہیں جھپکی۔ ساحر کی زندگی اب خطرے سے باہر تھی، مگر وہ ابھی بھی بے ہوش تھا۔
مایا خاموشی سے آپریشن تھیٹر کے دروازے کے قریب بیٹھ گئی۔ اس کی نظریں خلا میں تھیں، جیسے کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہی ہو، جو شاید وہاں موجود ہی نہ ہو۔ سالار نے ایک لمبی سانس لی اور قمر کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا، جو بے چینی سے زمین کو گھور رہا تھا۔
صدف نے نرمی سے قمر کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ “وہ ٹھیک ہو جائے گا، ان شاء اللہ۔”
ہیر (عائشے گل) خاموشی سے کھڑکی کے قریب کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر بے شمار سوالات تھے، مگر زبان خاموش تھی۔ وہ صرف ساحر کو دیکھنا چاہتی تھی، صرف اس کی ایک جھلک۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے برسوں پہلے جو فیصلے کیے تھے، ان کا خمیازہ آج وہ خود بھی بھگت رہی تھی۔
ڈاکٹر ابھی واپس آیا تھا،
مایا نے اچانک نظریں اٹھائیں اور اس کی طرف دیکھا۔ “کیا میں اسے دیکھ سکتی ہوں؟”
اس نے مایا کی بے قرار آنکھوں کو دیکھتے ہوئے کہا، “ابھی نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ پہلے خود سے ہوش میں آئے۔ تبھی ہم کوئی حتمی بات کر سکیں گے۔”
مایا نے سر ہلایا، مگر اس کے دل کی بیقراری کم نہ ہوئی۔ وہ بس انتظار کر سکتی تھی، اور کچھ نہیں۔
—
کئی گھنٹے بار بار ڈاکٹر سے اصرار کرنے پر مایا کو ساحر کو دیکھنے کی اجازت مل گئ
کمرے میں ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ساحر بے حس و حرکت لیٹا تھا، سانسیں آہستہ آہستہ چل رہی تھیں۔ مایا خاموشی سے اس کے قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔
“ساحر…” اس نے دھیمی آواز میں پکارا، مگر کوئی جواب نہ ملا۔
مایا کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ “تمہیں آنکھیں کھولنی ہوں گی… تمہیں لوٹنا ہوگا، ساحر۔”
تبھی اچانک، ساحر کی انگلیاں ہلنے لگیں۔ مایا نے فوراً اس کا ہاتھ تھام لیا۔
“ڈاکٹر! وہ ہوش میں آ رہا ہے!” مایا کی آواز کانپ رہی تھی۔
سب لوگ دوڑتے ہوئے اندر آئے۔ ڈاکٹر نے فوراً اس کا معائنہ کرنا شروع کیا۔ ساحر کی پلکیں لرز رہی تھیں، جیسے وہ کسی خواب سے بیدار ہو رہا ہو۔
پھر آہستہ آہستہ، اس نے آنکھیں کھولیں۔
مایا کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں، مگر جیسے ہی ساحر کی نظریں اس پر پڑیں، اس کے چہرے پر ایک اجنبیت سی چھا گئی۔
مایا کا دل ایک دم زور سے دھڑکا۔
“ساحر… تم ٹھیک ہو؟” اس نے گھبرا کر پوچھا۔
ساحر نے نظریں گھمائیں، سب کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ پھر آہستہ سے بولا،
“تم لوگ… کون ہو؟”
مایا کے قدموں تلے زمین نکل گئی۔
سب ہکے بکے ہو کر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے تھے
(جاری ہے…)
