
جنون بے خودی
رائیٹر: ساحر سمیع
قسط نمبر 01
رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی سیاہ رنگ کی مرسیڈیز پہاڑی راستوں پر بجلی کی سی رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ ہر موڑ، ہر خطرناک گھماؤ پر اس کے ٹائروں کی چرچراہٹ سنائی دیتی تھی،
فرنٹ سیٹ پر بیٹھا بازل نہایت مستعدی سے سٹئیرنگ گھماتے مرسیڈیز کو سنبھالے ہوئے تھا
پہاڑی علاقےمیں مرسیڈیز خطرناک حد تک تیز رفتاری سے جا رہی تھی مگر بازل خان جیسی مہارت شاید ہی کسی کے پاس ہو
چہرے پر تناؤ، آنکھوں میں طوفان، اور ہاتھوں میں ایک بے قابو جنون
ایسا لگ رہا تھا وہ کسی گہری جذباتی کیفیت میں ہے
بازل کے چہرے پر جمی سختی، اس کی جبین پر پڑی گہری لکیریں، اور اس کی سانسوں کی بے ترتیبی اس کی اندرونی کیفیت کا کھلا اظہار تھیں۔
مرسیڈیز کا سٹئیرنگ اس کے ہاتھوں میں بے بس لگتا تھا، در حقیقت بازل خان اپنی گاڑی کی طرح اپنے جذبات پر بھی مکمل قابو رکھنا جانتا تھا مگر آج اس کے دل میں درد کا طوفان اٹھا تھا، ایسا طوفان جو کسی کی بربادی پر ہی تھمتا ہے۔
وہ بار بار غصے سے ہاتھ سٹئیرنگ پر مارتا تھا جیسے کسی انجانے دشمن کے سر کو پاش پاش کرنے کی کوشش کر رہا ہو
دھوکہ؟” بازل خان بڑبڑایا۔ “اتنا بڑا دھوکہ؟ اور وہ بھی بازل خان سے؟”
بازل خان سے دھوکا بہت مہنگا پڑے گا
اس کی آواز میں بجلی کی سی گرج تھی۔دھوکہ صرف لفظ نہیں تھا، وہ اس کی انا پر کاری ضرب تھا۔ جس شخص نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کے آگے سر نہیں جھکایا، آج اسے نیچا دکھانے کیلیے دھوکہ دے دیا گیا تھا — اور وہ بھی ایسے شخص کی طرف سے، جس پر اس نے سب سے زیادہ اعتبار کیا تھا۔
مرسیڈیز اندھیرے میں ایک تیر کی طرح لمحہ بہ لمحہ ہر موڑ پر موت قریب سے گزر جاتی، مگر بازل کے چہرے پر خوف کا کوئی شائبہ تک نہ تھا۔وہ اپنی زندگی سے بے نیاز لگ رہا تھا
پہاڑوں کے بیچ سنسان سڑکیں، نیچے گہری کھائیاں، اور اوپر سر پر ستاروں سے بھرا آسمان — مگر بازل کے دل میں ایسا اندھیرا تھا کہ وہ کسی روشنی کو قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔
“مجھے کمزور سمجھا؟” اس نے دانت پیستے ہوئے کہا، “وہ نہیں جانتا کہ بازل خان کو دھوکہ دینا، خود اپنے لیے قبر کھودنے کے مترادف ہے۔”
اس کی انگلیاں سٹئیرنگ پر مزید سختی سے جم گئیں۔ گاڑی کی رفتار مزید بڑھ گئی۔ تیز ہوا گاڑی کے گرد شور مچا رہی تھی، مگر بازل کے ذہن میں صرف ایک آواز گونج رہی تھی نفرت اور انتقام کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خان ولا کی پُر سکون شام آج کچھ زیادہ ہی ہنگامہ خیز ہو چکی تھی۔ لاؤنج میں شاہ زین اور ماہ نور کی روایتی “زبانی جنگ” اپنے عروج پر تھی۔ کبھی کشن فضا میں اُڑتے، کبھی پانی کی بوتل ایک دوسرے پر نشانہ بنتی، اور کبھی قہقہوں کے ساتھ ساتھ طنزیہ جملوں کی گونج پورے ولا میں سنائی دیتی۔
دونوں جڑواں بہن بھائیوں کی لڑائ اپنے عروج پر تھی جب باہر سے مرسیڈیز کے ٹائروں کی تیز چرچراہٹ سنائ دی
دونوں بہن بھائیوں کا قہقہہ اچانک منجمد ہو گیا۔
بازل بھائی…” دونوں نے بیک وقت سرگوشی کی۔
ماہ نور نے نظریں شاہ زین سے ملائیں، جو لمحوں میں سنجیدہ ہو چکا تھا
جیسے کسی نے میوزک کا بٹن بند کر دیا ہو، دونوں پلک جھپکتے ہی لاؤنج سے غائب ہو گئے۔ شاہ زین جوتے اٹھاتا ہوا زینہ پھلانگتا اُوپر چڑھا، جبکہ ماہ نور دوپٹا سنبھالتے غائب — بس اُس کے پاؤں کی چپل رہ گئی جو راہداری میں گر گئی تھی
دونوں اپنے اپنے کمروں کی طرف بھاگ چکے تھے
یہ دونوں جڑواں بہن بھائ اپنے بڑے بھائ بازل خان کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے تھے
ویسے تو یہ دونوں بڑے خان صاحب کے لاڈلے تھے جس وجہ سے کوئ انہیں کچھ کہنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا اسی وجہ سے انہیں ساری دنیا سے بے خوفی تھی، مگر بازل خان… وہ ایک الگ کہانی تھا۔ بڑے خان صاحب کی ہر نرمی اور شفقت کے باوجود، بازل خان کے رعب کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ جب وہ غصے میں ہوتا، تو خان ولا کے در و دیوار بھی تھر تھر کانپ اٹھتے۔
بازل خان غصے کی حالت میں کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا
اس وجہ سے وہ اسکی واپسی کا معلوم ہوتے ہی اپنے کمروں کی طرف رفوچکر ہوچکےتھے
خان ولا کا مین گیٹ کھلتے ہی آندھی کی طرح مرسیڈیز اندر داخل ہوئ
کچھ ہی دیر میں بازل خان گاڑی سے نیچے اتر چکا تھا
اس کے چہرے پر جو تیور نظر آرہے تھے اسے دیکھ کر راہداری میں موجود ملازمین بھی سہم کر ایک سائیڈ ہو چکے تھے
ماحول میں یکدم خاموشی سی چھا گئ تھی
بازل خان کی آنکھوں میں وہ شعلے دہک رہے تھے جو صرف تب نظر آتے جب وہ بے حد غصے میں ہوتا تھا
خاموش قدموں کے ساتھ وہ زینے چڑھتا چہرے پر بجلی جیسا جلال لیے، اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
کسی کی جرات نہیں ہوئی کہ اس سے کچھ پوچھے۔ کسی ملازم نے سلام کی بھی ہمت نہ کی۔
بازل خان کا کمرہ بند ہو چکا تھا، مگر ولا کی فضا ابھی تک اس کی سنجیدگی سے بوجھل تھی۔ ایک طوفان، سے پہلے والی خاموشی چھائ ہوئ تھی…
۔ ۔۔۔۔
بازل خان نے کوٹ اتار کر بے رحمی سے بیڈ پر پھینکا اور کمرے کے بیچوں بیچ کھڑا ہو گیا،
اس کا سینہ تیزی سے اُٹھ رہا تھا، جیسے دل دل سینہ پھاڑ کر باہر نکلنے کو بے تاب ہو
آنکھوں میں شعلے بھڑک رہے تھے اور جبڑے سختی سے بھنچے ہوئے۔
“نہیں… یہ کبیر خان نہیں کر سکتا… نہیں!”
اس کے لبوں سے ایک خراش زدہ سرگوشی نکلی، جیسے وہ خود کو یقین دلانے کی ناکام کوشش کر رہا ہو۔
مگر اگلے ہی لمحے، حقیقت نے اس کے دل میں خنجر کی طرح پیوست ہونا شروع کیا۔ وہ حقیقت جسے وہ جھٹلانا چاہتا تھا، اب پوری بےرحمی سے سامنے آ چکی تھی۔
“بہت پچھتاؤ گے کبیر خان…”
وہ دبی ہوئی آواز میں بڑبڑایا، لیکن اس کے لہجے میں ایسا زہر تھا کہ دیواریں بھی سن کر کانپ جاتیں۔
“تم جانتے نہیں ہو بازل خان کو… تم نے صرف میری خاموشی دیکھی ہے، صرف میری وفا دیکھی ہے…میری دوستی دیکھی ہے”
اس نے غصے سے میز پر رکھا گلاس اٹھا کر دیوار پر دے مارا۔ گلاس کرچیوں میں بکھر گیا، جیسے اس کی دوستی کا رشتہ چکناچور ہو چکا ہو۔
“اب تم میری دشمنی دیکھو گے…”
اس کی آواز اب دھاڑ میں بدل چکی تھی۔
کبیر خان! تم نے میرے صبر کو کمزوری سمجھا؟ تم نے میرے اعتماد کو دھوکہ دیا؟”
وہ دیوار کی طرف مڑ کر مکے مارنے لگا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ دیوار نہیں، کبیر خان کا چہرہ ہو، جسے وہ چکناچور کرنا چاہتا ہو۔
“اگر میں نے دوست بن کر تمہیں عزت دی… تو دشمن بن کر تمہارا نام و نشان مٹا دوں گا! تمہاری نسلیں بازل خان کے قہر کو یاد کریں گی!”
اس کی خودکلامی، جنون کی حدوں کو چھو رہی تھی۔ وہ اب بازل خان نہیں، وہ طوفان بن چکا تھا، جو کسی کی وفا کی راکھ سے اٹھا تھا اور اب سب کچھ بہا لے جانے پر تُلا ہوا تھا۔
کمرے میں موجود گھڑی کی ٹِک ٹِک بھی اب اس کی سانسوں کے شور میں دب چکی تھی۔ خاموش کمرہ، اب کسی طوفان کے آنے کی گواہی دے رہا تھا… اور باہر ولا کی فضا، ایک خوفزدہ انتظار میں جیسے سہم کر بیٹھ گئی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
@@@@
یقیناً، اب کہانی کو “اگلے دن” کی طرف لے چلتے ہیں، جہاں بازل خان کے غصے کی تپش اب بھی برقرار ہے، لیکن ماحول میں ایک عارضی سکون اور نئی کشیدگی کی تیاری ہے۔ یہاں منظر کا اگلا حصہ پیش ہے:
—
اگلا دن…
خان ولا کے آنگن میں سورج کی نرم روشنی پھیل چکی تھی، مگر فضا میں اب بھی رات کے اندھیرے کا بوجھ باقی تھا۔ خادم معمول کے مطابق اپنی ڈیوٹیوں میں مصروف تھے، مگر ان کی چالوں میں چستی کی جگہ محتاط خاموشی تھی۔ جیسے سبھی کسی غیرعلانیہ ہدایت کے تحت ہلکی آواز میں سانس لے رہے ہوں۔
لاؤنج میں چائے کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ بڑی بیگم قرآن کی تلاوت میں مصروف تھیں، اور ملازمین دبے قدموں کام کر رہے تھے۔
مگر اوپر والی منزل… ہنوز خاموش۔
بازل خان کے کمرے کا دروازہ بند تھا۔ وہ ابھی تک باہر نہیں نکلا تھا۔ کسی نے ہمت نہیں کی کہ اس کے کمرے کی جانب نظر بھی اٹھائے۔ رات کی وہ گرجدار واپسی اور کمرے میں سنائی دینے والی چیزوں کے ٹوٹنے کی آوازیں سب کے ذہنوں میں تازہ تھیں۔
اسی دوران…
ماہ نور نرم پیروں سے سیڑھیاں اترتی دکھائی دی، ہاتھ میں کافی کا مگ، اور چہرے پر وہی مخصوص شرارتی مسکراہٹ۔ وہ اب بھی کل رات کی بچکانہ لڑائی کو سنجیدہ نہیں لے رہی تھی۔
“صبح بخیر، شاہ زین کہاں ہے؟” اُس نے خادمہ سے پوچھا۔
“صاحب جی تو باہر لان میں واک کر رہے ہیں بی بی جی۔” خادمہ نے جھک کر جواب دیا۔
ماہ نور نے آنکھوں کے اشارے سے شرارت کی اور لان کی طرف بڑھ گئی، جہاں شاہ زین ہاتھ میں موبائل پکڑے، کانوں میں ایئرپھون لگائے کسی انگریزی گانے پر ہلکی ہلکی تھرک میں مصروف تھا۔
“شاہ زین!”
ماہ نور کی آواز پر وہ چونکا، جیسے کسی جرم پر رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہو۔
“ارے پاگل ہو گئی ہو؟ تمہیں معلوم ہے نا بازل بھائی اب تک باہر نہیں نکلے؟ ان کا موڈ آج بھی سڑا ہوا ہوا تو؟” شاہ زین نے ایئرپھون نکالتے ہوئے کہا۔
ماہ نور نے مگ کا گھونٹ لیتے ہوئے کندھے اچکائے،
“تو کیا کریں؟ کیا ہم بھی کمروں میں دبک کر بیٹھ جائیں؟ ویسے بھی جب تک ہمیں کسی وجہ سے نہ بلائیں، ہمیں کچھ نہیں کہنا۔ خود ہی ٹھنڈے ہو جائیں گے، جیسے ہمیشہ ہوتے ہیں۔
بس دعا کرو ان کا موڈ خود بخود ٹھیک ہو جائے۔ ورنہ اگلا ہفتہ گھر میں فوجی تربیت کی طرح گزرے گا!” ماہ نور کی گھبرائی آواز میں شرارت جھلک رہی تھی
شاہ زین نے آنکھیں گھمائیں،
“ہاں، لیکن اگر بلایا… تو میری جان، تم دعا کرنا کہ پہلا نمبر تمہارا ہو!”
دونوں نے دبے دبے قہقہے لگائے۔
اور تب ہی، بالا خانے کی طرف سے دروازے کے کھلنے کی آواز آئی۔
بازل خان باہر آ چکا تھا۔
“لو جی سوتا شیر جاگ گیا ہے” شاہ زین نے بازل خان کو آتے دیکھ کر آہستہ سے کہا
سیاہ کُرتے پاجامے میں، سرد چہرے اور تیز نگاہوں کے ساتھ، بازل خان زینے اتر رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نیند کا خمار نہیں تھا صرف چنگاریاں دہک رہی تھیں
ویسے شاہ زین
بازل بھائ کسی زکوٹے جن کی طرح کیوں رہتے ہیں، ایسی سرخ سرخ آنکھیں دیکھ کر اچھے خاصے بندے کو ہرٹ اٹیک ہو سکتا ہے
ماہ نور دبی دبی آواز میں بولی اور شاہ زین کا قہقہہ نکلتے رہ گیا
باذل خان قریب آ پہنچا تھا
تمام ملازم فوراً سیدھے ہو چکے تھے۔ شاہ زین اور ماہ نور نے لاشعوری طور پر اپنے کپڑے درست کیے، اور لب سلے۔
بازل خان نے دونوں پر ایک سخت نگاہ ڈالی، اور بنا کچھ کہے، سیدھا ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گیا۔
فضا میں پھر وہی خاموشی چھا گئی — جیسے طوفان ابھی گیا نہ ہو… بلکہ ابھی آیا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوبصورت شیشے کی بڑی میز پر سفید چینی کے برتنوں میں ناشتہ سجا ہوا تھا۔ نان، پراٹھے، آملیٹ، دیسی مکھن، شہد، قہوہ، جوس اور ہر وہ چیز موجود تھی جس سے میز پر شاہی پن جھلکتا تھا۔
خاندان کے سب افراد اپنی نشستوں پر بیٹھے تھے، مگر فضا میں عجیب سی خاموشی پھیلی ہوئی تھی —
بڑے خان صاحب اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھے اخبار میں نظر دوڑاتے جا رہے تھے، مگر اُن کی آنکھیں بار بار اخبار سے ہٹ کر بازل کی طرف جاتی تھیں، جو میز کے سرے پر بیٹھا چپ چاپ قہوہ پی رہا تھا۔
بازل کے چہرے پر وہی سنجیدگی، ماتھے پر ہلکی سلوٹیں، اور آنکھوں میں ویرانی کے ساتھ ساتھ وہ طوفان جھلک رہا تھا جس کا سب کو اندازہ تو تھا، مگر کسی کو پوری کہانی معلوم نہ تھی۔
ماہ نور نے بے آواز انداز میں نان کا ٹکڑا اٹھایا، اور نظریں جھکا کر منہ میں رکھا۔
شاہ زین نے جوس کا گلاس اٹھایا، مگر بازل کی موجودگی میں وہ بھی بے دلی سے گھونٹ بھرتا رہا۔
بڑی بیگم نے ماحول کی سنجیدگی کو کم کرنے کے لیے نرم لہجے میں کہا،
“بازل بیٹا، تم نے کچھ کھایا نہیں، ذرا پراٹھا لے لو۔”
ان کے لہجے میں فکر اور ایک التجا تھی — کہ شاید کچھ کہو، کچھ بانٹو، کچھ تو چھپے درد کا پتہ چلے۔
مگر بازل خان نے صرف سر ہلایا، اور قہوہ کا دوسرا گھونٹ لیا۔ اُس کا ہر انداز واضح کر رہا تھا کہ وہ دل سے اس میز پر موجود نہیں، صرف جسمانی طور پر بیٹھا ہے۔
اسی لمحے شاہ زین نے سرگوشی میں ماہ نور سے کہا:
“لگتا ہے بم آج بھی خاموشی سے پھٹے گا!”
ماہ نور نے آنکھیں دکھا کر اسے چپ کرایا،
“چپ کر! بازل بھائی کی نظر پڑ گئی نا تو آج تمہاری خیر نہیں!”
اتنے میں بڑے خان صاحب نے اخبار تہہ کیا اور صاف گلا کھنکارا،
“بازل… تم کچھ پریشان لگ رہے ہو۔ سب خیریت ہے؟”
بازل خان نے چند لمحے خاموشی اختیار کی، پھر گہری سانس لی اور سرد آواز میں کہا:
“خیریت تو کبیر خان سے پوچھنی چاہیے ابا جان… جو فیصلہ اُس نے کیا ہے، اُس نے ہماری عزت، دوستی، اور اصول — سب کو روند ڈالا ہے۔”
میز پر چمچوں کی کھنک بھی رک گئی۔ شاہ زین اور ماہ نور نے ایک دوسرے کو چونک کر دیکھا۔ بڑی بیگم نے اضطراب سے ہاتھوں کی انگلیاں مڑورنا شروع کر دیں۔
“کبیر خان؟ کیا کیا اس نے؟” خان صاحب نے بھنویں چڑھا لیں۔
بازل نے اپنی نگاہیں ابا جی کی آنکھوں سے ملائیں۔
“جو میں نے سوچا بھی نہیں تھا… وہ کر گیا۔ اور اب یہ معاملہ صرف دوستی کا نہیں رہا… یہ باذل خان کی انا کا سوال بن چکا ہے۔”
اب میز پر صرف دو آوازیں رہ گئ تھیں — دیوار پر لگی گھڑی کی ٹک ٹک، اور ایک آنے والے طوفان کی چاپ… جس کا رُخ اب کبیر خان کی طرف تھا۔
(جاری ہے)