Soul Mates Episode 09

Soul Mates
By Sahir Sami
Episode 09

سالار جیسے ہی نقاب پوش کے پاس پہنچا وہ بائیک سٹارٹ کر چکا تھا اور وہاں سے فرار ہونے ہی والا تھا جب سالار کا طاقتور ہاتھ اس کے کندھوں پر پڑا اور وہ بائیک سمیت زمین پر جا گرا
زمین پر گرتے ہی اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور تیزی سے قلابازی کھاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا
وہ سالار کے مقابل کھڑا جارحانہ انداز میں اسے گھور رہا تھا
سالار دانت پیستے ہوئے اس کی طرف بڑھا اور اسے اپنے کسرتی بازوؤں سے دبوچنے کی کوشش کی مگر وہ جھکائ دیتے ہوئے ایک زور دار لات سالار کے پیٹ میں رسید کر چکا تھا
بجلی کی سی پھرتی تھی اس کے وجود میں
سالار ابھی سنبھلا بھی نہیں تھا جب دوسری لات اسکی کنپٹی میں لگی اور وہ زمین پر آگرا
اسے دن میں تارے نظر آنے لگے تھے
نقاب پوش طنزیہ انداز میں ہنس پڑا
بڑا آیا باڈی بلڈر۔۔
اسی وقت سالار اپنی جگہ سے ربڑ کی طرح اچھلا اور نقاب پوش کو لیتا ہوا زمین پر آگرا
وہ دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو چکے تھے اور جس کا جہاں بس چلے مکے لاتیں مار رہے تھے جب مایا دوڑتی ہوئ انکے قریب آپہنچی
ہینڈز اپ۔۔ ورنہ میں شوٹ کر دوں گی
مایا کے ہاتھ میں پسٹل تھا اور وہ خطرناک انداز میں نقاب پوش کو دیکھتے ہوئے پستول کا رخ نقاب پوش کی طرف کر چکی تھی
اسکا لہجہ اس قدر کرخت تھا کہ وہ دونوں وہیں پر رک گئے۔ نقاب پوش آہستہ سے ہاتھ اوپر کر چکا تھا
کون ہو تم۔۔ کیوں ہمارا پیچھا کر رہے ہو
مایا نے اسی لہجے میں پوچھا
اسکی آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے تھے
بولو۔۔ کون ہو تم
ورنہ میں گولی چلانے میں دیر نہیں کروں گی
سالار آگے بڑھا اور ایک جھٹکے سے نقاب پوش کا نقاب کھینچ لیا۔
جیسے ہی اس کی نظر نقاب پوش پر پڑی وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہوا۔
تت تت۔۔ تم۔۔!
اسکی آنکھوں میں حیرانگی تھی۔
مایا کے چہرے کا رنگ بھی زرد پڑ چکا تھا، ہاتھ کانپنے لگے، اور پستول نیچے گر گیا۔

ساحر تم۔۔۔؟
تم تو مر چکے تھے نا۔۔؟
وہ شدید صدمے کی سی کیفیت میں تھی۔
اسکا دماغ گھومنے لگا تھا
سامنے کھڑا ساحر خاموش تھا، اس کی آنکھوں میں ایک درد، ایک کرب تھا، جیسے وہ سب کچھ کہنا چاہتا ہو لیکن الفاظ ساتھ چھوڑ گئے ہوں
مایا جیسے ضبط ہار گئی، وہ ایک دم آگے بڑھی اور ساحر کے گلے لگ گئی۔

“ساحر…!” وہ ہچکیاں لے کر رو رہی تھی، اس کے آنسو ساحر کے کندھے کو بھگو رہے تھے
اس کا گلا رندھ گیا تھا اور اس کا اتنے عرصے سے ضبط کا بندھ ٹوٹ چکا تھا
مایا مجھے مارنے کی کوشش ضرور کی گئ تھی مگر میں بچ نکلا اور روپوش ہو گیا تاکہ صحیح وقت پر سامنے آ سکوں
ابھی ہماری فیملی کے اور بھی لوگ ہیں جو روپوش ہیں
ساحر مایا کو خود سے الگ کرتے ہوئے دلاسہ دیکر کہنے لگا
اور سالار جو ابھی تک حیران و پریشان کھڑا تھا وہ ایک دم ساحر کے گلے لگ گیا
ماحول ایک دم جذباتی ہو چکا تھا
ساحر نے جھک کر مایا کا گرا ہوا پستول اٹھا کر جیب میں رکھ لیا
وہ تینوں اپارٹمنٹ میں آچکے تھے
ساحر اگر تم اتنے دنوں سے ہمارے پیچھے تھے تو کبھی سامنے کیوں نہیں آئے
مایا شکوہ کرنے کے انداز میں پوچھ رہی تھی
اور پھر اسے وہ وقت یاد آیا جب اس نے اپنے ہاتھوں سے ساحر کو مارنے کیلئیے لیب میں جال بچھایا تھا اور ساحر کی خوش قسمتی تھی جو وہ زندہ سلامت انکے سامنے موجود تھا
وہ روہانسی ہونے لگی
ساحر مجھے معاف کر دو میں نے انجانے میں تمہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی
تم سیدھی طرح سامنے بھی تو آسکتے تھے
……
……
……

ساحر نے گہری سانس لی، “مایا، مجھے افسوس ہے کہ تمہاری برسوں کی محنت سے تیار کی گئی لیب میری وجہ سے تباہ ہوئی۔ مگر میں نے جو کچھ کیا، وہ سب کی حفاظت کے لیے کیا۔ دشمن ہمارے بہت قریب ہے، ہمیں بے حد احتیاط سے چلنا ہوگا۔”
میں ہمیشہ سے تمہارے آس پاس رہا بس کچھ سوچ کر ہی سامنے نہیں آیا ۔
تم لوگوں نے براہ راست انڈر ورلڈ سے ٹکر لے لی تھی اور میں چھپ کر سب کی حفاظت کر رہا تھا۔
ہمارے اور بھی لوگ محفوظ جگہ پر ہیں لیکن ہمارا دشمن کوئ عام شخص نہیں ہے ہمیں بے حد احتیاط سے کام لینا ہوگا۔
ساحر مایا اور سالار کے سب سے چھوٹے تایا کا بیٹا تھا جبکہ سالار درمیان والے تایا کا بیٹا اور مایا ان دونوں کے بڑے تایا جان کی بیٹی تھی۔ ا
وہ ان دونوں سے ہی عمر میں بڑی تھی جبکہ ساحر مایا اور سالار دونوں سے چھوٹا تھا
مایا کو یہ جان کر خوشی ہوئی تھی کہ اس کے خاندان کے کچھ لوگ ابھی باقی ہیں اور محفوظ ہیں
مایا نے حیرت سے پوچھا، “ہمارے اور لوگ؟ وہ کہاں ہیں؟”
وہ تو کب کی ان سب پر آنسو بہا چکی تھی
ساحر نے ایک اداس مسکراہٹ کے ساتھ کہا، “مایا، جب ہمارے خاندان پر مافیا کا قہر نازل ہوا، میں اپنی فیملی کے ساتھ کسی اور شہر میں تھا۔ جیسے ہی خبر ملی، میں نے سب کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔”
وہ افسوس بھرے انداز میں مایا اور سالار کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا
مایا مجھے دکھ ہے کہ میں تایا جان اور باقی سب کو نہیں بچا پایا مگر میں ہمیشہ سے ہی تم دونوں کے بہت قریب رہا ہر لمحہ ان دیکھے دشمن سے تم لوگوں کے آگے ڈھال بنا رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
رات کافی گہری ہو چکی تھی جب سلطان مرزا کو اپنے خاص بندے طاہر کی کال موصول ہوئ
سر لیڈی گھوسٹ کو ٹریس کر لیا ہے ہم نے
طاہر پرجوش انداز میں سلطان مرزا کو کال پر بتا رہا تھا
ویلڈن طاہر۔۔ کہاں پر ہے وہ اس وقت
سلطان مرزا سرشاری سے بولا
سر وہ اس وقت ایک اپارٹمنٹ میں ہے، شہر کے مضافات میں۔ ہمارے آدمیوں نے اس کی لوکیشن کنفرم کر لی ہے۔

سلطان مرزا چند لمحے خاموش رہا، پھر گہری سانس لے کر بولا، “کیا تمہیں یقین ہے کہ وہی لیڈی گھوسٹ ہے؟”

“جی سر، پورا کنفرم ہے۔ وہی ہے۔” طاہر کی آواز میں جوش تھا۔ “لیکن سر، ایک مسئلہ ہے۔”

“کیا مسئلہ؟” سلطان مرزا کی نظریں تیز ہوگئیں۔

“سر، وہ اکیلی نہیں ہے۔ وہاں کچھ اور لوگ بھی ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی منصوبے کی تیاری کر رہی ہے۔
سلطان مرزا نے لمحہ بھر سوچا، پھر سخت لہجے میں بولا، “طاہر، اپنے آدمیوں کو ریڈی رکھو۔ میں خود آ رہا ہوں۔ آج لیڈی گھوسٹ کی کہانی ختم ہو جائے گی!”
طاہر نے سلطان مرزا کی بات سن کر فوراً اثبات میں سر ہلایا اور بولا، “جی سر، ہم تیار ہیں۔”

فون بند ہوتے ہی طاہر نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا۔ سب اپنی پوزیشنز سنبھالنے لگے۔ وہ ایک پرانے ویران نظر آنے والے اپارٹمنٹ کے آس پاس چھپے ہوئے تھے، جہاں لیڈی گھوسٹ موجود تھی۔

چند ہی لمحوں بعد سلطان مرزا اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچا۔ وہ گاڑی سے اترا اور طاہر کے قریب آ کر دھیمے مگر سخت لہجے میں بولا، “یہ کھیل اب ختم ہونا چاہیے۔”

“سر، ہمارے مخبر کے مطابق اس کے ساتھ دو اور آدمی موجود ہیں۔” طاہر نے سرگوشی کی۔

سلطان مرزا نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا۔ سب خاموشی سے دبے قدموں اپارٹمنٹ کے اندر داخل ہونے لگے۔ جیسے ہی وہ اندر پہنچے، ایک زوردار آواز گونجی—

“سلطان مرزا! مجھے پکڑنے آئے ہو؟”

یہ لیڈی گھوسٹ کی گہری، پُراسرار آواز تھی۔ وہ سامنے کھڑی تھی، سیاہ لباس میں، آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک لیے۔

“یہی آخری رات ہے تمہاری!” سلطان مرزا نے غصے سے کہا اور گن نکال لی۔

لیڈی گھوسٹ ہلکا سا مسکرائی، جیسے اسے کسی بات کی پرواہ نہ ہو۔ “سلطان مرزا، تم ہمیشہ اتنے ہی خود اعتماد رہتے ہو؟
میری جگہ پر آ کر مجھے ہی دھمکا رہے ہو؟
دیکھو، یہ رات تمہارے لیے کیسی خوفناک ہو سکتی ہے!”

اچانک حویلی کی بتیاں بند ہوگئیں۔اندھیرا ہوتے ہی ایک دھماکہ ہوا اور ہوا کسی عجیب سے دھوئیں سے آلودہ ہو گئ
وہ سب بے اختیار کھانسنے لگے اور آڑھے ترچھے ہو کر زمین پر گرنے لگے اس کے ساتھ ہی دوبارہ ہر طرف روشنی پھیل گئ
یہ کوئ بے ہوش کر دینے والی گیس تھی جس نے ان سب کو ہوش و حواس سے بیگانہ کر دیا تھا
سلطان مرزا نے بیہوش ہونے سے پہلے جو منظر دیکھا
لیڈی گھوسٹ گیس ماسک لگائے اطمینان سے چلتی ہوئ اس کے قریب آ رہی تھی
اور پھر اندھیرا چھا گیا
جاری ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top