میرے پاگل پیا از قلم ساحر سمیع

ناول : میرے پاگل پیا
از قلم ساحر سمیع
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

کہتے ہیں کبھی وقت ایک سا نہیں رہتا
انسان کی زندگی میں ایسے ایسے موڑ آتے ہیں جن کا کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوتا
خوشیاں غم دکھ سکھ یہ تو ہمیشہ ہی ساتھ چلنے والی چیزیں ہیں
زندگی کا پہیہ اپنی مخصوص رفتار سے چلتا ہی رہتا ہے اور انسان ایسے ایسے تجربات سے گزرتا ہے اسے لگتا کے کہ بس اب زندگی کا اختتام آن پہنچا ہے مگر ایک زندگی ہے جو ربڑ کی طرح کھنچ کر لمبی ہوتی جاتی ہے اور جہاں جینے کی خواہش لیئے پھرتے ہیں وہاں پتہ ہی نہیں چلتا کب سے اجل انکی تاک میں اس کا وقت پورا ہونے کا انتظار کر رہی تھی
زندگی کی ساری کشمکش سے یہ بات تو ظاہر ہے کہ نہ تو انسان کو اس قدر اکڑ کر رہنا چاہئیے کی اپنی موت کو ہی بھول جائے اور نہ اس قدر مایوس رہنا چاہئیے کیوں کہ وقت ہر لمحہ بدلتا رہتا کے حالات ایک سے نہیں رہتے وقت کے فرعون بھی وقت کے پہیئے کے نیچے آتے ہیں اور اپنے کیئے کا پھل پاتے ہیں


وہ دھیمی رفتار سے چلتا ہوا یونیورسٹی کا گیٹ کراس کر آیا تھا. اس کا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا اور وہ آنے والے وقت کا سوچ کے مسرت اور ڈر کی ملی جلی کیفیت سے گزر رہا تھا
رنگ برنگے ملبوسات میں سٹوڈنٹس اپنے اپنے ڈپارٹمنٹس کی طرف گامزن تھے
آج اس کا فرسٹ لیکچر ہونا تھا اور سینیئرز اس جیسے نئے چہروں کو دیکھتے ہوئے آپس میں منصوبہ بندی کر رہے تھے
اس نے کلرک آفس کے باہر لگے نوٹس بورڈ پر اپنی کلاس کا روم نمبر دیکھا اور پھر روم کی تلاش میں آگے بڑھ گیا
روم میں پہلے سے کی اس جیسے نئے سٹوڈنٹس اپنی کرسیوں پر چپ چاپ بیٹھے نظر آرہے تھے اور ہر آنے جانے والی کو تک رہے تھے
وہ بھی ایک طرف کونے میں پڑی کرسی پر براجمان ہو گیا اور ایسے ہی بیگ سے کاپی نکال کر الٹ پلٹ کرنے لگا
اس کے قریب بیٹھے دوسرے لڑکے نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے تعارف شروع کر دیا
کچھ ہی دیر میں وہ دونوں دوست بن چکے تھے اور ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے جب اچانک ایک ٹیچر کلاس میں داخل ہوئے اور چیئر پر بیٹھ کر سب سے تعارف لینا شروع کر دیا
دروازے کے باہر کچھ سٹوڈنٹس کھڑے کھسر پھسر کر رہے تھے جب سر نے آواز دے کر ان کو بھی اندر بلا لیا
ایک طرف لڑکے بیٹھے تھے دوسری طرف لڑکیاں بیٹھی تھیں اور سر سب سے تعارف لے رہے تھے جب اچانک ایک لڑکا منہ چھپا کے ہنسنے لگا اور سر جتنا ڈانٹتے اتنا وہ زیادہ ہنستا جاتا
سب حیران تھے کہ کیا ہوا جب اچانک باہر سے دروازہ کھلا اور سر عتیق روم میں داخل ہوئے
ایک نظر کلاس کو دیکھا پھر ٹیچر کی کرسی پر بیٹھے سینئیر لڑکے کو دیکھ کر جو ٹیچر ہونے کا ڈرامہ کر رہا تھا مصنوعی غصے سے کہا
کامران یہ کیا بدتمیزی ہے چلو جاؤ ابھی مجھے لیکچر لینے دو
سر پلیز کچھ دیر تو ان سے متعارف ہونے دیں ہم ان کا استقبال کرنے آئے ہوئے ہیں
نہیں بھائ ویلکم بعد میں کرتے رہنا ابھی مجھے لیکچر لینا ہے چلو شاباش نکلو ادھر سے
کامران ہنستا ہوا کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا جسے دیکھ کر کلاس میں مختلف کرسیوں پر َپر سے سینئیر سٹوڈنٹس لڑکے اور لڑکیاں ہنستے ہوئے اٹھنے لگے اور کلاس سے باہر جانے لگے
سب سٹوڈنٹس شاک تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے ظاہر سی بات ہے پہلا دن تھا اور نئے نئے تجربات سے گزرنا تھا انہوں نے بہرحال سب سٹوڈنٹس کافی محفوظ ہوتے ہوئے ہنس بھی رہے تھے جب سر عتیق کلاس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے ان سے کلام کا آغاز کیا
حاظری شیٹ پر سب کے نام پہلے سے درج تھے اور سر سب کی حاظری لگانے لگے اور ان سے مختصر تعارف لینے لگے
سب کو ان کے رول نمبر بتائے گئے اور کچھ ہی دیر بعد اپنا لیچر مکمل کر کے کلاس سے جانے لگے
انکے جانے کے فوراً بعد کامران فاتحانہ انداز میں کلاس میں داخل ہوا جس کے پیچھے باقی سینئیر سٹوڈنٹس بھی کلاس میں داخل ہونے لگے
سب کے چہرے پر ایک عجیب سی چمک تھی جیسے شکاری اپنے شکار کو دیکھتے ہوئے مسرت سے کھل اٹھتا ہے


اب سینیئرز نے سب کو بلا بلا کر تعارف لینا شروع کر دیا تھا
وہ جو اپنی باری آتے دیکھ راہ فرار ڈھونڈ رہا تھا کامران نے اسے اشارے سے بلا لیا اور کہا اس بینچ پر کھڑے ہو جاؤ اور اپنا تعارف کراؤ
جی السلام علیکم
میرا نام شازل ہے
میں بہاولپور شہر سے belong کرتا ہوں
ایف ایس سی میں میرے 75% مارکس تھے اب چونکہ اس فیلڈ میں مجھے زیادہ سکوپ نظر آیا تو ادھر ایڈمیشن لے لیا

وہ ایک ہی رفتار میں فرفر بولتا چلا گیا جب کہ سینیئرز گرلز منہ پہ ہاتھ رکھے ہنسے جا رہی تھیں
انکو ہنستا دیکھ کر شازل گڑبڑا گیا اور اپنا تعارف بھول گیا ایک دم سے ہکلانے لگا
کامران نے اسے ٹہوکا دیا
چلو شاباش اب ڈانس کر کے دکھاؤ
وہ مزید گھگیانے لگا مجھے ڈانس نہیں آتا
سوچ لو اگر ڈانس نہیں کرو گے تو اس سے زیادہ مشکل ٹاسک دیں گے
اچھا ایسا کرو اپنی مرضی سے کوئ گانا یا شاعری سنا دو
وہ سوچ میں پڑ گیا پھر کہنے لگا شاعری سناتا ہوں
ہاں جی سناؤ پھر شروع ہو جاؤ
کامران یہ کہتے ہوئے اس کے سامنے ایک کرسی پر بیٹھ گیا باقی سب اس کی طرف متوجہ ہو چکے تھے اور اس کا تو ایسے حلق خشک ہو رہا تھا جیسے بکری کا شیر کو دیکھ کے حال ہوتا ہے
ارے سناؤ بھائ کس سوچ میں پڑ گئے ہو
اس نے کنکھار کر گلا صاف کیا اور مری مری آواز میں شروع ہوا

کبھی ُرک گئے کبھی چل دیے
کبھی چلتے چلتے بھٹک گئے
یونہی عمر ساری گزار دی
یو نہی زندگی کے ستم سہے
کبھی نیند میں
کبھی ہو ش میں
تو جہاں ملا
تجھے دیکھ کر
نہ نظر ملی
نہ زبان ہلی
یونہی سر جھکا کے گز ر گئے
کبھی زلف پر
کبھی چشم پر
کبھی تیرے حسین وجود پر
جوپسند تھے
میری کتاب میں
وہ شعر سارے بکھر گئے
مجھے یاد ہے
کبھی ایک تھے
مگر آج ہم ہیں جدا جدا
وہ جُدا ہوئے
تو سنور گئے
ہم جُدا ہوئے
تو بکھر گئے
کبھی عرش پر
کبھی فرش پر
کبھی ان کے در
کبھی در بدر
غم عاشقی تیرا شکر یہ
ہم کہاں کہاں سے گزر گئے…….!

واہ واہ کیا بات ہے بہت خوب واہ بھائ کمال کر دیا
کامران نے اسے داد دیتے ہوئے کہا اور سینیئر لڑکیوں میں سے کسی نے سیٹی بھی بجائ
وہ شکریہ کہتے ہوئے اپنی کرسی کی طرف بھاگا اور شکر کا سانس لینے لگا جیسے بہت بڑا معرکہ سرانجام دیا ہو
ایسے میں کامران نے اس کے ساتھ والے لڑکے کو بلا لیا اور اس سے تعارف لینے کے بعد ڈانس کرنے کو کہا
زبیر نامی اس لڑکے نے کمال کا ڈانس دکھایا اور واپس کرسی پر آبیٹھا
اب لڑکیوں کی باری تھی ان کو مختلف ٹاسک دئیے گئے اور آخر سبز حجاب میں بیٹھی اس لڑکی کو بلایا گیا جس پر نظر پڑتے ہوئے شازل کے الفاظ گڑبڑا جاتے تھے
اس لڑکی نے اپنا تعارف میں اپنا نام الماس بتایا
اس سے نعت سنانے کیلئے کہا گیا اور جب اس نے نعت کہنی شروع کی تو پوری کلاس پر ایک سحر طاری ہو گیا اتنی میٹھی آواز کے سحر نے ہر ایک کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا اور ہر کوئ ارد گرد سے بے خبر الماس کی آواز میں محو ہو چکا تھا
کب نعت ختم ہوئ کب الماس واپس کرسی پر آبیٹھی کچھ پتہ ہی نہ چلا اور یہ سحر تب ٹوٹا جب ایک سینیئر لڑکا دم بخود حالت میں کرسی پر بیٹھتے ہوئے نیچے جا گرا اور کرسی سے پیدا ہونے والی آواز نے سب کو واپس حال میں لا کھڑا کر دیا
پھر کمرہ ماشاءاللہ سبحان اللہ کی آوازوں سے گونجنے لگا اور الماس ایک ساحرانہ سی مسکراہٹ کے ساتھ دلوں پر بجلیاں گرانے لگی
……..
سینئرز کا روزانہ کا معمول بن گیا تھا شازل کی کلاس میں آتے اور ان تمام نئے سٹوڈنٹس کو تنگ کرتے لیکن تقریباً دو ہفتوں میں وہ سب بھی ان چیزوں کے عادی ہو گئے تھے اور سینئرز نے بھی تنگ کرنا چھوڑ دیا تھا
اب تک کلاس کے ماحول میں کچھ کچھ انسیت کا تاثر قائم ہو چکا تھا سب ایک دوسرے سے کافی حد تک واقف ہو چکے تھے
الماس پوری کلاس میں سب سے زیادہ ذہین سٹوڈنٹ تھی اور ادھر شازل کا پوچھو ہی مت ذہین ہونے کے باوجود خود اعتمادی نہ ہونے کے برابر
ایک واضح تبدیلی جو اس نے نوٹ کی تھی وہ یہ تھی کہ پوری کلاس ایک طرف اور الماس ایک طرف جب بھی ٹیچرز کوئ پریزنٹیشن لیتے تو سب کے سامنے پریزنٹ کرتے وقت شازل کو گھبراہٹ اس وقت ہوتی جب الماس پوری توجہ سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی بات سنتی رہتی شازل کا دھیان بار بار ٹاپک سے ہٹ جاتا اسے سب سے مشکل وقت وہی لگتا تھا
وہ ان احساسات کو کوئ بھی نام دینے سے قاصر تھا.
اس کا دل کرتا یہاں سے غائب ہو سکے لیکن ان سب حالات کا سامنا تو اسے کرنا ہی تھا
جب بھی کوئ لیکچر ختم ہوتا سب سٹوڈنٹس باہر کینٹین کا رخ کرتے اور الگ الگ ٹولیوں کی صورت میں باتیں کرتے نظر آتے
ایک دوسرے کی مہمان نوازی بھی کی جاتی اور ایک دوسرے سے زبردستی دعوتیں بھی لی جاتی تھیں
ایسے ہی وقت پر لگا کر اڑتا رہا اور ان کے مڈ ٹرم کے امتحانات شروع ہو گئے
سارے سٹوڈنٹس ادھر ادھر کے معمولات کو چھوڑ کر نوٹس میں سر دئیے نظر آتے
لڑکے لڑکیاں جوڑیوں کی شکل میں بیٹھے نظر آتے صرف الماس اور شازل الگ الگ بیٹھے ہوتے ان دونوں کو ہی تنہائ کچھ زیادہ عزیز لگتی تھی ..
الماس سب سے الگ رہنے والی کم گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والی لڑکی تھی
نہ کسی سے غیر ضروری بات کرتی نہ کسی سے زیادہ فری ہوتی لیکن کچھ تو تھا اس میں جس سے شازل اس کی طرف کھنچا چلا جا رہا تھا اور شاید یہی احساس دوسرے لڑکوں کے دل میں بھی تھا
سب الماس کے سامنے خاموش ہو جاتے تھے اور اس سے حد درجہ عزت کے ساتھ پیش آتے تھے
وہ تھی بھی اتنی محنتی کے مڈ ٹرم کے امتحانات میں فرسٹ پوزیشن اسی نے لی اور اب وقت فائنل ٹرم کی طرف رواں دواں تھا

……….
شازل اس وقت ہاسٹل کے کمرے میں لیٹا کانوں میں ہینڈ فری لگائے دکھی گانے سن رہا تھا اور ساتھ ساتھ گنگناتے ہوئے روم میٹ لڑکوں کی نیند بھی خراب کر رہا تھا

کیسے کہوں عشق میں تیرے
کتنا ہوں بے تاب میں
آنکھوں سے آنکھیں ملا کے
چرا لوں تیرے خواب میں
میرے سائے ہیں ساتھ میں
یارا جس جگہ تم ہو
میں جو جی رہا ہوں
وجہ تم ہو

قریب سوئے ذیشان نے تکیہ اٹھا کے اس کے سر پر دے مارا
ابے یار بند کر یہ راگنی اپنے دکھ میں ہمیں تو نہ دکھی کر سکون سے سونے دے
شازل کچھ لمحہ چپ ہوا پھر اس کے سامنے الماس کا چہرہ آنے لگا
اس کی ساحرانہ مسکراہٹ موتی جیسے چمکتے ہوئے دانت اس کی آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگے اور اس کی آواز اس کے کانوں میں گونجنے لگی کتنی سحر تھا اس کی آواز میں اس کی مسکراہٹ میں
اسے دل سے ایک ٹیس سی اٹھتی ہوئ محسوس ہوئ دل اک دم بے چین ہونے لگا وہ اس کے خیالات کو جتنا دماغ سے جھٹکنے کی کوشش کرتا اتنا زیادہ اس پر حاوی ہونے لگتے اور آہستہ آہستہ اسے اپنے دل کے کسی گوشے سے الماس کی محبت کا احساس جاگنے لگا
اور پھر وہ آنکھیں بند کر کے اس کے خیالوں میں کھو گیا اور جانے کس گھڑی اس کی آنکھ لگ گئ
…..
الماس یار مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہی میم فرح نے جو لیکچر دیا بالکل بھی پلے نہیں پڑا
تم ہی کچھ سمجھا دیا کرو نہ یار کلاس کی ٹاپر ہو
ایمن نے الماس کے سامنے بے بسی ظاہر کرتے ہوئے اس انداز میں کہا کہ الماس ہنس پڑی
ہاں ہاں کیوں نہیں دیکھا ہے تمہیں لیکچر کے دوران بیگ میں موبائل رکھ کر استعمال کر رہی ہوتی ہو بعد میں کہتی ہو لیکچر سمجھ نہیں آیا

ارے بابا ہر وقت کہاں وہ تو بس تھوڑا ایمرجنسی کام تھا وہ کر رہی تھی اتنے دھیان سے تو لیکچر لیتی ہوں

چل ٹھیک ہے نوٹس لیکر کینٹین پر بیٹھ جاتے ہیں ساتھ سمجھا دوں گی اتنا بھی مشکل نہیں ہے آسان تو ہے میم فرح کا سبجیکٹ

نہیں یار اس وقت تو مجھے کچھ کام ہے بعد میں کوئ وقت نکال کر دیکھتے ہیں
اسی لمحے ایمن کے موبائل پر میسیج آنے کی آواز آئ اور وہ جلدی سے موبائل نکال کر میسیجز میں لگ گئ جب کے اس کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ کو دیکھتے ہوئے الماس اسے گھورنے لگ گئ

اے لڑکی کن چکروں میں پڑی ہو انسان بن جاؤ ہر وقت کس سے باتوں میں لگی ہوتی ہو موبائل پر

اففف یار تم بھی نہ بال کی کھال اتارنے لگ جاتی ہو دیکھنا ایک دن تمہیں بھی محبت ہوگی نہ کسی سے تو میری طرح بے چین رہنے لگو گی ہر وقت

میں اور محبت __ نہ بھائ توبہ ہے اتنی فارغ وقت نہیں میرے پاس کہ ان جھمیلوں میں پڑوں
اسی وقت سر عتیق کلاس میں داخل ہوئے اور سب سٹوڈنٹس لیکچر لینے کیلئے تیار ہوگئے
لڑکوں والی سائیڈ میں بیٹھا شازل کن اکھیوں سے بار بار الماس کو دیکھے جا رہا تھا

…….
سمیر وہ دیکھ کیا لڑکی ہے یار
عمران نے سمیر کو کہنی مارتے ہوئے کہا اور سمیر نے ایک دم سے اس طرف دیکھا جہاں عمران اشارہ کر رہا تھا اور پھر کہنے لگا
ہاں یار ماشاء اللہ لڑکی تو بہت کمال ہے واہ اس پر تو فدا ہونے کو دل کر رہا ہے
عادل جو ان دونوں سے بے نیاز موبائل میں میسیجز میں لگا تھا وہ بھی چونک کر انہیں دیکھنے لگا اور انکی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے الماس پر نظریں جما لیں
جو اس وقت ایمن کے ساتھ کینٹین پر آکر کرسی پر بیٹھ رہی تھی
اسے ایسے چونکتے دیکھ کر عمران اور سمیر ہنسنے لگے
کیا خیال ہے اپنا ہیرو اسے کتنے دن میں پٹا لے گا
نہ بھائ یہ اپنے ہیرو کے بس کی بات نہیں ہے یہ ان لڑکیوں سے مختلف لگ رہی ہے جو اپنے ہیرو سے کچھ لمحوں میں متاثر ہوجاتی ہیں
انکا اشارہ عادل کی طرف تھا اور عادل انکی باتوں سے بے نیاز الماس کو گھورے جا رہا تھا پھر ایک دم کرسی سے اٹھتے ہوئے قدم اس ٹیبل کی طرف بڑھا دیئے جہاں الماس اور ایمن بیٹھی کسی بات پر ہنس رہی تھیں
السلام علیکم کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں
عادل نے ان کے قریب پہنچ کر گفتگو کا آغاز کیا
نہیں بھائ اور بھی تو جگہیں ہیں بیٹھنے کیلئے ادھر جا کے بیٹھو نا
ایمن نے روکھے سے انداز میں جواب دیا تو عادل کا جی چاہا اس بدتمیز لڑکی کے منہ پر ایک زور کا طمانچہ مارے لیکن غصے کے گھونٹ بھرتے ہوئے کہا
جی نہیں میں نے کچھ بات کرنی ہے ان میڈم سے
اس کا اشارہ الماس کی طرف تھا
جی جی بولیں سن رہی ہون کیا بات کرنی یے
الماس نے حیرانگی سے اسکی طرف دیکھا
جی میرے دوست نے آپ کو دیکھا اور ضد کر رہا ہے کہ اسے آپ ہی بھابھی کی صورت میں چاہئیں اور میں اس کو منع کر کے اس کا دل نہیں توڑ سکتا
کیا آپ اس کی بھابھی بننے کیلئے راضی ہیں

ابھی بات پوری نہیں ہوئ تھی جب الماس کا ہاتھ گھوما اور ایک زناٹے دار تھپڑ عادل کے چہرے پر پڑا
خبردار جو دوبارہ ایسی بیہودہ بات کی تو چہرے کا حلیہ بگاڑ دوں گی
وہ ایک دم سے چیخ پڑی اور سب لوگ حیرانگی سے انکی طرف دیکھنے لگے
عادل نے کھا جانے والی نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور لوگوں کو متوجہ پا کر طیش پا ہوتے ہوئے وہاں سے نکل گیا
……..
پتہ نہیں وہ سمجھتی کیا ہے اپنے آپ کو
ایسی حور پری بھی نہیں ہے کس بات کا گھمنڈ ہے اس لڑکی میں
میں قسم کھا کر کہتا ہوں اس لڑکی کا سارا غرور خاک میں نہ ملایا تو میرا نام عادل شیرازی نہیں
عادل نے مکا میز پر مارتے ہوئے کہا جبکہ سمیر عمران اور عاطف اس کے گرد بیٹھے افسوس کر رہے تھے
حد ہے یار اسے ایسا نہیں کرنا چاہئیے تھا یونیورسٹی میں تو یہ عام سی بات ہوتی ہے آخر ایسے سب کے سامنے ذلیل کرنے کی کیا ضرورت تھی
وقاص جو ابھی ابھی ان میں شامل ہوا تھا اس نے کہا
اس نے مجھے لوگوں کے سامنے رسوا کیا میں اسے پوری دنیا میں رسوا نہ کر دوں تو کہنا

چھوڑ یار تم نے تو سیریس ہی لے لیا اس بات کو چل بھول جا اب
کیا کہا بھول جاؤں کیسے بھول جاؤں سب کے سامنے اس نے ذلیل کیا مجھے یہ کوئ چھوٹی بات ہے کیا
اس کا جارحانہ لہجہ اور طیش میں سرخ ہوئ آنکھیں دیکھ کر سب سوچ میں پڑ گئے تھے
………….
الماس لائبریری میں پرسکون بیٹھی مطالعہ کر رہی تھی جب شازل لائبریری میں داخل ہوا اور کتابوں کے ریک میں سے اپنی مطلوبہ کتاب تلاش کرنے لگا
الماس نے نوٹس سے نظر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا اور پھر نوٹس میں کھو گئ
شازل مطلوبہ کتاب تلاش کرنے کے بعد بیٹھنے کیلئے جگہ تلاش کرنے لگا اور ایک طرف الماس بیٹھی دکھائ دی
وہ چپ چاپ چلتا ہوا دوسری ٹیبل پر جا بیٹھا اور سر جھکا کہ کتاب پڑھنے لگا مگر اس کا دھیان الماس کی طرف ہی لگا ہوا تھا

کتاب کھولوں تو ابھر آتا ہے ہر صفحے پر
بات کرتا ہوا مسکراتا ہوا چہرہ اس کا
…….
ہاسٹل میں ذیشان فاروق اور عامر نے پورے روم میں ہنگامہ شروع کیا ہوا تھا
سپیکر موبائل سے کنیکٹ کر کے اس پر گانے لگا کر رقص کر رہے تھے اچھل کود رہے تھے اور شازل ایک طرف کمبل میں دبکا کانوں میں انگلیاں دئیے کوشش کر رہا تھا کہ سپیکر کی آواز کم سے کم آئے
اس کے سر میں دھماکے سے ہو رہے تھے جیسے ہتھوڑے سے کوئ اس کا سر ڈھول کی طرح بجا رہا ہو شدید سر درد اوپر سے ان لوگوں کا شور شرابا حد سے زیادہ ہوتا جا رہا تھا
کافی دیر تک تو یہی سب چلتا رہا پھر آخر کار وہ سب تھک کر بیٹھ گئے اور سپیکر بھی بند کر دیا اور شازل نے سکون کا سانس لیا
کمبل لپیٹے اب وہ الماس کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اس سے کیسے اپنے دل کی کیفیت بیان کرے
یہ تو وہ جانتا تھا کہ الماس باقی لڑکیوں سے کافی مختلف ہے اور اگر وہ کوشش کرتا اس سے ایسے بات کرنے کی تو یہ بعید از قیاس نہیں تھا کہ وہ اس کی بےعزتی کرتی
اس کا سر درد بھی بڑھتا جا رہا تھا اور سینے سے اٹھتی ٹیسیں بھی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھیں
پھر وہ کمبل اتار کر بیٹھ گیا اور ڈائری نکال کر لکھنے بیٹھ گیا
دھڑکنوں سے پوچھو تو
کس کی یاد میں دھڑکتی ہیں
سانسوں سے پوچھو تو
کس کے انتظار میں چلتی ہیں
سوچوں میں نہ خیالوں میں
جوابوں اور سوالوں میں
دن مہینے سالوں میں
اندھیرے اور اجالوں میں
بدلتے موسموں کی رت میں
بدلتے وقت کی چالوں میں
ہائے یہ دل کی دھڑکن کو
کیسے اب سنبھالوں میں
تمہیں جو دیکھا تمہیں جو سوچا
سب سے کیسے چھپا لوں میں
میرے جنون کو کیا کہو گے
کیسے خود کو سنبھالوں میں
پاگل سا ہو گیا ہوں دیکھو تو
کھلی آنکھوں کے خوابوں میں
نئ آزمائشوں کے جالوں میں
کتنا ٹوٹ کے بکھرا ہوں
کیسے خود کو بچالوں میں
جب بھی اٹھائے ہاتھ دعا کو
جب بھی رب سے مانگا ہے
تمہارا ساتھ چاہا ہے
تمہارا ہاتھ مانگا ہے
مجھے میسر ہوئے ہو جب سے
میں بے قرار ہوا ہوں تب سے
دھڑکنوں سے پوچھو تو
کس کی یاد میں دھڑکتی ہیں
سانسوں سے پوچھو تو
کس کے انتظار میں چلتی ہیں ..

اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں
کاش الماس میرے دل کی حالت جان پاتی
اسے معلوم ہو پاتا کہ میں اس کیلئیے کس قدر تڑپ رہا ہوں کس قدر اذیت جھیل رہا ہوں
وہ ڈائری بند کر کے سوچتا ہوا پھر لیٹ گیا اور ایسے سوچتے سوچتے ہی اسے نیند نے آگھیرا
ساری پریشانیوں سے کہیں دور سنہری وادیوں کی طرف خوابوں کی حسین دنیا میں جہاں کوئ تکلیف کوئ دکھ نہیں تھا
………
عادل نے الماس کا بیک گراؤنڈ معلوم کروایا اس کے رشتے دار والدین سب کے بارے میں معلومات اکٹھی کر لی تھیں اور دل ہی دل میں اس نے ایک منصوبہ بنا لیا تھا
جب سے الماس نے اس کو تھپڑ مارا تھا تب سے وہ لمحہ لمحہ سلگ رہا تھا اس کے اندر آتش فشاں پھٹ رہے تھے
اب اس نے بدلہ لینے کی ٹھان لی تھی اور اپنے منصوبے پر عمل کرنے کیلئے مناسب وقت کے انتظار میں تھا
……
میم شازیہ ایک خوش اخلاق اور اعلی اوصاف رکھنے والی ٹیچر تھیں جو تعلیم کے ساتھ ساتھ سٹوڈنٹس کو دوسری ایکٹیویٹیز میں بھی لگائے رکھتی تھیں جن سے سٹوڈنٹس میں خود اعتمادی پیدا ہوسکے
اس وقت بھی انہوں نے سب کو ایک ٹاسک دیا ہوا تھا کہ 5 منٹ کے اندر لفظ organization کے حروف سے الگ الگ الفاظ بنائیں جیسے or, an, organ,nation وغیرہ
اور جو اس ٹائم کے اندر اندر زیادہ سے زیادہ الفاظ بنا سکے گا وہ ونر ہوگا
سب سٹوڈنٹس بڑے جوش و جذبے کے ساتھ الفاظ کی جوڑ توڑ میں الجھے ہوئے تھے جب میم نے سٹاپ کرنے کا کہا اور سب سے کاپیاں لے لیں
سب کےبالفاظ گننے لگیں اور ایک پیڈ پر سب کے نام اور الفاظ کی تعداد لکھتی جا رہی تھیں
تھوڑی ہی دیر بعد انہوں نے اعلان کیا
شازل ملک پہلے نمبر پر
الماس دوسرے نمبر پر
ایمن تیسرے نمبر پر ہیں
تب پہلی بار الماس شازل کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرائ اور شازل کا دل بلیوں اچھلنے لگا تھا
پھر اس نے ٹھان لی کہ وہ کسی طرح اپنی محبت کا اظہار کر کے رہے گا
………
فائنل ٹرم امتحانات شروع ہونے میں ایک ہفتہ رہ گیا تھا اس لئیے طلباء اتوار کے دن بھی یونیورسٹی کے گراؤنڈز میں بیٹھ کر تیاری میں لگے ہوئے تھے کچھ گراس پر لیٹے ہوئے تھے کچھ موبائل ہاتھ میں اٹھائے سیلفیز بنا رہے تھے
شازل اور زبیر بھی ساتھ بیٹھے نوٹس میں الجھے ہوئے نظر آرہے تھے جب الماس ایمن اور تنزیلہ نوٹس اٹھائے ادھر ہی آتی دکھائ دیں
انہوں نے ان دونوں کو بیٹھے دیکھا تو ان کے قریب کچھ فاصلے پر بیٹھ گئیں
رسمی طور پر سلام کلام کے بعد وہ سب سٹڈی کرنے لگے جب کہ الماس کہیں کھوئ کھوئ سی لگ رہی تھی
اس کے چہرے سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کسی پریشانی میں مبتلا ہے اور یہ بات شازل کو تشویش میں ڈال رہی تھی
……..
فائنل ٹرم امتحانات ہو چکے تھے اور اب سب سٹوڈنٹس رزلٹ کے انتظار میں تھے
شازل نے محسوس کیا تھا کہ الماس کی توجہ اب سٹڈی میں برائے نام رہ گئ تھی وہ ہر لمحہ کھوئ کھوئ سی رہنے لگی تھی اور امتحانات کے قریب آخری ہفتے میں کوئ کلاس بھی نہیں لی تھی اس نے یونیورسٹی نہیں آرہی تھی پھر امتحانات میں نظر آئ تب بھی وہ پہلے والی الماس سے کافی مختلف لگ رہی تھی
شازل کا دل کٹ رہا تھا اس کی یہ حالت دیکھ کر مگر کیا کرتا کچھ پوچھ بھی نہیں سکتا تھا
امتحانات کے کچھ دن بعد اگلی کلاسز کا آغاز ہو چکا تھا مگر الماس زیادہ تر غائب رہنے لگی تھی
اور پھر ایک دن سب کے رزلٹ بھی بتائے گئے
شازل نے فرسٹ پوزیشن لی ہوئ تھی اور الماس جس نے مڈٹرم میں فرسٹ پوزیشن کی تھی اب وہ سرے سے کسی پوزیشن میں نہیں تھی اس کے کافی کم مارکس آئے تھے
شازل کو جہاں اپنی پوزیشن پر خوش ہونا چاہئیے تھا وہ اور زیادہ رنجیدہ ہونے لگا
اس کے دل میں یہی کسک رہ گئ تھی کہ الماس کو آخر کونسا دکھ ہے کونسی فکر کھائے جا رہی ہے
…….
الماس آپ کو ایچ او ڈی سر وقار بلا رہے ہیں اپنے آفس میں
کلرک نے کلاس روم کے دروازے سے سر اندر داخل کرتے ہوئے الماس کو دیکھا کر کہا

جی آپ چلیں میں آتی ہوں الماس اٹھتے ہوئے بولی اور کچھ دیر بعد وہ سر وقار کے آفس میں چیئر پر بیٹھی تھی
الماس آپ اتنے دن یونیورسٹی سے غیر حاظر رہی ہیں کیا اس کی وجہ جان سکتا ہوں
سر وقار نے الماس کو گھورتے ہوئے کافی سخت لہجے میں کہا
جی سر تھوڑی پرابلم چل رہی ہے ابو کافی بیمار ہیں اس وجہ سے میں نہیں آپا رہی تھی

یہ کوئ طریقہ ہے ایسے جب چاہے چھٹیاں کر لیں.. چھٹی کیلئے آپ نے کو ایپلیکیشن دی تھی
ایسے جب جی میں آئے چھٹیاں کر لیتی ہیں
اپنے مارکس دیکھے ہیں
سر وقار نے مارکس شیٹ اٹھاتے ہوئے کہا

جی سر آئندہ کوشش کروں گی کہ غیر حاظر نہ رہوں اور سٹڈی پر فوکس کر سکوں

میں چاہوں تو ابھی آپکا نام خارج کر سکتا ہوں کیا سمجھتی ہیں آپ اپنی من مانی کریں گی اور ہم ڈپارٹمنٹ کے اصول توڑنے دیں گے

سر وقار نے تھوڑا سخت لہجہ بناتے ہوئے کہا پھر یکدم نرم ہونے لگے
بیٹا یہ آپ ہی کے فائدے کے لئیے کہہ رہا ہوں آپ سمجھنے کی کوشش کریں ایسے اپنا فیوچر نہ خراب کریں مڈٹرم میں آپ نے پوزیشن لی اب بھی چاہیں تو پوزیشن لے سکتی ہیں اچھے نمبر حاصل کر سکتی ہیں

یہ کہتے ہوئے سر وقار نے الماس کا ہاتھ پکڑ لیا اور آہستہ سے دباتے ہوئے رازدارانہ انداز میں کیا
الماس آپ تھوڑا تعاون کریں تو اگلی پوزیشن آپ ہی کی ہوگی

شازل جو کلرک آفس کسی کام سے آیا تھا اس نے کلرک آفس کے ساتھ والے ایچ او ڈی کے آفس سے الماس کی آواز سنی تو اس کا دھیان اسی طرف ہو گیا اور وہ آہستہ سے چلتا ہوا ایچ او ڈی کے آفس کے دروازے پر جا کھڑا ہوا
دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا اور ایچ او ڈی اور الماس کی باتیں کرنے کی ہلکی ہلکی سی آواز آرہی تھی

الماس نے گھبراتے ہوئے اپنا ہاتھ کھینچا اور اکھڑے ہوئے لہجے میں کہنے لگی
یہ کیا کر رہے ہیں سر میں آپکی عزت کرتی ہوں ایسے نہ کریں

سر وقار نے دوبارہ الماس کو بازو سے پکڑ لیا
الماس آپ سمجھنے کی کوشش کریں آپ کا فیوچر آپکے اپنے ہاتھ میں ہے
اسی لمحے دروازہ کھلا اور شازل کمرے میں داخل ہوا
سر کیا میں اندر آ سکتا ہوں
سر وقار بری طرح گڑبڑا گئے اور جلدی سے الماس کا بازو چھوڑ دیا جب کہ الماس سر جھکائے بیٹھی تھی اس کا چہرہ شرم اور ڈر سے سرخ پڑ رہا تھا
یہ کوئ طریقہ ہے اندر آنے کا ایسے جب دل کرے منہ اٹھا کر آجاتے ہو
سر وقار کا پارہ ہائ ہونے لگا
جج جی سر وہ میں.. شازل سے کوئ بات نہیں بن پا رہی تھی اور الماس تیزی سے اٹھ کر آفس سے باہر نکل گئ
ناؤ یو گیٹ لاسٹ
سر وقار نے دھاڑتے ہوئے کہا اور شازل جیسے آیا تھا ویسے الٹے قدموں واپس لوٹ گیا
کلرک آفس کا کام مکمل کر کے کلاس میں گیا جہاں چھٹی ہونے کی وجہ سے سارے سٹوڈنٹس چلے گئے تھے کمرے میں الماس بیگ سمیٹتے ہوئے رو رہی تھی
شازل چلتا ہوا اس کے قریب آگیا اور اس کے سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے اس کی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اس کا چہرہ اوپر کیا
الماس کی غزالی آنکھوں میں اتنے موٹے موٹے آنسو دیکھ کر اس کا دل کٹا جا رہا تھا
تھینک یو شازل آپ نے مجھے اس شیطان سے بچایا
شازل نے ہاتھ سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
ارے نہیں پاگل یہ میرا فرض تھا اب چلو رونا بند کرو دیکھو تو کتنی خوفناک لگ رہی ہو
الماس ہنس پڑی اور جلدی جلدی بیگ اٹھا کر کھڑی ہو گئ
وہ دونوں ساتھ چلتے ہوئے کلاس روم سے باہر نکل آئے
حادثاتی طور پر حالات ان دونوں کو قریب لے آئے تھے اور آگے آنے والا وقت ان کی زندگی میں کیسے کیسے موڑ لانے والا تھا اس سے وہ دونوں بے خبر تھے
…….

ارے واہ یہ تبدیلی کیسے آئ یا تو دونوں الگ الگ بیٹھنے کو ترجیح دیتے تھے اور اب ایسے ساتھ بیٹھے ہو جیسے کئ سالوں سے ایک ساتھ ہو
ایمن نے کینٹین پر شازل اور الماس کو ساتھ بیٹھے دیکھا اور کرسی گھسیٹ کر قریب بیٹھتی ہوئ بولی
ہاں بھائ بولو کیا چکر ہے یہ کچھ مجھے بھی تو پتہ چلے

ایمن شٹ اپ یار تم ہمیشہ الٹا ہی سوچتی رہنا تمہارے دماغ میں پتہ نہیں کیسے کیسے خیالات جنم لینے لگتے ہیں
الماس نے مکا ہوا میں لہراتے ہوئے ایمن کو آنکھیں دکھائیں اور ایمن کی ہنسی چھوٹ گئ جبکہ شازل ان دونوں کی نوک جھونک سے محفوظ ہو رہا تھا
ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھا عادل ان کو خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا
…….. .
الماس اور شازل آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے قریب ہوتے جا رہے تھے اور دونوں کی حالت ایک دوسرے سے مختلف نہیں تھی مگر ان دونوں میں سے کسی نے بھی ابھی تک اس کیفیت کا اظہار نہیں کیا تھا
خاص طور پر الماس نے پہلی بار کسی پر اس قدر بھروسہ کیا تھا اور اب وہ شازل کو ہی اپنا سب کچھ مان بیٹھی تھی
دونوں ایک دوسرے سے اس بات کا اظہار کرتے ہوئے ہچکچا رہے تھے
اس قدر دل سے قریب ہونے کےباوجود اپنے دل کی حالت بیان کرنے سے قاصر تھے
شازل کی طرح اب الماس بھی شاعری کرنے لگ گئ تھی اس سے شاعرانہ باتیں سن سن کر ایمن کے کان پک گئے تھے
ایک شام کو شازل ہاسٹل کی چھت پر کھڑا ہاتھ میں چائے کا کپ تھامے باہر روڈ کی طرف دیکھ رہا تھا جب اس کے موبائل سے میسیج کی آواز سنائ دی
اس نے میسیج اوپن کیا تو الماس کا میسیج آیا ہوا تھا
وہ میسیج پڑھنے لگا
شازل میں بہت بے بس ہو گئ ہوں مجھے تمہارے ساتھ رہنے کی عادت ہوتی جا رہی ہے ایک ایسا احساس اجاگر ہو رہا ہے جس کا نہ پہلے کبھی اندازہ تھا نہ ایسا کبھی پہلے محسوس کیا
مجھے نہیں سمجھ آرہی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے
کیا تم مجھے سمجھا دو گے میری اس بے بسی کی بے چینی کی کیا وجہ ہے

شازل جو الماس سے ایسے کسی میسیج کی توقع بھی نہیں کر سکتا تھا ایسے ذومعنی الفاظ میں اس کا اظہار سن کر حیران بھی ہوا اور دل کے کسی گوشے سے مسرت کا احساس بھی پھوٹنے لگا تھا
اس کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگی تھیں اور کچھ لمحے بعد وہ میسیج ٹائپ کرنے لگا

الماس سچ پوچھو تو ایسا احساس مجھے بہت پہلے سے ہو رہا ہے لیکن کبھی میں تم سے کہہ نہیں پایا آج جب کے تم نے خود ہی مجھ سے اس بات کا اظہار کر دیا ہے تو میرے خیال میں مجھے بھی چپ نہیں رہنا چاہیئے

شازی پاگل ہو گئے ہو کیا میں تو مذاق کر رہی تھی تم تو سیریس ہی ہو گئے
ایک دم بدھو ہو تم.. ایسا سوچنا بھی مت

شازل اس کے اس جواب پر جھینپ سا گیا اور دبے دبے ہونٹوں سے مسکرانے لگا
اچھا تو محبت نے یہ دن بھی دکھانے تھے
چلو خیر ہیں دیکھا جائے گا

پھر وہ میسیج ٹائپ کرنے لگا اور الماس کو میسیج سینڈ کرکے چائے کی چسکیاں لینے لگا
……..
الماس جو شازل کے اس بے باک اظہار پر ہنس رہی تھی اس کے دل میں کہیں ہلچل بھی شروع ہو گئ تھی
اسے شازل کا میسیج موصول ہوا جس میں اس نے ایک نظم بھیجی تھی
الماس بے ترتیب ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ نظم پڑھنےگی

میری خارزار یہ زندگی
میری اجاڑ یہ زندگی
جو آج بہار ہوگئ
تیرے دم سے ہوئ
میں جو چپ تھا برسوں
آج لب کھول دیئے آخر
دل کی ہر جو بات تھی
آج وہ سب ہی بتا دی
یہ جو دھڑکن نثار ہوئ
تیرے دم سے ہوئ
میری بے رونق یہ زندگی
مردہ سی یہ ہنسی
جو آج گلاب ہوئ
تیرے دم سے ہوئ
میں کیوں نہ مانگوں رب سے
میں کیوں ڈروں ان سب سے
مجھے تمہارا ہی انتظار تھا
مدت سے, نجانے کب سے
اب جو زندگی شمار ہوئ
تیرے دم سے ہوئ
دھڑکن نثار ہوئ
تیرے دم سے ہوئ
جو زندگی شمار ہوئ
تیرے دم سے ہوئ

اس کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں دل چیخ چیخ کر پکار رہا تھا
ہاں مجھے محبت ہے ہاں مجھے شازل ملک سے محبت ہے بے پناہ محبت ہے
پر وہ الماس ہی کیا جو اتنی آسانی سے اس محبت کو مان لیتی اپنے ہی دل کی پکار کو نظر انداز کیئے جا رہی تھی اور دل تھا بے قرار ہوا جا رہا تھا
اسے ایسے شازل سے باتیں کر کے سکون ملنے لگا تھا دبے دبے الفاظ میں اس نے شازل کو جتا تو دیا تھا لیکن خود آگے بڑھنے سے ڈر رہی تھی آخر لڑکی ہی تھی
ایک لڑکی کیلئے محبت کا اقرار کرنا محبت کو نبھانا کس قدر مشکل ہوتا ہے آج اسے اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا تھا

………..
ایسے ان دونوں کی خاموش اور دبے دبے الفاظ میں جتائ گئ محبت کو ایک ہفتہ اور گزر گیا
ایک دن الماس اپنے کمرے میں بیٹھی نوٹس کھولے پڑھ رہی تھی جب اسکی امی نے آکر بتایا
الماس تیار ہو جاؤ تمہیں لڑکے والے دیکھنے آرہے ہیں
الماس تو جیسے سن ہو کر رہ گئ تھی
کک ک کیا … کیا کہا امی
ہاں وہی کہا جو تم نے سنا
تمہیں لڑکے والے دیکھنے آرہے ہیں جلدی تیار ہو جاؤ
نہیں امی ابھی تو میں نے پڑھنا ہے آپ لوگ ایسے کیسے میری شادی کرا سکتے ہیں
پڑھتی رہنا ابھی کونسا شادی ہو رہی ہے ابھی تو صرف دیکھنے آ رہے ہیں
وہ اس کو حیران پریشان چھوڑ کر چلی گئیں
وہ نم آنکھوں کے ساتھ ان کو جاتا ہوا دیکھتی رہی
………………..
لڑکے والے آئے الماس کو دیکھا پسند کر کے چلے گئے
وہ شادی میں جلدی کر رہے تھے اور الماس صدمے اور غصے کی ملی جلی کیفیت سے گزر رہی تھی
آخر اس نے دو ٹوک بات کرنے کا فیصلہ کیا اور کہہ دیا امی میں شادی نہیں کر سکتی

ارے لڑکی پاگل ہو گئ ہو کیا کب تک ایسے ہمارے سر پر بیٹھی رہو گی ایک دن کرنی تو ہے نا شادی
آخر کیا برائ ہے اس لڑکے میں اچھے گھر سے ہے اچھا رشتہ ہے شادی کے بعد سکھی رہو گی

امی نہیں با ابھی میری کوئ عمر ہے کیا شادی کی

دیکھ لڑکی تم نے شادی کرنی ہے تو بس کرنی ہے

امی میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں

کیا کہا.. نالائق اسی لئیے ہم نے تمہیں اتنی تعلیم دلوائ. ہماری ناک کٹوانے کے چکر میں ہو

نہیں امی آپ غلط سمجھ رہی ہیں ایسا کچھ نہیں ہے بس میں پسند کرتی ہوں کسی کو اور کچھ بھی نہیں ایسا

انہوں نے آگے بڑھ کر الماس کے چہرے پر ایک زور کا تھپڑ جڑ دیا

بس چپ اب ایک لفظ بھی نہ نکالنا منہ سے نہیں تو تیری خیر نہیں
ابھی ہم سوچ بچار کر رہے تھے شادی کیلئیے اب جلدی تمہاری شادی کرا کر تمہارے فرض سے سبکدوش ہو جائیں گے

بس وہ دن تھا جب ایک ساتھ پے در پے صدمے الماس پر قہر بن کر ٹوٹے اور اس کا یونیورسٹی جانا بھی ختم کر دیا گیا
اس نے اپنے منگیتر کو دیکھا تک نہیں تھا اور پسند نا پسند کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا
اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا امی سے ہر وقت ناراض ہوئ پھرتی تھی مگر اس کی کوئ نہیں چلی
اسکی امی بھی اس کی حالت پر کڑھتی ہوئ بیمار رہنے لگی تھیں
اس عرصہ میں اسے موبائل استعمال کرنے کی بھی اجازت نہیں ملی اس کا موبائل چھین لیا گیا تھا اور اسے ہر لمحہ ہر پل شازل کی یاد مے بہت تڑپایا بہت رلایا مگر وہ کیا کر سکتی تھی جس نے اپنی محبت کا اظہار بھی پوری طرح نہ کر سکی تھی اب کسی اور کی دلہن بننے جا رہی تھی
اور آخر وہ دلہن بن کر روانہ کر دی گئ
ایک نئے گھر نئے لوگوں کے درمیان
……..
وہ دلہن بنی سیج میں بیٹھی اپنی قسمت پر رو رہی تھی جب دروازہ کھلا اور اس کا دولہا اندر کمرے میں داخل ہوا
دروازہ بند کرکے وہ اس کے پاس سیج میں آبیٹھا اور اس کا گھونگھٹ اٹھانے لگا
وہ آنکھیں بند کیئے آنے والے لمحات کا سوچ کر بہت کرب سے گزر رہی تھی
اس کا دل کر رہا تھا کہ اسی لمحے کوئ معجزہ ہو جائے وہ اس کرب سے نجات پا سکے مگر جب اپنا نصیب ساتھ نہ ہو تو ایسے وقت میں معجزے بھی نہیں ہوتے
اس کے دولہے نے اسے ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا
وہ سختی سے آنکھیں بھینچے اس حقیقت کو قبول نہیں کر پا رہی تھی

اب بتاؤ الماس میں نے تمہیں آخر پا ہی لیا نہ
یہ الفاظ سن کر اس نے حیرت سے آنکھیں کھول دیں اور پھر اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں
تت ت تم…..؟
وہ ششدر رہ گئ تھی
سامنے والا اسے دیکھے ہنسے جا رہا تھا
………
وہ رات اس کیلئیے قیامت کی رات تھی
وہ عادل شیرازی کی دلہن بنے اپنی قسمت کا ماتم کر رہی تھی
عادل شیرازی جس کو اس نے یونیورسٹی کی کینٹین پر سب کے سامنے تھپڑ مارا تھا وہ اس سے بدلہ لینے کیلئے اس حد تک جا سکتا تھا یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا
عادل نے اسے پہلی رات میں ہی بالوں سے پکڑ کر جس شدت سے جھنجوڑا تھا اور اس کے چہرے پر تھپڑ مارے تھے اس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی
کتنی مکروہ ہنسی تھی اس حیوان کے چہرے پر
کتنی نفرت تھی اس کی آنکھوں میں
اس کے بعد یہ معمول بن گیا تھا وہ پھول جیسی لڑکی جس کا ہمیشہ بہت لاڈ اٹھایا گیا تھا وقت کے ظالم تھپیڑوں نے اسے کس حال میں پہنچا دیا تھا
اس کے سسرال والے بھی اس پر ہر وقت غصہ کرتے حکم چلاتے تھے اور عادل بھی ذرا ذرا سی بات پر اس پر ہاتھ اٹھاتا اپنے ماں باپ کے سامنے ہی اس کو ذلیل کرتا
وہ چپ چاپ یہ ظلم سہتی رہی چپ کے سے روتی رہی مگر ان ظالموں کو اس پر ذرا بھی ترس نہیں آیا
وہ آزادی چاہنے لگی تھی
اس ماحول سے ان لوگوں سے اسے حد درجہ نفرت ہونے لگی تھی.
وہ ان سب سے کہیں دور چلی جانا چاہتی تھی
…………
شازل الماس کے اس طرح اچانک غائب ہو جانے پر بہت پریشان رہنے لگا تھا
وہ ایک ایسی اذیت سے گزر رہا تھا جس کا مداوا نہیں ہو سکتا تھا ایسا درد جس کی کوئ دوا میسر نہیں تھی
وہ پہلے ہی کم گو تھا مگر اب اور بھی خاموش رہنے لگ گیا تھا
ایمن نے اسے بتایا تھا کہ الماس کی شادی ہو گئ ہے اور یہ سن کر اس کا وجود پتھرا گیا تھا
کیوں… کیوں آخر کیوں.
اس نے مجھے بتانا بھی گوارا نہیں کیا
کیا میں اس قدر غیر اہم تھا اس کیلئیے
وہ اپنے آپ سے سوال کرنے لگا تھا چیخ چیخ کر رونے لگا تھا
ایمن اس کی اور الماس کی واحد دوست تھی جس سے وہ اپنا غم شیئر کر سکتا تھا اور وہ اس کے پاس بیٹھا روتا رہتا تھا صرف الماس کی باتیں کرتا رہتا تھا
پھر وہ خاموش ہو گیا.. اس کے آنسو خشک ہو گئے تھے اور اس کے بعد کسی نے اس کو بولتے ہوئے نہیں دیکھا
جیسے تیسے یونیورسٹی کی تعلیم ختم ہوئ سب ایک دوسرے سے بچھڑ گئے اور پیچھے رہ گئیں تو صرف یادیں
اس یونیورسٹی میں جانے کتنے لوگ ملے ہونگے.. ایک دوسرے کی زندگی میں شامل ہوئے ہونگے. کتنے لوگ بچھڑ گئے ہونگے..
نہ جانے کتنی ان گنت یادیں وابستہ ہونگی
یونیورسٹی سے
………
بکھرے بال ،بڑھی ہوئی مونچھیں ، چہرے پر سنجیدگی یہ وہ شازل نہیں تھا جو الماس کو ہمیشہ اپنا اپنا سا لگتا ۔۔وقت بھی بہت عجیب کھیل کھیلتا ہے ایک بار پھر الماس کے قدم شازل کی طرف بڑھ رہے تھے ۔۔پارک کے بینچ پر بیٹھا اردگرد سے بیگانہ ہاتھ میں سگریٹ پکڑے کسی سوچ میں گم شازل پہلے سے بلکل الگ لگ رہا تھا ۔۔لیکن الماس پھر بھی اسکو پہچان گئی تھی کیوں کہ جو لوگ دل میں بس جاتے ہیں انکے نقش کبھی بھی نہیں بھلائے جاسکتے اور وہ شخص تو بالکل بھی نہیں جو آپ کا کل جہاں ہوا کرتا ہے ۔۔ہائے کیسے ہو الماس نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا ۔۔شازل نے چونک کر دیکھا تو نظریں واپس پلٹنا بھول گئی اور سگریٹ ہاتھ سے چھوٹ کر الماس کے پیروں میں جا گری ۔۔الماس نے نیچے جھک کر سگریٹ اٹھائی اور افسوس سے شازل کی طرف دیکھا اور اسے دور پھینک دیا ۔۔بھول گئے ہو کیا مجھے الماس نے شازل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔۔الماس شاید پہلے سے بھی زیادہ پیاری ہوگئی تھی یا پتہ نہیں کیوں شازل کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا ۔۔شازل نے فوراً نگاہیں پھیر لیں شازل کی آنکھوں میں بے یقینی ہی بےیقینی تھی ۔۔مجھے لگتا ہے تم نے مجھے پہچانا نہیں شازل سوری الماس واپس پلٹنے لگی تھی لیکن شازل نے اس کے آنچل کا کونہ تھام لیا بلکل ویسے جیسے کوئی معصوم بچہ ۔۔

الماس رکو شازل نے بہت مشکل سے لفظ ادا کئیے ۔۔الماس نے مسکرا کر پیچھے دیکھا اور بینچ پر بیٹھ گئی شازل بھی اس کے ساتھ تھوڑا دور ہوکر بیٹھ گیا ۔۔کیسی ہو ؟شازل نے گھاس پر پاؤں رگڑتے ہوئے کہا ٹھیک ہوں میں اللہ کا کرم ہے ۔۔تم بتاؤ یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے اپنا اور یہ سگریٹ پینا کب سے شروع کی الماس نے شازل کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا ۔۔
کچھ نہیں ٹھیک ہوں میں یہ تو بس ایسے ہی
شازل نے شرمندگی سے نگاہیں چرا لیں ۔۔اورکیسی گزر رہی ہے زندگی شازی الماس نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا
میری زندگی بس چل رہی ہے لیکن اب جینے کی ہمت باقی نہیں رہی الماس پتہ نہیں کیوں زندگی ہاتھ سے نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا شازل کے الفاظ الماس کے دل تک پہنچے تھے لیکن اس نے صرف ہمم کہہ کر شازل کی طرف دیکھا ۔۔
اچھا چھوڑو یہ بتاؤ تمھاری لائف کیسی جارہی ہے شوہر ،بچے سب کیسے ہیں ؟
شازل نے دل پر پتھر رکھ کے الماس سے پوچھا تھا ۔۔الماس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے لیکن آج اس نے ان آنسوں کو روکا نہیں تھا ۔۔
شادی کہ چھے ماہ بعد ہی مجھے طلاق ہو گئی تھی شازل ۔۔الماس کے الفاظ سن کر شازل نے بےیقینی سے الماس کی طرف دیکھا ۔۔
کیسے ہوا یہ سب اور بتایا کیوں نہیں ؟ شازل نے لڑکھڑاتے لہجے میں کہا ۔۔
کیا بتاتی شازل کیا بتاتی میں کوئی نہیں ہے میرا جس کے گلے لگ کر رو سکوں میں۔۔ شازل پتہ ہے تمھیں تم اکثر مجھے یاد آتے تھے دل کیا فون کروں رابطہ کروں تم سب سے لیکن ہمت ہی نہیں تھی ۔۔
اب کیا کرتی ہو الماس شازل نے غمگین لہجے میں الماس سے پوچھا ۔۔
پرائیویٹ سکول میں ٹیچر ہوں
گز رہی ہے زندگی ۔۔الماس نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔۔تم بتاؤ شادی نہیں کی ابھی الماس نےچہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا ۔۔
شادی…!
نہیں مجھے کون دے گا اپنی بیٹی شکل دیکھی ہے میری شادی والی ہے یہ شکل شازل نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا ۔۔
الماس کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی ۔کوئی حال نہیں اچھے خاصے تو ہو ۔۔تم تو اتنے اچھے ہو کہ کوئی بھی لڑکی خوشی خوشی راضی ہو جائے تم سے شادی کرنے کے لئیے ۔۔
کوئی بھی ۔۔شازل نے الماس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ۔
ہاں کوئی بھی الماس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔۔اچھا یہ بتاؤ ایساکونسا روگ لگ گیا ہے تمھیں جو جینے کی چاہ ختم ہو گئی ہے الماس نے سوکھے پتے اٹھاتے ہوئے شازل سے سوال کیا ۔۔
محبت ۔۔الماس محبت سے بڑا کوئی دکھ نہیں ہے اس دنیا میں یہ انسان کو جیتے جی مار دیتی ہے میں نے ہر خوشی خود پر حرام کر دی ہے ۔۔
پاگل کسی کے چلے جانے سے کوئی مر نہیں جاتا آگے بڑھو اپنی زندگی میں خوشیاں تمھاری منتظر ہیں شازل ۔۔زندگی بہت خوبصورت ہے ۔۔
اچھا پھر تو تمھیں بھی آپنی زندگی میں آگے بڑھنا چائیے مجھ سے زیادہ خوشیوں کی حقدار تم ہو الماس ۔۔
شازل نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔
نہیں شازل مجھے ایک تجربہ ہی بہت ہے الماس نے اپنے چہرے پر آئے بال پیچھے کرتے ہوئے کہا ۔۔شازل کی نظر الماس کی گردن پر پڑے نشان پر پڑی تو اسکی آنکھوں میں غصہ اترنے لگا ۔۔
یہ کیا ہے الماس شازل نے الماس کے قریب جاتے ہوئے کہا ۔۔کچھ نہیں الماس نے جلدی سے اپنا دوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے کہا ۔۔اوکے اللہ حافظ بہت دیر ہوگئی ہے میں چلتی ہوں اپنا خیال رکھنا الماس نے جانے کے لئیے قدم بڑھائے تھے لیکن شازل نے الماس کی بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا تو الماس شازل کے سینے سے جا لگی ۔۔
کیا بدتمیزی ہے شازل چھوڑو میرا ہاتھ۔۔الماس نے اپنا چھوڑواتے ہوئے کہا۔۔
نہیں الماس اب اور نہیں نہ تم اور دکھ دیکھو گی نہ میں شازل نے الماس کے چہرے کو چھوتے ہوئے کہا
الماس کے چہرے پر حیا کی لالی پھیلنے لگی تھی
………….
وہ گھر بہت خوبصوری سے سجا ہوا تھا
بہت گہما گہمی تھی سب لوگ خوش نظر آرہے تھے
آج ایک محبت کی داستان مکمل ہونے جا رہی تھی دو محبت کرنے والوں کا ملن ہو رہا تھا.
آج کی فضا بہت خوشگوار تھی
لوگوں کے قہقہے جاری تھے ہنسی خوشی سے سب بہت آسانی سے ہو گیا تھا
دولہا کو اس کے دوست چھیڑ رہے تھے
جلدی جاؤ بھابھی انتظار کر رہی ہونگی
اسے زبردستی سیج والے کمرے کی طرف دھکیل رہے تھے
وہ ہنستا ہوا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا
دلہن کے پاس دلہن کی امی اور دولہا کی امی دونوں کی مائیں اور دلہن کی بہنیں بیٹھی ہوئ تھیں
کتنے خوش لگ رہے تھے سب
دلہن ہولے ہولے سے شرما رہی تھی اور ہونٹوں پر ایک پرسکون مسکراہٹ سجی ہوئ تھی
دولہا کو اندر آتے دیکھ کر وہ سب وہاں سے کھسک گئ تھیں
دلہن کچھ اور سمٹ گئ تھی
شازل نے کمرے کا دروازہ لاک کیا اور اس کے قریب آ بیٹھا
جیب میں ہاتھ ڈال کر منہ دکھائ کے لئیے ایک پیاری سی گھڑی نکالی اور الماس کے بازو میں باندھ دی.
ساتھ میں ایک ہار بھی لیا ہوا تھا جو اس نے الماس کا گھونگھٹ اٹھانے کے بعد اس کے گلے میں پہنا دیا
شازل نے اس کا چہرہ اوپر کیا اور اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا
کتنا پیار تھا ان آنکھوں میں
اس نے ہونٹ اس کے ماتھے پر رکھتے ہوئے اسے بوسہ دیا اور سینے سے لگا لیا باہوں میں سمیٹ لیا
آج الماس کی زندگی کا سب سے سنہرا دن تھا
جس کا ہنسی خوشی سے اختتام ہونے جا رہا تھا
اب راوی نے انکی زندگی میں ہمیشہ کا چین ہی چین لکھ دیا تھا
انکی محبت اپنی منزل پا چکی تھی دو بے قرار دلوں کو قرار آگیا تھا
(The End)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top