روحوں کا ملن قسط نمبر 02

روحوں کا ملن

از قلم ساحر سمیع
قسط نمبر 02

یونیورسٹی میں نئے آنے والے طلباء کا لیکچرز لینے کا یہ پہلا دن تھا۔
نئے نئے طلباء آنکھوں میں امیدوں کے چراغ جلائے یونیورسٹی پہنچ رہے تھے
سائیکولوجی کے فرسٹ سمیسٹر کے طلباء اپنے کلاس روم میں پہنچ چکے تھے اور اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے
کچھ سٹوڈنٹ ایک دوسرے سے جان پہچان بنانے کی کوشش میں تھے
کچھ گہری سوچوں میں گم تھے
دائیں طرف کی لائن میں ہیر سر جھکائے اپنے رجسٹر پر کچھ لکھنے میں مصروف تھی
اس کے لئے سب چہرے انجان تھے
اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی اس سے مخاطب ہوئ
ہائے۔۔ میرا نام صدف ہے۔ تمہارا نام کیا ہے
ہیر اپنے خیالوں سے چونکی۔ رجسٹر سے نظر اٹھا کر خالی خالی نگاہوں سے صدف کی طرف دیکھا
چند ثانیے ایسے ہی اسے دیکھتی رہی
ہائے۔۔ ہیلو کہاں کھوئ ہو
صدف نے اسے بازو سے پکڑا اور آنکھیں سکیڑ کر اسکی آنکھوں میں جھانکا۔
آنکھوں میں شوخی۔ لہجہ شرارت سے بھر پور۔ ہیر مسکرا پڑی
ہاں ہاں کہیں نہیں کھوئ۔ بائ دا وے میرا نام ہیر ہے
ہائے۔ کسی رانجھا کی ہیر
صدف چہکنے لگی
ہیر کو اس کے انداز پر ہنسی آئ
کچھ ہی دیر میں وہ دو انجان ہستیاں ایک دوسرے کی سہیلیاں بن چکی تھیں
سائیکولوجی کے پانچویں سمیسٹر میں موجود شاہ میر اپنے فیلوز کے ساتھ مستی کر رہا تھا
ایسے میں صدام نے مشورہ دیا
کیوں نہ یار جا کر نیو کمرز کی کلاس لی جائے
سنا ہے فرسٹ سمیسٹر میں کمال کی لڑکیاں آئ ہوئ ہیں
حوریں ہیں حوریں
شاہ میر نے اسے کہنی ماری
تم باز نہ آنا اپنی چھچھوری حرکتوں سے
لڑکیوں کا سنتے ہیں تمہاری رال ٹپکنے لگتی ہے
پچھلی سیٹ پر بیٹھا قمر جو انکی باتیں سن رہا تھا
فوراً اپنی رائے پیش کرنے لگا
ہاں یار چل کر دیکھیں تو سہی
آج ذرا اچھے سے کلاس لیتے ہیں جونئیرز کی۔
اور کچھ ہی دیر بعد 10 بندوں پر مشتمل ٹیم تیار ہو چکی تھی
6 لڑکے اور 4 لڑکیاں اپنی کلاس سے نکلے اور فرسٹ سمیسٹر والوں کے روم کی طرف بڑھنے لگے
انداز ایسے تھا جیسے کہیں جنگ لڑنے جا رہے ہوں
آگے آگے قمر ، شاہ میر اور صدام چل رہے تھے
انکے پیچھے عظمیٰ اور رفیعہ
پیچھے پیچھے پھر زاہرا، عالیہ، راشد، اعظم اور ندیم۔
اور لمحوں میں ہی وہ فرسٹ سمیسٹر کے روم تک پہنچ گئے
قمر ، شاہ میر اور صدام تو سیدھے چلتے ہوئے کلاس کے فرنٹ پر کھڑے ہو گئے
عظمی اور رفیعہ تھوڑی سائیڈ پر رک گئیں
اور باقی کے سینئیرز ادھر ادھر پھیل گئے
ایسے جیسے اپنے شکار کو گھیرے میں لیا جا رہا ہو
نئے طلباء گھبراہٹ کا شکار تھے۔
وہ سمجھ چکے تھے ان کے ساتھ ریگنگ ہونے والی ہے
سینئرز کا انداز جارحانہ سا لگ رہا تھا
اور پھر باری باری ایک ایک کر کے جونئیرز کو اشارے سے اٹھ کر تعارف کرانے کا کہا گیا
اور پھر شاہ میر کی نگاہ ہیر سے ٹکرائ
آنکھوں سے آنکھیں ملیں
ہیر نے نگاہیں نیچے کر لیں اور شاہ میر کے دل میں ان نگاہوں کی تپش اپنا اثر ڈال چکی تھی
حجاب میں اس کا چہرہ بہت پیارا لگ رہا تھا
بالکل حور کی طرح
شاہ میر کو ہیر کا چہرہ کچھ شناسا محسوس ہوا تھا
ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اک مدت سے ہیر سے واقف ہو
کہیں دیکھا ہوا ہو۔
قمر کی نظر صدف پر تھی۔ وہ بار بار صدف کو دیکھ رہا تھا
آنکھیں مل رہی تھیں
دل مچل رہے تھے
ایسے میں سر رضوان کلاس روم میں داخل ہوئے
سینیرز کو دیکھا اور مسکرانے لگے
کیا بات ہے بھئ سب ادھر ہی ہو جاؤ اپنی کلاس میں
میں نے لیکچر لینا ہے
اور سب سینیرز ہنستے مسکراتے کلاس سے باہر نکلنے لگے
ان میں بس ایک سٹوڈنٹ گہری چپ میں تھا
اور وہ تھا شاہ میر

دن گزرتے رہے
سب کچھ معمول پر جاری رہا
سائیکولوجی ڈیپارٹمنٹ میں آتے جاتے اکثر شاہ میر کی نگاہیں ہیر سے ٹکراتی رہتی تھیں اور وہ دل میں اک حسرت سی لئیے اپنی کلاس کی طرف بڑھ جاتا تھا۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ کھنچاؤ کیوں ہے
ہیر کی ذات میں اس کیلیے اتنی کشش اسکی سمجھ سے بالاتر تھی
کبھی ان کا آپس میں تبادلہء خیال نہیں ہوا تھا۔
وہ جس کیفیت سے گزر رہا تھا شاید ہیر بھی اسی کیفیت کا شکار تھی
وہ کہیں تو ملے تھے
ان میں کوئ رشتہ ضرور تھا
لیکن کیا۔۔؟ کوئ نہیں جانتا تھا۔

جاری ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top