روحوں کا ملن
از قلم ساحر سمیع
قسط نمبر 04

یونیورسٹی کی بس سٹوڈنٹس سے بھری ہوئ تھی۔ سائیکولوجی ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ڈیپارٹمنٹ کے تمام سٹوڈنٹس کیلیے ایک ٹرپ رکھا گیا تھا
بس بہاولپور سے نکل کر مری کی طرف روانہ ہو چکی تھی۔ تمام سٹوڈنٹس پرجوش تھے
بات بات پر قہقہے گونج رہے تھے
مختلف گروپس چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں الگ الگ موضوع پر گفتگو کر رہے تھے
ایسے میں ہیر پچھلی سیٹوں پر موجود اپنی سہیلیوں کے ہمراہ بیٹھی کن انکھیوں سے شاہ میر کی طرف دیکھ رہی تھی
شاہ میر کی پشت اس کی جانب تھی
صدف کافی دیر سے ہیر کی حرکتوں کو نوٹ کر رہی تھی
بالآخر وہ بول پڑی
کیا بات ہے ہیر
کوئ پریشانی ہے؟
ہیر اس کی بات پر چونک اٹھی
اور پھر ہلکا سا زیر لب مسکرانے لگی
صدف اپنی سہیلی کی اس ادا پر ہنس پڑی
اے لڑکی ۔۔۔! کہیں عشق وشق تو نہیں ہو گیا نا
پاگل ہو یار۔۔ عشق اور مجھے
امپاسیبل۔۔ ہیر بھلا کہاں ہار ماننے والی تھی
ہاں ہاں جیسے میں کچھ جانتی نہیں ہوں
اپنے رانجھا کو چوری چوری جس نظر سے دیکھے جا رہی ہو نا سب سمجھتی ہوں میں
اس کی بات پرہیر جھینپ سی گئ
اس کے گال حیا سے لال ہو گۓ تھے
ایسے میں بس کو زور سے جھٹکا لگا اور ڈرائیور نے کمال مہارت سے بس کو سنبھالتے ہوئے بریک لگائے
چلتی ہوئ بس کے ٹائر اچانک برسٹ ہوئے
یہ کوئ سنسان راستہ تھا جس کے ارد گرد جنگل پھیلا ہوا تھا
ایسے میں بس کا پنکچر ہونا باعث تشویش تھا
دن بھی ڈھلنے لگا تھا اور یہاں کسی قسم کی مدد ملنا بھی ناممکن تھا
ڈرائیور نیچے اتر آیا اور بس کو سٹیپنی لگانے کی تیاری کرنے لگا
اس کی دیکھا دیکھی سٹوڈنٹس بھی بس سے نیچے اترنے لگے
سٹوڈنٹس کے ہمراہ آنے والے ٹیچر منصور علی نے تمام سٹوڈنٹس کو پاس ہی رہنے کی ہدایت کی
کیونکہ یہاں سے آگے پھر جنگل گھنا ہوتا جاتا تھا اور ایسے میں موذی جانوروں کا پایا جانا بعید از قیاس نہیں تھا
ڈرائیور سٹیپنی لگا کے بس کے ٹائرز چینج کر رہا تھا جب جنگل کی طرف سے کسی جانور کے غرانے کی آواز سنائ دی
سٹوڈنٹس ڈر کے مارے واپس بس میں سوار ہونے لگے
افراتفری پھیل گئ تھی
پھر ایک دم زور سے غراہٹ کی آواز آئ
بہت قریب سے کوئ درندہ تاک لگائے بیٹھا تھا
لڑکیاں دہشت کے مارے چیخنے لگیں
ڈرائیور بھی جلدی سے بس میں سوار ہو کر گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کرنے لگا
بس کی ونڈوز بند کر دی گئی تھیں
سٹوڈنٹس آیت الکرسی کا ورد شروع کر رہے تھے
سر منصور علی دہشت سے چیخیں مارتی گرلز کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے
پھر ایک تیندوا کہیں سے چھلانگ لگا کر بس کے قریب آپہنچا
اسکی آنکھوں مین میں وحشت صاف نظر آرہی تھی
انگارے کی مانند جلتی تیز آنکھیں
ایسے جیسے وہ کسی کو تلاش کر رہی ہوں
جسامت میں وہ تیندوا کافی بڑا تھا
لمحہ بہ لمحہ وہ بس کے قریب ہوتا جا رہا تھا
سٹوڈنٹس کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی
کچھ لڑکیاں دہشت سے بیہوش ہو چکی تھیں
کچھ ڈر کے ماتے تھر تھر کانپ رہی تھیں
بہت ہی ہیبت ناک منظر تھا
بوائز کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں تھی
سر منصور علی بچوں کو کیا سنبھالتے وہ خود شاک کی سی کیفیت میں تھے
ایسے میں بس سٹارٹ ہوئ اور ڈرائیور نے جلدی سے گئیر میں ڈالتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی
تیندوا اچھلا اور بس کی چھت پر سوار ہونے کی کوشش کی مگر گاڑی جس تیزی سے آگے بڑھی وہ ہوا میں ہی اچھلتا ہوا واپس زمین پر آ گرا
پھر اس نے جارحانہ انداز میں بس کا تعاقب شروع کر دیا
ایسے لگ رہا تھا وہ یہاں سے ان کو نکلنے نہیں دیگا
بس ڈرائیور اپنے فن میں استاد مانا جاتا تھا
اس نے اس رفتار سے گاڑی بھگائ، اپنے اوسان بحال رکھے ہوئے گاڑی کو سنبھالے رکھا اور تیندوے کو کافی پیچھے چھوڑ آیا
سب نے سکون کا سانس لیا
بیہوش ہوئے سٹوڈنٹس کو ہوش میں لایا جانے لگا
آگے آبادی شروع ہو رہی تھی
سورج مکمل غروب ہو چکا تھا اور ہر سو اندھیرا پھیل چکا تھا
گاڑی برق رفتار سے چلتی جنگل سے کافی دور نکل آئ تھی
اب سکون تھا۔۔ دہشت قدرے کم ہو چکی تھی
مگر یہ واقعہ سٹوڈنٹس کے ذہن کے پردے پر نقش ہو چکا تھا
آسانی سے بھولنے والا نہیں تھا
زندگی بھی عجیب چیز ہے
انوکھے انوکھے تجربات سے گزرتی رہتی ہے
لمحہ بہ لمحہ رنگ بدلتی ہے
یہ زندگی بڑی عجیب سی
کبھی گلزار سی کبھی بیزار سی
کبھی خوشی ہمارے ساتھ ساتھ
کبھی غموں کی برسات سی
یہ زندگی بڑی عجیب سی
کبھی طوفانوں میں بھی ہیں رستے
کبھی منزلوں کا پتہ نہیں
کبھی دو قدم پے زندگی
کبھی صدیوں تک انتظار سی
یہ زندگی بڑی عجیب سی
کبھی ہر پل امتحان ہے
کبھی بن مانگے انعام ہے
کبھی کچھ نہیں کبھی سب کچھ سی
یہ زندگی بڑی عجیب سی
کبھی گلزار سی کبھی بیزار سی
…………
مری کے خوبصورت مناظر میں ایک مسحور کن خوبصورتی کا اضافہ ہوا تھا
یہ خوبصورتی تھی ہیر کی ذات
معصوم سا پیکر اور دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ وہ اپنی فیلوز کے ساتھ انجوائے کر رہی تھی
کچھ فاصلے پر ٹھہرا ہوا شاہ میر ہاتھ میں چائے کا کپ لئیے ہیر کو گہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا
سٹوڈنٹس ادھر ادھر پھیلے ہوئے تھے سب اس وقت پرجوش تھے
سیلفیز لی جا رہی تھیں
یہ کارواں کچھ دیر کیلیے یہاں ٹھہرا ہوا تھا آگے پھر ایوبیہ جانے کا ارادہ تھا
قریب کے اسٹالز سے دھڑا دھڑ شاپنگ کی جا رہی تھی
ہر قہقہے گونج رہے تھے
وہ گزشتہ شام کا واقعہ بھول کر حال کو بھر پور طریقے سے جی رہے تھے
شاہ میر چلتا ہوا ہیر کے قریب پہنچا
ہیر اس کے ایسے قریب آنے سے گھبرا اٹھی تھی
صدف شاہ میر کو آتے دیکھ کر باقی گرلز کو وہاں سے دوسری طرف لے گئ تھی
ہیر اکیلی کھڑی اپنے حجاب کونے کو انگلیوں میں لپیٹنے لگی تھی
اسکے انداز میں ارتعاش تھا
دل تیزی سے دھڑک رہا تھا
شاہ میر اس کے بالکل سامنے آ کر ٹھہرا تھا
اسکی جھکی ہوئ آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا
ہائے ہیر۔۔۔ کیسی ہو
وہ گویا ہوا تھا
ہیر نظریں اٹھا کے اس کی طرف دیکھنے لگی تھی
نگاہوں سے نگاہیں مل چکی تھیں
آنکھیں جھپکنا بھول گئ تھیں
وہ دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کی آنکھوں میں کھوئے ہوئے تھے
بہت سکون تھا۔۔ ٹھہراؤ سا تھا
عشق نے اپنا کام کر دیا تھا
یہ سکون کچھ پل کا تھا
پھر سب تباہ ہونے والا تھا
امتحان در امتحان زندگی ان کا استقبال کرنے کیلئے تیار تھی
زندگی امتحان تو لیتی ہے نا
انکی زندگی میں بھی امتحان لکھے جا چکے تھے
عشق کے امتحان
جو سب کچھ جلا کر خاکستر کرنے والے تھے
پر سکون زندگی طوفان کی نذر ہونے والی تھی
جاری ہے