روحوں کا ملن
از قلم ساحر سمیع
قسط نمبر 05

وہ سب ٹرپ سے واپس آ چکے تھے
جنگل میں گزری وہ خوفناک شام اور پھر دن کے اجالے میں کی گئ مستیاں ، شرارتیں
اچھی اور بری یادیں زندگی کا حصہ ہیں
یونیورسٹی کے کیفیٹیریا میں بیٹھی ہیر اور صدف ٹرپ کے موضوع پر باتیں کر رہی تھیں
صدف باتوں باتوں میں شاہ میر کا ذکر لے آتی اور ہیر شرما کر رہ جاتی
شاہ میر کے ذکر پر اس کے گال لال ٹماٹر سے ہو جاتے تھے
ایسے میں انکی کلاس میٹ ستارہ ہاتھ میں نوٹس لئیے دوسرے ہاتھ سے چشمہ ٹھیک کرتے بوکھلائے ہوئے انداز میں نمودار ہوئ اور ادھر ادھر دیکھنے لگی
پھر ان دونوں پر نگاہ پڑتے ہی جھپٹنے کے سے انداز میں ان کے پاس پہنچی
ہائے ہیر۔۔ ہائے صدف
وہ گویا ہوتے ہو ئے کرسی گھسیٹنے لگی جس سے پیدا ہونے والی آواز سے کم از کم دس بندوں نے مڑ کر دیکھا
کیا ہوا ستارہ خیر تو ہے اتنی بوکھلائ ہوئ کیوں ہو
صدف کن انکھیوں سے ستارہ کو گھورتے ہوئے پوچھنے لگی
وہ کیا ہے نا۔۔۔ میڈم نے کل جو ٹیسٹ لینا ہے اس کے نوٹس نہیں مل رہے
تمہارے پاس ہوں تو مجھے دے دو میں کاپی کروا کر واپس کر دوں گی
کیا یار۔۔ ہر وقت پڑھاکو بنی رہتی کو
بندہ تھوڑا انجوائے کرتا ہے تم سٹڈی کو اتنا سیریس لیتی ہو جیسے یونیورسٹی ٹاپ کرنی ہو
صدف ہنستے ہوئے بولی اور اتنے میں کیفیٹیریا کے ویٹر ان کا آرڈر لینے پہنچ چکا تھا
انہوں نے اپنی اپنی پسند کا آرڈر دیا اور باتوں میں مشغول ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فٹ بال گراؤنڈ میں فٹ بال کھیل کر اب فارغ ہو چکے شاہ میر اور قمر پسینہ پونچھتےہوئے گراؤنڈ سے باہر نکلے اور کیفیٹیریا کی طرف بڑھنے لگے
شٹ یار قمر آج ہماری ٹیم نے اچھی پرفارمنس نہیں دکھائ
جیتی ہوئ گیم ہار چکے ہیں
شاہ میر جھنجھلائے ہوئے انداز میں کہا
قمر نے اسکے کندھے پر گردن کے پیچھے اپنا بازو رکھتے ہوئے کہا
کوئ بات نہیں یار ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے
اب اگلی باری جم کر کھیلیں گے چھکے چھڑادیں گے
ٹینشن نہ لو ہماری ٹیم اچھا کھیلی ہے بس تھوڑی بہت جو کوتاہی ہوئ وہ ٹھیک ہو جائے گی
مخالف ٹیم کا کپتان عدنان بہت ہی شاطر کھلاڑی تھا
وہ ہاری ہوئی بازی کو پلٹنے میں ماہر سمجھا جاتا تھا
اس نے شاہ میر کی ٹیم کی بس تھوڑی سی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بازی اپنے نام کر لی تھی جس کا شاہ میر کو بے حد افسوس ہو رہا تھا
دونوں چلتے ہوئے کیفیٹیریا میں داخل ہوئے اور خالی ٹیبل کی تلاش میں نظر دوڑانے لگے
اسی وقت صدف، ستارہ اور ہیر بھی فارغ ہو کر وہاں سے جانے لگی تھیں جب ایک اوباش سے نظر آنے والے لڑکے نے ہیر کے راستے میں ٹانگ اڑائ اور ہیر اچھل کر منہ کے بل فرش پر آگری
اس کے منہ سے چیخ کی آواز نکلی
ٹھیک اسی وقت شاہ میر کے منہ پر جیسے قیامت سی گزری ہو
اسے ایسے محسوس ہوا کسی نے زور دار ہتھوڑا اس کے منہ پر دے مارا ہو
تکلیف سے وہ دوہرا ہوا اور اس کے منہ سے خون کے قطرے نکلنے لگے
کیسے احساسات تھے
چوٹ ایک کو لگ رہی تھی اثر دوسرے پر ہو رہا تھا
قمر حیران و پریشان سا کھڑا کبھی شاہ میر کو دیکھ رہا تھا کبھی کچھ فاصلے پر فرش پر گری ہیر کی طرف دیکھتا
وہ اوباش لڑکا ہیر کو گرانے کے بعد قہقہے لگاتا وہاں سے رفو چکر ہو چکا تھا
صدف نے ہیر کو سہارا دے کر اٹھایا
اس کے منہ سے اور ناک سے خون بہہ رہا تھا اور وہ درد سے کراہ رہی تھی
شاہ میر سنبھل چکا تھا اور اس کی نگاہ بھی اب ہیر پر پڑ چکی تھی
دونوں کی حالت ایک دوسرے سے مختلف نہ تھی
دونوں اشک زدہ آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھے جا رہے تھے
ان کے اب تک کے احساسات اب یکجا ہونے لگے تھے
ان کی ایک دوسرے کو محسوس کرنے والی ایک دوسرے کا درد سمجھنے والی حس جاگ اٹھی تھی
یہی وہ وقت تھا جب بازنتوش کو اشارہ مل چکا تھا کہ اس کی مطلوب دونوں ہستیاں اس وقت بہاولپور میں کسی مقام پر ایک جگہ پر موجود ہیں
اس سے پہلے اسے اشارہ ملا تھا کہ مری سے کچھ فاصلے پر یہ انوکھا جوڑا کسی یونیورسٹی بس میں ایک ساتھ ٹریول کر رہا ہے
اس نے اپنی طاقتوں سے چیتے کا روپ دھار لیا تھا اور فوراََ بس کے راستے پر پہنچ گیا تھا
اس سے دور کچھ فاصلے پر بونے سپاہی درختوں پر چڑھے ارد گرد کا جائزہ لے رہے تھے جب انہیں بس سپیڈ سے آتی نظر آئ تھی
تیر کمان روڈ کے ارد گرد پھیلے بس کو روکنے کا انتظام کرنے لگے تھے
انکے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی کمانیں تھیں اور ترکش میں چھوٹے چھوٹے سے تیر موجود تھے
جیسے ہی بس قریب پہنچی انہوں نے ٹائرز کا نشانہ باندھ کر تیر چلا دئیے تھے
بس کے ٹائر برسٹ ہوتے ہی انہوں نے مخصوص آوازوں کے ذریعے بازنتوش کو با خبر کیا تھا اور وہ اب اپنی پوری طاقت سے بس کے مسافروں سے ٹکر لینے کو تیار ہو چکا تھا
کافی دیر تو جھاڑیوں میں چھپ کر انکی حرکات و سکنات کا جائزہ لیتا رہا تھا جب اسے لگا حملے کیلئیے بہتر وقت ہے تب تک شاید مسافروں کو خطرے کی بھنک پڑ چکی تھی
بس ڈرائیور جس کمال مہارت سے ممکنہ خطرے سے نمٹتے ہوئے ان سب مسافروں کو بچا لے گیا تھا وہ قابل داد تھا
چیتے کے روپ میں موجود بازنتوش اپنی ناکامی پر پیچ و تاب کھا کر رہ گیا تھا اور اپنا غصہ ان بونوں پر اتارنے لگا تھا
وہ سب مجبوری میں اور ڈر کی وجہ اس کا ساتھ دے رہے تھے ورنہ دل سے اس کے خلاف تھے
بازنتوش کیلیے یہ بہت بڑا مسئلہ تھا کہ وہ اس جوڑے کو جانتا نہیں تھا
دوسرا جب تک وہ جوڑا ایک ساتھ نہ ہوتا تب بھی وہ ان کو کھوجنے سے قاصر تھا
جب دونوں ہی انوکھی طاقت رکھنے والے انسان ایک دوسرے کے آس پاس ہوتے تب ہی وہ ان کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو سکتا تھا
اور اس بار وہ پورے غیض و غضب کے ساتھ ان کی تلاش میں نکل چکا تھا
اس نے ان کی تلاش کیلئے اپنی ساری طاقت صرف کر دینے کا ارادہ کر لیا تھا
جاری ہے