روحوں کا ملن
از قلم ساحر سمیع
قسط نمبر 11
بونوں کا لشکر شاہ میر اور ہیر کو پتھریلی وادی کے بیچوں بیچ گھسیٹتا ہوا ایک پراسرار غار کی طرف لے جا رہا تھا۔
انکے سردار نے انہیں خیموں کی طرف لانے کی بجائے ایک ایسی غار کی طرف لیمے جانے کا کہا تھا جو انکے خیال میں بازنتوش سے خفیہ تھی
غار کے اندر کا ماحول تاریک اور سرد تھا، جہاں جگہ جگہ عجیب سی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ ان روشنیوں کا ذریعہ کچھ مخصوص پتھر تھے جو غار کی دیواروں میں جڑے ہوئے تھے، اور ان سے عجیب سی توانائی خارج ہو رہی تھی۔
بونوں کا سردار اپنی قوم سے بہت مختلف تھا۔ عام بونوں کے مقابلے میں اس کا قد لمبا تھا، اور اس کی آنکھیں سرخ شعلوں کی مانند چمک رہی تھیں۔ وہ شاہ میر اور ہیر کی طرف دیکھ کر مطمئن انداز میں مسکرایا۔
اس نے شاہ میر اور ہیر کو بازنتوش کے حوالے کرنے کی بجائے ایک اور منصوبہ بنا لیا تھا
“یہ دونوں ہمارے لیے خزانہ ثابت ہوں گے،” اس نے اپنی کرخت آواز میں کہا۔
“مگر سردار، یہ انسان ہیں، ان سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟” ایک بونے نے سوال کیا۔
سردار نے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔
“تمہیں کچھ نہیں معلوم۔ یہ دونوں خاص ہیں۔ ان کے اندر وہ طاقت ہے جسے ہم صدیوں سے تلاش کر رہے ہیں۔ اس طاقت سے ہماری نسل کو ناقابل شکست بنایا جا سکتا ہے۔”
شاہ میر اور ہیر کو غار کے ایک کونے میں زنجیروں سے باندھ دیا گیا ۔
یہ۔ ایک ہی لمبی سی زنجیر تھی جو انہوں نے ماہرانہ انداز میں شاہ میر اور ہیر کے گرد کس کر بل دئیے تھے اور باقی کے سرے غار کی دیواروں سے منسلک کر دئیے تھے
بونوں نے اردگرد جادوئی تعویذات لگا دیے تاکہ کوئی ان کو آزاد نہ کرا سکے۔
بازنتوش، شیطان کے سامنے اپنی ناکامی پر گڑگڑانے کے بعد اب خود کو سنبھال چکا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ شاہ میر اور ہیر کو دوبارہ قابو میں کرے گا، مگر اس بار وہ زیادہ چالاکی سے کام لے گا۔
بازنتوش نے ایک اور طاقتور شیطانی عفریت، زارلوس، سے مدد طلب کی۔ زارلوس، وسوسے ڈالنے اور انسانوں کے ذہنوں کو قابو کرنے میں ماہر تھا۔ بازنتوش نے اپنی پوری کہانی سنائی، اور زارلوس نے مکاری سے مسکرا کر کہا،
“یہ کام تمہارے لیے مشکل ہو سکتا ہے، لیکن میرے لیے نہیں۔ ہم ان کی روحوں کو توڑ کر ان پر حکمرانی کریں گے۔”
ادھر غار میں، ہیر کو ہوش آنے لگا۔ اس کے جسم پر خراشیں تھیں، اور زنجیروں کا بوجھ اسے مزید تکلیف دے رہا تھا۔ مگر اس کی آنکھوں میں خوف کی جگہ ایک عجیب سی ہمت دکھائی دے رہی تھی۔
“شاہ میر!” اس نے آہستہ سے پکارا، مگر شاہ میر بے ہوش تھا۔
ہیر نے اردگرد کا جائزہ لیا۔ اس نے بونوں کی موجودگی محسوس کی، جو دور کھڑے آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔ وہ جانتی تھی کہ اسے یہاں سے نکلنے کے لیے اپنی عقل کا استعمال کرنا ہوگا۔
جب ہیر شاہ میر کو جگانے کی کوشش کر رہی تھی، تبھی غار کی دیواروں سے ایک گہری سرگوشی سنائی دی۔ یہ زارلوس کی آواز تھی، جو شاہ میر کے دل و دماغ میں وسوسے ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا۔
“شاہ میر، تم ہار چکے ہو۔ تم نے اپنی محبت اور ایمان کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اب تم کبھی نہیں بچ سکتے۔”
مگر زارلوس کو یہ احساس نہیں تھا کہ شاہ میر کی روح کتنی مضبوط تھی۔ اس کی ایمانی طاقت نے ان وسوسوں کو رد کر دیا، اور وہ آہستہ آہستہ ہوش میں آنے لگا۔
شاہ میر نے جب ہیر کو زنجیروں میں دیکھا، تو اس کی آنکھوں میں غصے اور محبت کی چمک پیدا ہوئی۔ وہ اپنے اندر ایک طاقت محسوس کر رہا تھا، جیسے کوئی غیبی مدد اس کے قریب ہو۔ اس نے زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کی مگر بے سود
پھر اس نے گہرائ سے جائزہ لینا شروع کیا تو اسے احساس ہوا کہ زنجیریں موٹے موٹے کیلوں کی مدد سے دیوار میں گڑی ہوئ تھیں اور کچھ ہمت اور طاقت کا مظاہرہ کر کہ وہ آزاد ہونے کی کوشش کر سکتے تھے
یہ جان کر وہ زور زور سے زنجیروں کو جھٹکے دینے لگا
دور کھڑے بونے اسکی حالت پر ہنسنے لگے
مگر چند لمحوں بعد جب کیل دیوار سے اکھڑنے لگےتو شاہ میر اور ہمت کے ساتھ زنجیر کو جھٹکنے لگا
بونے یہ دیکھ کر بوکھلا گئے۔
“یہ کیسے ممکن ہے؟” سردار جو زنجیروں کی آواز سن کر اس طرف آ نکلا تھا زور سے چیخا۔
شاہ میر نے سردار کی طرف دیکھا اور کہا،
“یہ میری نہیں، میرے ایمان کی طاقت ہے۔”
اس کے ساتھ ہی پورے جوش کے ساتھ اس نے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے زنجیر کو جھٹکا دیا اور وہ کیلوں سمیت اکھڑ کر نیچے آ گری جس سے شاہ میر اور ہیر آزاد ہو چکے تھے
شاہ میر کی ایمانی طاقت سے غار لرزنے لگا۔ وہ پتھر جو روشنی خارج کر رہے تھے، پھٹنے لگے، اور غار میں افرا تفری مچ گئی۔ بونے بھاگنے لگے، مگر سردار غصے میں چیختا رہا۔
“کھیل ابھی ختم نہیں ہوا، آدم زاد! تم دونوں کو ہم جیتنے نہیں دیں گے!”
شاہ میر نے ہیر کا ہاتھ پکڑا اور اسے باہر کی طرف لے جانے لگا۔ مگر غار کا دروازہ ایک بار پھر بند ہونے لگا۔
“ہمیں جلدی کرنی ہوگی،” شاہ میر نے کہا۔
ہیر نے اس پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی باقی ہمت جمع کی، اور دونوں غار کے باہر کی طرف بھاگنے لگے۔
باہر نکلتے ہی، زارلوس اور بازنتوش نے ان کا راستہ روک لیا۔
“کہاں جا رہے ہو؟ یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا،” زارلوس نے مکروہ ہنسی کے ساتھ کہا۔
شاہ میر نے مضبوطی سے ہیر کا ہاتھ تھامے رکھا اور اللہ کا نام لے کر زارلوس کی طرف بڑھا۔
“تمہارے کھیل ختم ہو چکے ہیں، شیطان! میرا ایمان تمہیں کبھی جیتنے نہیں دے گا۔”
زارلوس نے بازنتوش کی طرف اشارہ کیا، اور دونوں نے اپنے جادو سے شاہ میر اور ہیر کو ایک جال میں پھنسانے کی کوشش کی۔ مگر اس بار شاہ میر کی روحانی طاقت اپنے عروج پر تھی۔
ہیر کے ساتھ نے اسکی روح کو بھی ایک ناقابل شکست طاقت میں تبدیل کر دیا تھا
ایک پختہ عزم اسکی قہر برساتی آنکھوں سے جھانک رہا تھا
………………….
یونیورسٹی سے بات نکل کر پورے شہر میں پھیل چکی تھی
یکے بعد دیگرے یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس غائب ہو رہے تھے
پولیس کو شاہ میر کی بائیک جنگل کے قریب ملی تھی، مگر اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی ٹھوس سراغ نہیں تھا۔ تفتیشی ٹیم جنگل میں بھی گئی، لیکن وہاں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکا۔ ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا، اور جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے تھے، معاملہ مزید پراسرار ہوتا جا رہا تھا ۔
یونیورسٹی میں پھیلی خوف کی فضا اور سٹوڈنٹس کے مسلسل غائب ہونے کے بعد شہر کے لوگ بھی اضطراب میں مبتلا ہو چکے تھے
ہر ایک کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا
آخر کون ہے اس سب کے پیچھے؟
کہاں جا رہے ہیں یہ سٹوڈنٹس
پہلے یونیورسٹی کے ایک لڑکے کا اغوا ہونا اور زخمی حالت میں ملنا
پھر ہاسٹل سے ہیر نامی لڑکی کا پراسرار طریقے سے غائب ہو جانا
اس کے بعد شاہ میر کا غائب ہونا اور اس کی بائک کا جنگل سے برامد ہونا
معاملہ پراسرار ہوتا جا رہا تھا
ہر جگہ انہی واقعات کی چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں، اور پولیس اپنی بھرپور کوشش کے باوجود کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہی تھی۔
یونیورسٹی میں غیر معینہ مدت تک کیلئیے چھٹی کر دی گئ تھی اور ہاسٹل کو تو پوری طرح سیل کر دیا گیا تھا جہاں سے ہیر غائب ہوئ تھی
تفتیشی ٹیم اپنی کھوج جاری رکھے ہوئے تھی
ایک طرف قمر اپنے جگری دوست کیلئے بے حد پریشان تھا وہیں صدف بھی ہیر کو لیکر گم سم سی ہو گئ تھی
ایسے میں یہ دونوں ساتھ نظر آنے لگے تھے اور اپنے اپنے طریقوں سے ان دونوں کو ڈھونڈنے کی پوری کوشش کر رہے تھے
یونیورسٹی بند ہونے کے بعد صدف تو ہاسٹل سے گھر واپس جانے کی بجائے اسی شہر میں اپنی ایک دور کی رشتے دار کے گھر شفٹ ہو گئ
اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس معمے کو سلجھانے میں قمر کی مدد کرے گی۔ اس لئیے وہ قمر کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھی
جبکہ قمر اپنے تعلق استعمال کر کے کسی اور جگہ رہائش پذیر ہو گیا تاکہ وہ شاہ میر کا پتہ چلا سکے
قمر نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ خود جنگل جائے گا اور وہاں کی صورتحال کا جائزہ لے گا۔ اس نے ایک رات اپنی موٹر بائیک لی اور جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔ جنگل میں داخل ہونے کے بعد اس نے ایک عجیب سی سرد لہر محسوس کی، جیسے وہاں کوئی پوشیدہ قوت موجود ہو۔
قمر نے اپنی ٹارچ جلائی اور اردگرد دیکھنے لگا۔ وہاں کی خاموشی ناقابل برداشت تھی۔ اچانک اسے زمین پر کچھ نشان نظر آئے، جیسے کسی کو گھسیٹ کر لے جایا گیا ہو۔
ان نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے قمر ایک چھوٹے سے خفیہ کمرے تک پہنچا، جو زمین کے نیچے بنا ہوا تھا۔ کمرے کا دروازہ لوہے کا تھا اور اس پر کچھ عجیب و غریب نشان بنے ہوئے تھے۔ قمر نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، مگر وہ بند تھا۔
تبھی اسے اندر سے کسی کے کراہنے کی آواز آئی۔
“کون ہے؟” قمر نے بلند آواز میں کہا، مگر جواب میں صرف خاموشی تھی
قمر نے صدف کو فون کیا اور اسے اس پراسرار کمرے کے بارے میں بتایا۔ صدف نے اسے محتاط رہنے کی تاکید کی اور کہا کہ وہ جلد از جلد وہاں پہنچنے کی کوشش کرے گی۔
قمر نے اسے وہاں کی لوکیشن بھیج دی اور احتیاط کے ساتھ پہنچنے کا کہا
اچانک دروازہ خودبخود کھل گیا۔ قمر نے ہچکچاتے ہوئے اندر قدم رکھا۔ اندر کا منظر اسے حیران کر دینے والا تھا۔ وہاں دیواروں پر مختلف قسم کے تعویذات لگے ہوئے تھے، اور کمرے کے وسط میں ایک میز پر کچھ کتابیں اور پرانے کاغذات رکھے تھے۔
قمر نے کاغذات کا جائزہ لیا تو اسے ایک تصویر ملی، جس میں شاہ میر اور ہیر کی شکل بنی تھی اور نام تحریر تھے۔ تصویر کے نیچے کچھ عجیب الفاظ لکھے تھے جو وہ سمجھ نہیں سکا۔
اسی دوران، کمرے کے ایک کونے سے ایک خوفناک سایہ نمودار ہوا، جو تیزی سے قمر کی طرف بڑھنے لگا۔ قمر خوف کے مارے پیچھے ہٹا، مگر سایہ اس کے قریب آتا گیا۔
……………….
صدف نے فوراً پولیس کو اطلاع دی اور جنگل کی طرف روانہ ہو گئی۔
اس نے بار بار قمر کا نمبر ملایا مگر قمر اسکی کال رسیو نہیں کر رہا تھا
وہ دیوانہ وار قمر کو ادھر ادھر ڈھونڈنے لگی اور اس کا نمبر ڈائل کرتی رہی
بالآخر وہ قمر کی بھیجی لوکیشن پر اس کمرے تک پہنچ گئ
جب وہ کمرے کے قریب پہنچی تو وہاں قمر کمرے کے باہر بے ہوش پڑا تھا جبکہ کمرے کا دروازہ بند تھا
صدف اسے ہوش میں لانے لگی اور کچھ ہی دیر بعد قمر آنکھیں مسلتے اٹھ بیٹھا تھا
“یہ کیا تھا، قمر؟ کیا تم نے کچھ دیکھا؟” صدف نے پریشانی سے پوچھا۔
قمر نے ہوش میں آتے ہی کہا،
“یہاں کچھ ہے، صدف! شاہ میر اور ہیر یہی کہیں ہیں، مگر ہمیں جلدی کرنا ہوگی۔”
پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی کمرہ غائب ہو چکا تھا اور قمر اور صدف ہکے بکے وہاں کھڑے ہوئے تھے
کمرے والی جگہ زمین بالکل ہموار تھی، جیسے وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔
قمر اور صدف نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
“یہ صرف آغاز ہے، صدف۔ ہمیں ان دونوں کو بچانا ہوگا، چاہے کچھ بھی ہو جائے،” قمر نے عزم سے کہا۔
وہ۔ دونوں نہیں جانتے تھے کہ وہ شاہ میر اور ہیر سے کوسوں دور ایک نئ افتاد کا شکار ہونے والے تھے
ایک نئ مصیبت ان کو درپیش تھی جس کا جال بہت سوچ سمجھ کر بچھایا جا چکا تھا
پولیس کی تفتیشی ٹیم نے ان دونوں سے تھوڑی بہت بازپرس کی اور پھر انہیں وہاں سے جانے کی اجازت مل گئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے…)
