روحوں کا ملن
از قلم ساحر سمیع
قسط نمبر 13
قمر اور صدف شہر کے مشہور کیفیٹیریا میں بیٹھے بات کر رہے تھے
پریشانی ان کے چہرے سے صاف عیاں ہو رہی تھی
ان دونوں کے ذہن میں ایک ہی سوال گونج رہا تھا: “آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟”
قمر نے اپنی جیب سے وہ تصویر نکالی جو اس نے کمرے سے اٹھائی تھی۔ تصویر میں شاہ میر اور ہیر کے چہرے واضح تھے، اور نیچے لکھے گئے عجیب الفاظ اسے پریشان کر رہے تھے۔
“یہ الفاظ کوئی عام زبان میں نہیں ہیں،” قمر نے کہا۔
صدف نے تصویر کو غور سے دیکھا اور کہا،
“یہ شاید کوئی قدیم زبان ہے۔ ہمیں کسی ماہر سے رابطہ کرنا ہوگا جو ان الفاظ کو سمجھ سکے۔”
قمر نے شہر کے ایک قدیم کتب خانے کے بارے میں سنا تھا، جہاں کے لائبریرین کو پراسرار زبانوں اور جادوئی علوم کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ وہ فوراً وہاں جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
کتب خانے پہنچ کر ان کی ملاقات ایک بوڑھے لائبریرین، “بابا ظفر” سے ہوتی ہے۔ بابا ظفر نے تصویر دیکھتے ہی چونک کر کہا،
“یہ الفاظ ایک قدیم جادوئی رسم کے ہیں۔ یہ رسم شیطانی طاقتوں کو قابو میں کرنے اور انسانی روحوں کو قربان کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔”
“مگر اس میں شاہ میر اور ہیر کا کیا کردار ہے؟” صدف نے بےچینی سے پوچھا۔
بابا ظفر نے سنجیدگی سے کہا،
“یہ دونوں شاید اس رسم کے لیے منتخب کیے گئے ہیں۔ ان کی روحیں اس جادو کو مکمل کرنے کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہیں۔”
بابا ظفر نے مزید بتایا کہ ان الفاظ کو رد کرنے کے لیے ایک قدیم دعا کی ضرورت ہوگی، جو صرف “نورانی کتاب” میں درج ہے۔
“یہ کتاب کہاں مل سکتی ہے؟” قمر نے جلدی سے پوچھا۔
“یہ کتاب ایک خفیہ مقام پر محفوظ ہے، جو اسی جنگل کے اندر ہے جہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہے،” بابا ظفر نے جواب دیا۔
قمر اور صدف نے بابا ظفر کی رہنمائی میں نورانی کتاب کی تلاش شروع کی۔ جنگل کے اندر ایک قدیم مندر کے آثار تھے، جہاں بابا ظفر نے بتایا کہ کتاب محفوظ ہو سکتی ہے۔
قمر، صدف، اور بابا ظفر نے نورانی کتاب کی تلاش کا فیصلہ کیا۔ بابا ظفر نے ان دونوں کو خبردار کیا کہ یہ کوئی عام کام نہیں ہوگا۔
“مندر کے قریب خطرناک سانپوں کا بسیرا ہے، جو اس جگہ کی رکھوالی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہاں ایک قدیم قبیلے کی باقیات اور ان کے بچھائے ہوئے جال بھی ہو سکتے ہیں۔ تمہیں بہت محتاط رہنا ہوگا،” بابا ظفر نے کہا۔
رات کے وقت وہ تینوں جنگل کے اندر گہرائی کی طرف روانہ ہوئے۔ بابا ظفر نے ایک خاص تعویذ دیا، جو انہیں شیطانی طاقتوں اور جادوئی اثرات سے محفوظ رکھ سکتا تھا۔
“یہ تعویذ تمہیں منفی طاقتوں سے بچائے گا، لیکن یاد رکھو، مندر کے قریب پہنچتے ہی یہ تعویذ اثر کھو سکتا ہے۔ وہاں تمہیں اپنے حوصلے پر بھروسہ کرنا ہوگا،” بابا ظفر نے تنبیہ کی۔
جنگل کے اندر بڑھتے ہوئے انہیں عجیب و غریب آوازیں سنائی دینے لگیں۔ جیسے ہی وہ مندر کے قریب پہنچے، ایک ٹھنڈی لہر اور عجیب سی خاموشی پورے علاقے پر چھا گئی۔
مندر کے دروازے کے پاس پہنچتے ہی قمر نے اپنی ٹارچ کی روشنی میں زمین پر حرکت محسوس کی۔
“یہ کیا ہے؟” صدف نے دھیرے سے پوچھا۔
قمر نے روشنی بڑھائی تو انہوں نے دیکھا کہ دروازے کے قریب سینکڑوں سانپ لہرا رہے تھے۔ یہ سانپ معمولی نہیں تھے۔ ان کے جسموں پر عجیب و غریب نشانات تھے، جو جادوئی معلوم ہوتے تھے۔
بابا ظفر نے ایک پاؤڈر نکالا اور سانپوں کی طرف پھینکتے ہوئے زیرلب کچھ پڑھا۔ کچھ لمحوں کے لیے سانپ پیچھے ہٹ گئے، اور وہ تینوں مندر کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
مندر کے اندر دیواروں پر قدیم قبیلے کی تصویریں اور نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ ان میں شیطانی رسومات، قربانیاں، اور ایک طاقتور کتاب کی تصویر نمایاں تھی۔
“یہی وہ کتاب ہے، نورانی کتاب، جو یہیں کہیں چھپی ہوئی ہے،” بابا ظفر نے کہا۔
قمر اور صدف نے دیواروں پر موجود نقشوں کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ ان میں ایک خفیہ کمرے کا ذکر تھا، جو مندر کے نیچے موجود تھا۔ کچھ دیر ڈھونڈنے کے بعد وہ خفیہ کمرے کے دروازے پر پہنچ چکے تھے
جیسے ہی وہ خفیہ کمرے کے دروازے کے قریب پہنچے، ایک خوفناک سایہ اچانک نمودار ہوا۔ وہ سایہ انسانی شکل کا تھا، لیکن اس کی آنکھیں سرخ انگارے کی طرح دہک رہی تھیں، اور اس کے ہاتھوں سے دھواں نکل رہا تھا۔
“تم یہاں کیا کر رہے ہو؟” سایہ گونجتی ہوئی آواز میں بولا۔
قمر نے ہمت جمع کرتے ہوئے کہا،
“ہم نورانی کتاب لینے آئے ہیں، تاکہ ان معصوم لوگوں کو بچا سکیں جنہیں تم جیسے شیطانوں نے قید کر رکھا ہے!”
سایہ زوردار قہقہہ لگا کر بولا،
“یہ کتاب تمہیں کبھی نہیں ملے گی۔ اگر تم نے کوشش کی، تو یہیں دفن ہو جاؤ گے!”
صدف نے جلدی سے بابا ظفر کو کہا،
“کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ ہم اس سایے کو روک سکیں؟”
بابا ظفر نے جواب دیا،
“یہ سایہ اس جگہ کی حفاظت پر مامور ہے۔ ہمیں ہمت و حوصلے سے اس کا سامنا کرنا ہوگا۔”
بابا ظفر نے جیب سے ایک قدیم پتھر نکالا، جس پر کچھ جادوئی الفاظ کندہ تھے۔ اس پتھر کو دیکھتے ہی سایہ پیچھے ہٹنے لگا۔
“یہ پتھر نورانی کتاب کی چابی ہے،” بابا ظفر نے کہا۔
پتھر کو خفیہ کمرے کے دروازے پر لگاتے ہی دروازہ آہستہ آہستہ کھلنے لگا۔ اندر ایک میز پر نورانی کتاب رکھی ہوئی تھی۔ کتاب کے اردگرد روشنی کا ہالہ تھا، جو اسے چھونے سے روکتا تھا۔
“یہ کتاب لینا آسان نہیں ہوگا،” بابا ظفر نے کہا۔
“ہمیں اس روشنی کو ختم کرنے کے لیے ایک خاص منتر پڑھنا ہوگا ۔ لیکن یاد رکھو، جیسے ہی روشنی ختم ہوگی، سایہ دوبارہ حملہ کرے گا۔”
قمر اور صدف نے بابا ظفر کا بتایا ہوا منتر پڑھنا شروع کیا۔ سایہ ان پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن بابا ظفر کے دئیے ہوئے تعویذ کی طاقت نے اسے روکے رکھا۔
منتر مکمل ہوتے ہی روشنی کا ہالہ ختم ہو گیا، اور قمر نے جلدی سے کتاب اٹھا لی۔
جیسے ہی انہوں نے کتاب اٹھائی، مندر لرزنے لگا، اور دیواروں سے پتھر گرنے لگے۔ سایہ ایک بار پھر نمودار ہوا، لیکن اس بار وہ اور بھی زیادہ طاقتور تھا۔
“یہاں سے بھاگو!” بابا ظفر نے چیخ کر کہا۔
قمر، صدف، اور بابا ظفر جلدی سے مندر سے باہر نکلے، لیکن سایہ ان کے پیچھے پیچھے تھا
جنگل سے نکلتے ہی سایہ رک گیا، جیسے وہ جنگل کی حدود سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔
“ہم نے کتاب حاصل کر لی ہے، لیکن یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ہمیں ان رسومات کو روکنے اور شاہ میر اور ہیر کو بچانے کے لیے کتاب کا استعمال کرنا ہوگا،” بابا ظفر نے کہا
نورانی کتاب کے ساتھ قمر، صدف، اور بابا ظفر ایک محفوظ مقام پر پہنچے۔ بابا ظفر نے کتاب کو احتیاط سے کھولا۔ اندر سنہری اور چمکتے ہوئے صفحات پر قدیم الفاظ درج تھے، جنہیں دیکھتے ہی بابا ظفر کا چہرہ سنجیدہ ہو گیا۔
کتاب کے ابتدائی صفحات پر درج تحریروں کو پڑھ کر بابا ظفر نے بتایا:
“یہ ایک شیطانی رسم ہے جسے مکمل کرنے کے لیے دو خاص روحوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ شاہ میر اور ہیر کو اسی مقصد کے لیے قید کیا گیا ہے۔ اگر یہ رسم مکمل ہو گئی، تو دنیا میں ایک نہایت طاقتور اور خوفناک شیطانی قوت آزاد ہو جائے گی۔ ہمیں فوراً رسومات کو روکنا ہوگا!”
قمر اور صدف کو یہ سن کر مزید بے چینی ہونے لگی۔
“لیکن یہ رسم کہاں اور کیسے ہو رہی ہے؟” صدف نے پوچھا۔
بابا ظفر نے کہا،
“کتاب کے مطابق، یہ رسم اسی جنگل کے ایک اور خفیہ مقام پر ہو رہی ہے، جو مندر کے پیچھے ایک پراسرار غار میں واقع ہے۔”
قمر اور صدف نے غار کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔ بابا ظفر نے انہیں خبردار کیا:
“غار میں شیطانی طاقتوں کے جال بچھے ہوں گے۔ ہمیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا
وہ تینوں دوبارہ جنگل میں روانہ ہوئے۔ اس بار ماحول پہلے سے بھی زیادہ خوفناک تھا۔ راستے میں انہیں عجیب و غریب آوازیں اور سایے محسوس ہو رہے تھے، لیکن بابا ظفر کے تعویذ نے انہیں بچائے رکھا۔
غار کے دروازے پر پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ وہاں دو قدیم ستون تھے، جن پر عجیب و غریب علامتیں بنی ہوئی تھیں۔ بابا ظفر نے کوئ منتر پڑھا جس سے دروازہ آہستہ آہستہ کھلنے لگا۔
غار کے اندر مکمل تاریکی تھی، لیکن ایک ہلکی سی روشنی دور کہیں نظر آ رہی تھی۔
“یہ روشنی اسی جگہ سے آ رہی ہے جہاں رسم ہو رہی ہے،” بابا ظفر نے کہا۔
غار کے اندر وہ ایک بڑے ہال میں پہنچے، جہاں جگہ جگہ جال بچھے ہوئے تھے۔ دیواروں پر خون سے بنے نقش و نگار تھے، اور زمین پر شیطانی علامتیں کھینچی ہوئی تھیں۔
آخر کار وہ اس مقام پر پہنچ گئے جہاں شیطانی رسم ہو رہی تھی۔ ایک بڑے پتھر کی میز پر ہیر بے ہوش حالت میں پڑی تھی
شاہ میر وہاں نظر نہیں آرہا تھا،
ہیر کے اردگرد شعلے جل رہے تھے، اور ایک سایہ نما ہستی کچھ الفاظ پڑھ رہی تھی۔
“یہی وہ ہے جو رسم مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے!” بابا ظفر نے کہا۔
سایہ ان پر حملہ کرنے کے لیے لپکا۔ قمر نے ایک مشعل اٹھا کر سایے کو روکنے کی کوشش کی، لیکن وہ اس کے قریب آ گیا۔
“بابا ظفر نے کچھ پڑھ کر پھونک ماری تو سایہ چیخنے لگا، اور شعلے دھیرے دھیرے کم ہونے لگے۔
بابا ظفر نے قمر اور صدف کو کہا کہ وہ میز کے قریب جائیں اور ہیر کو ہوش میں لانے کی کوشش کریں۔
صدف جلدی سے ہیر کی طرف بڑھی اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگی
وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ وہ ایک خطرناک جال میں پھنس چکے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی صدف نے ہیر کو ہوش میں لانے کی کوشش کی، بابا ظفر نے نورانی کتاب بند کر دی اور زور سے قہقہہ لگایا۔
“تم سب احمق! یہ سب میری چال تھی!” اس کی آواز گونجی، اور اس کا چہرہ ایک خوفناک شکل میں بدلنے لگا۔
وہ شیطانی عفریت زارلوس تھا
جو دھوکے سے صدف اور قمر کو یہاں لیکر آیا تھا
تاکہ شاہ میر اور ہیر کے جذبات کو بھڑکا کر اپنا فائدہ حاصل کر سکے
قمر اور صدف حیرت اور خوف سے گنگ ہو کر زارلوس کو دیکھ رہے تھے
کچھ ہی دیر بعد بازنتوش بھی وہاں پہنچ گیا
بازنتوش نے نورانی کتاب کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور کہا:
“یہ کتاب میرے لیے سب سے بڑی طاقت کا ذریعہ ہے۔ تم لوگوں کو یہاں لانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ تمہاری موجودگی میں رسم مکمل کی جا سکے۔ شاہ میر اور ہیر کی روحیں مجھے ناقابلِ شکست بنا دیں گی، اور اس دنیا پر میرا راج ہوگا!”
قمر نے جلدی سے صورتحال کو سمجھا اور صدف کو اشارہ کیا۔
“صدف، ہمیں کچھ کرنا ہوگا!” قمر نے دھیمی آواز میں کہا۔
صدف نے ہیر کو چھوڑ کر قمر کے قریب آ گئی۔ دونوں نے ایک منصوبہ بنایا۔
بازنتوش نے اپنی رسومات شروع کرنے کے لیے کتاب کھولی۔ وہ کچھ عجیب و غریب الفاظ پڑھنے لگا، اور کمرے میں اندھیرا چھا گیا۔
ابھی اسے اس رسم کی پوری طرح ادائیگی کیلئیے شاہ میر کی ضرورت تھی
کیونکہ ہیر اور شاہ میر دونوں کی روحوں کو ایک ساتھ قابو میں کر کے ہی وہ اپنی طاقت حاصل کر سکتا تھا
قمر نے مشعل اٹھا کر بازنتوش کی طرف پھینکی، لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔
“تم جیسے کمزور انسان میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے!” بازنتوش نے کہا۔
صدف نے جلدی سے ہیر کو ہوش میں لانے کی کوشش کی، اور آخرکار ہیر کی آنکھیں کھل گئیں۔
ہیر حیرت زدہ انداز میں قمر اور صدف کو دیکھ رہی تھی
یہ حیرت انگیز سلسلہ ابھی جاری ہے
مزید واقعات اگلی قسط میں