Soul Mates Episode 07

Soul Mates
By Sahir Sami
Episode 07

سلطان مرزا کا ایک قریبی ساتھی اکمل خان اپنے بیڈروم میں لیٹا خراٹے لے رہا تھا ۔ اس سے کچھ فاصلے پر اسکی بیوی کانوں میں انگلیاں دئیے لاحول پڑھ رہی تھی
وہ اسکی خراٹے لینے کی بیماری سے تنگ آ چکی تھی اور ایسے زوردار خراٹے سن کر اسکی نیند اڑ چکی تھی
اکمل خان ایسے خراٹے لے رہا تھا جیسے کوئ موٹر سائیکل فل سپیڈ میں چل رہی ہو
اسکی بیوی زبیدہ جو برداشت کی آخری حد پر تھی جھنجلا کر اٹھ بیٹھی اور زور سے اسکے کندھے کو جھنجھوڑنے لگی
اکمل خدا کا واسطہ ہے بند کرو یہ خراٹے
مجھے نیند نہیں آرہی
مگر وہ گھوڑے بیچ کر سونے والا بھلا کہاں اٹھنے والا تھا
آخر وہ چپل پہن کر دوسرے کمرے میں جانے لگی جب اسکی نظر دروازے سے قطار در قطار اندر جاتی چیونٹیوں پر پڑی
معمول سے تھوڑی بڑی جسامت کی چیونٹیاں دیکھ کر وہ حیران ہوئ
زبیدہ کی نیند اب پوری طرح اڑ چکی تھی۔ اس نے الجھن میں چیونٹیوں کو غور سے دیکھا جو قطار در قطار کمرے میں ایسے داخل ہو رہی تھیں، جیسے کسی خفیہ مشن پر ہوں۔

“یا اللہ! یہ کہاں سے آ رہی ہیں؟” وہ خود سے بولی اور جھک کر ان کا پیچھا کرنے لگی۔

چیونٹیوں کی قطار سیدھا اکمل کے بستر کی طرف جا رہی تھیں۔ زبیدہ نے ماتھے پر بل ڈالے اور بیڈ کی چادر اٹھائی، مگر نیچے کچھ نظر نہ آیا۔ پھر اس نے تکیہ ہٹایا اور جھٹکے سے پیچھے ہٹی—اکمل کے تکیے کے پاس چینی کے چھوٹے چھوٹے ذرات بکھرے ہوئے تھے!

“اوہ! تو یہ معاملہ ہے!” زبیدہ نے غصے سے اکمل کی طرف دیکھا جو بے خبر خراٹے لے رہا تھا۔

اکمل کو میٹھا کھانے کی عادت تھی اور وہ اکثر رات کو چپکے سے مٹھائی کھا کر سوتا تھا، مگر آج شاید وہ چینی کی پڑیا ہاتھ میں لیے ہی سو گیا تھا، جو اب بکھر کر چیونٹیوں کو دعوت دے رہی تھی۔

زبیدہ نے ایک نظر چیونٹیوں پر ڈالی، پھر اکمل پر، اور شرارت بھری مسکراہٹ اس کے چہرے پر آ گئی۔

“اچھا جناب، اب تمہیں مزہ چکھانا ہی پڑے گا!”

زبیدہ خاموشی سے کچن میں گئی، ایک بڑا چمچ شہد لے آئی، اور آہستہ سے اکمل کی گردن کے قریب لگا دیا۔ پھر صوفے پر جا کر بیٹھ گئی اور مزے سے چیونٹیوں کا اگلا قدم دیکھنے لگی۔

چند لمحوں بعد… اکمل نے نیند میں ہی گردن کھجائی، مگر جب ایک ساتھ درجنوں چیونٹیوں نے اسے کاٹا، تو وہ چیخ مار کر بستر سے اچھلا!
“اوہ ماں! یہ کیا ہو رہا ہے؟!”
زبیدہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑی، “یہ تمہارے خراٹوں کی سزا ہے، اکمل خان!
اب اکمل کا غصے سے لال چہرہ دیکھنے لائق تھا، مگر زبیدہ کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔

اکمل خان گردن کھجانے کے لیے ہاتھ بڑھاتا مگر ہر بار جھٹکے سے پیچھے ہٹ جاتا۔ اس کے جسم میں جلن بڑھنے لگی، جسم کے تمام پٹھے کھنچنے لگے، رگوں میں جیسے بارود بھر کر آگ لگا دی گئ ہو، اس کا سانس پھولنے لگا۔

زبیدہ پہلے تو ہنستی رہی، مگر جب اکمل کا چہرہ سرخ سے نیلا پڑنے لگا، تو اس کے اوسان خطا ہو گئے۔

“اکمل! یہ کیا ہو رہا ہے؟!”

اکمل نے کپکپاتے ہونٹوں سے کچھ بولنے کی کوشش کی، مگر آواز جیسے گلے میں ہی گھٹ کر رہ گئی۔ اس کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں، اور وہ اپنا گلا پکڑنے لگا۔
یہ روبوٹک چیونٹیاں تھیں جن میں زہر ٹرانسفر کرنے کے بعد مایا نے تجربے کے طور پر پہلا ٹارگٹ اکمل خان کو بنایا تھا
اکمل کے ہونٹ نیلے پڑ چکے تھے، اور اس کی سانسیں رکنے لگی تھیں۔ زبیدہ کے پاس وقت بہت کم تھا۔
وہ دوڑتی ہوئ باہر آئ اور گارڈز کو آواز دینے لگی
جب تک گارڈز پہنچتے اکمل خان کی سانسیں رک چکی تھیں، اس کا چہرہ تکلیف کی شدت سے سیاہ پڑ چکا تھا
ہر طرف بھگدڑ مچ گئ، زبیدہ دھاڑیں مار مار کر بین کرنے لگی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مایا نے نہایت ہوشیاری سے اکمل خان کو ٹارگٹ کیا تھا۔ وہ اسکی کوٹھی سے کچھ فاصلے پر ایک بند پڑے مکان سے سب کچھ آپریٹ کر رہی تھی اور جیسے ہی اس کا کام مکمل ہوا وہ بنا کوئ ثبوت چھوڑے وہاں سے نکل گئ
جاتے جاتے وہ سلطان مرزا کیلیے ایک پارسل اکمل خان کی کوٹھی کے باہر پھینک گئ
اس کا مقصد سلطان مرزا کو اکسانا تھا تاکہ وہ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے بل سے نکل آئے اور وہ اس کا شکار کر سکے
اس کا وجود کامیابی کی خوشی میں سرشار تھا۔ اس کی برسوں کی محنت رنگ لے آئ تھی اور اس کے تیار کردہ زہر کا کامیاب تجربہ اسے سرشار کر رہا تھا
اب وہ بنا سامنے آئے صرف آپریٹ کر کے زہر اپنے ہدف تک پہنچا سکتی تھی اور جسے چاہے شکار بنا سکتی تھی
مکان سے کچھ فاصلے پر پارکنگ میں اسکی گاڑی کھڑی تھی
وہ گاڑی تک پہنچی اور نہایت تیزی کے ساتھ وہاں سے روانہ ہو گئ
اسے احساس نہ ہو سکا کہ ایک بائیک اس کے تعاقب میں روانہ ہو چکی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عائشے گل ساحر کی تلاش میں سرگرداں تھی
اس نے پاکستان پہنچنے کے فوراً بعد ہی ساحر کی تلاش شروع کر دی تھی اور اس کا ساتھ دے رہا تھا ساحر کا یونیورسٹی وقت سے جگری دوست سب انسپکٹر قمر زمان
ساحر اچانک ہی کہیں غائب ہو گیا تھا اور قمر نے بھی عائشے کی طرح اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی مگر پھر اپنی مصرفیات میں الجھ کر رہ گیا تھا
اب جبکہ عائشے نے اس سے رابطہ کر کے ساحر کو ڈھونڈنے میں مدد طلب کی تھی تو وہ دوبارہ سے اسکی تلاش کرنے کی تیار ہو چکا تھا
اس نے سب سے پہلے تو ساحر کی تصاویر مختلف لوگوں کو سینڈ کر دی تھیں تاکہ اس کا سراغ جلد از جلد لگایا جا سکے
اس کے بعد وہ عائشے کے ساتھ ساحر کے آبائ گاؤں کی طرف روانہ ہو چکا تھا تا کہ وہاں سے کچھ معلومات حاصل کر سکے
اتنا تو وہ جانتا تھا کہ ساحر ایک مدت سے اپنے گاؤں بھی نہیں گیا تھا اور وہ اپنی فیملی کو بھی کہیں اور شفٹ کر چکا تھا
قمر کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ ساحر ایسا کیا کام کر رہا تھا جس کی وجہ سے اسے روپوش رہنا پڑ رہا تھا حتی کے اپنے قریبی دوستوں سے بھی لاتعلق ہو گیا تھا
جاری ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top