قسط نمبر 16
از قلم: ساحر سمیع
وہ قیدی بائیک سوار کرسی پر بندھا ہوا تھا، اور اس کی آنکھوں میں ایک عجیب وحشت تھی۔
“بتاؤ، تم لوگ کون ہو؟ اور ہمیں کیوں مارنے کی کوشش کر رہے تھے؟” سالار نے دھمکی آمیز لہجے میں پوچھا۔
قیدی نے ہنسی کے ساتھ کہا، “تم سمجھتے ہو کہ تم نے سلطان مرزا کو ختم کر دیا اور کہانی ختم ہوگئی؟ نہیں! اصل کھیل تو اب شروع ہوا ہے۔ وہ جس کے لیے ہم کام کرتے ہیں، وہ تم سب کو مٹی میں ملا دے گا۔”
مایا نے خنجر نکال کر اس کی گردن پر رکھتے ہوئے سرد لہجے میں کہا، “نام بتاؤ، ورنہ میں تمہیں ایسی اذیت دوں گی کہ موت بھی آسان لگے گی!”
قیدی نے ہنکارا بھرا۔ “تم مجھے مار سکتی ہو، مگر ہمارے باس کا نام کبھی نہیں جان پاؤ گی”
ساحر نے آگے بڑھ کر قیدی کی گردن پکڑی، “تمہارا باس کون ہے؟”
قیدی ہنسا، مگر ساحر نے زناٹے دار تھپڑ اس کے چہرے پر جڑ دیا
بتاؤ کون ہے تمہارا باس
قیدی نفرت آمیز نگاہوں سے ساحر کو دیکھنے لگا مگر کچھ نہیں بولا
ساحر نے مایا کے ہاتھ سے خنجر لے کر اس آدمی کے سامنے کر دیا
بتاؤ ورنہ اذیت ناک موت مرو گے
تم کبھی نہیں جان پاؤ گے۔ وہ آدمی اپنی ڈھیٹ پن پر قائم تھا
ساحر کا ہاتھ گھوما اور خنجر اس کے گال پر لکیر کھینچتا ہوا اس کی ناک کے درمیان سے گزر گیا
وہ آدمی زور سے چیخنے لگا ۔ اس کا چہرہ خون آلود ہو چکا تھا
جلدی بتاؤ ورنہ تمہارے جسم کے ہزاروں ٹکڑے کروں گا اور بھیانک موت ماروں گا
وہ آدمی بدستور چیخ رہا تھا
کبھی نہیں۔ تم چاہو تو میری جان لے لو میں کبھی نہیں بتاؤں گا
سالار جو اتنی دیر سے کھڑا تماشہ دیکھ رہا تھا آگے بڑھا اور اپنی انگلی سیدھی کرتے ہوۓ اس آدمی کی آنکھ میں گھسانے لگا
تکلیف کی شدت اور خون سے لتھڑا چہرہ اس آدمی کو بھیانک بنا رہا تھا اور وہ ادھر ادھر سر مار رہا تھا
مایا نے غصے سے دیوار پر مکا مارا۔ “یہ لوگ اتنے پروفیشنل ہیں کہ مرتے مر جاتے ہیں پر اپنے راز باہر نہیں نکلنے دیتے”
یہ کہتے ہوئے وہ گھومی اور زور دار لات اس آدمی کے چہرے پر دے ماری
وہ کرسی سمیت الٹ کر نیچے گرا جبکہ مایا نے اپنی جوتی کی ایڑی اس کے نرخرے پر رکھ دی
بتاؤ ورنہ جان سے جاؤ گے
یہ کہتے ہوئے اس نے ایڑی۔ کا دباؤ بڑھایا اور وہ آدمی تڑپنے لگا
جلدی بتاؤ آخری بار پوچھ رہی ہوں
کچھ لمحے توقف کر کہ وہ اس آدمی کے چہرے کو دیکھتی رہی جہاں سوائے انکار کے اور کچھ نہ تھا
مایا نے ایڑی اس زور سے گھمائ کہ اس آدمی کے گلے سے خرخراہٹ کی آواز آنے لگی اور چند لمحوں بعد اسکی آنکھیں پتھرا چکی تھیں
☆☆☆
دبئی کے ایک پوش ہوٹل میں دو آدمی سگار پیتے ہوئے آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔
“گھوسٹ لیڈی اور اس کے ساتھی حد سے بڑھ رہے ہیں۔ سلطان مرزا کی موت کے بعد انڈرورلڈ کا توازن بگڑ چکا ہے۔” شیراز خان نے کہا، جو ایک مشہور انڈرورلڈ ڈان تھا۔
ازلان میر نے مسکرا کر کہا، “مایا، سالار اور ان کے ساتھیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ مگر طاقت سے نہیں، دماغ سے!”
اب تک وہ مایا کی اصلیت کا پتہ کر چکے تھے اور بس اسکی لوکیشن جاننے کی کوشش کر رہے تھے
انہیں کے ساتھی نے ہی سالار کا نمبر نکال کر دھمکی آمیز کال کی تھی مگر یہ اس کی غلطی تھی جس سے سالار اور مایا نے بروقت ساحر کی مدد کرتے ہوئے حملہ آوروں کو دھول چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا
اب دشمن ایک دوسرے کی طاقت کو سمجھنے لگ گئے تھے اس لئیے دونوں طرف سے احتیاط اور دماغ سے کام لیا جا رہا تھا
جاری ہے
☆☆☆

The plot twists in these episodes are absolutely thrilling! The character development is so well done, it’s hard not to get emotionally invested. The chemistry between the leads is undeniable, making every scene captivating. I can’t wait to see how the story unfolds in the next episodes. Do you think the main characters will finally confess their feelings? Given the growing economic instability due to the events in the Middle East, many businesses are looking for guaranteed fast and secure payment solutions. Recently, I came across LiberSave (LS) — they promise instant bank transfers with no chargebacks or card verification. It says integration takes 5 minutes and is already being tested in Israel and the UAE. Has anyone actually checked how this works in crisis conditions?
This episode was really intense! The character development is getting deeper with each scene. I can’t wait to see how the relationships evolve in the next episodes. The plot twists keep me on the edge of my seat. What do you think will happen between the main characters in the upcoming episodes? German news in Russian (новости Германии)— quirky, bold, and hypnotically captivating. Like a telegram from a parallel Europe. Care to take a peek?